نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ایک ملاقات معروف صحافی عزیز سنگھور کے ساتھ: صدائے بلوچستان

بلوچستان کے حوالے سے تقسیم در تقسیم کی پالیسی ابھی بھی جاری ہے جنوبی بلوچستان کے نام پر مکران اور قلات کو بلوچستان کے دوسرے علاقوں سے جدا کیا جارہا ہے عسکری سطح پر تمام انتظامی معاملات طے کرلیے گئے ہیں ۔

عزیز سنگھور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تعارف

عزیز سنگھور صحافت کے شعبے سے منسلک ہیں عملی صحافت کا آغاز 1994 میں کیا۔ قومی اور بین الاقوامی صحافتی اداروں سے وابستہ رہے۔ روزنامہ ڈان کے ساتھ کام کیا ڈیلی ٹائمز اور دی نیشن میں بطور رپورٹر کام کرچکے ہیں، ہفت روزہ تکبیر میں فیچر لکھتے رہے اور ہفت روزہ غازی میں انوسٹی گیٹو رپورٹر کے طور پر خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔
ڈاکومنٹری میکنگ میں مہارت رکھتے ہیں اور بین الاقوامی چینلز کے لیے بطور ڈاکومنٹر پروڈیوسر کام کرچکے ہیں۔
ان کے فلمائے گئے ڈاکومنٹری فلم کی اسکریننگ فلم فیسٹیولز میں بھی ہوچکی ہے آج کل بلوچستان کے معروف اخبار روزنامہ آزادی کے لیے ہفتہ وار کالم لکھتے ہیں کالموں کا موضوع بلوچستان، بلوچ سیاست کراچی کے بلوچ، ماحولیات، تاریخ اور انسانی حقوق کے حوالے سے ہے۔

سوال : بطور صحافی آپ نے بلوچستان میں کام کیا آپ کس طرح دیکھتے ہیں بلوچستان میں صحافت کو کتنی آزادی ہے ؟

جواب : 2000 سے لیکر 2002 تک میں نے بلوچستان میں روزنامہ ڈان کے لیے کام کیا ہے بلوچستان میں صحافت کو خراب کردیا گیا ہے ،صحافیوں کو مارا گیا شہید کیاگیا بلوچوں کے دواخبار روزنامہ توار اور روزنامہ آساپ کو بندکردیاگیا روزنامہ توار کے نیوز ایڈیٹر کو لاپتہ کرکے اُسکی مسخ شدہ لاش پھینک دی گئی روزنامہ آساپ کے بانی و دانشور جان محمد دشتی پر قاتلانہ حملہ کیاگیا مجبوری میں انہیں روزنامہ آساپ کو بند کرنا پڑا بلوچستان میں بلوچوں کے صرف چار اخبار تھے جن میں دو کو بند کردیاگیا باقی دو اخبار روزنامہ انتخاب اور روزنامہ آزادی کے اشتہارات کو بند کرکے انہیں مالی حوالے سے کمزور کر دیا گیا
بلوچی کا صرف ایک ریجنل چینل ہے اُسے بھی دشواری کا سامنا ہے اس کے برعکس سندھی پشتو اور پنجابی کے سینکڑوں ریجنل چینل لانچ ہوچکے ہیں لیکن بلوچی چینل کے لیے کسی کو بھی لائسنس جاری نہیں کیا جارہا بہت سے لوگوں نے بلوچی زبان کی چینلز کے لائسنس کے لیے اپلائی کی ہے لیکن انہیں لائیسنس نہیں دیا جارہا۔ یعنی ریاست نے میڈیا کے حوالے سے بھی عجب پالیسی اپنالی ہے۔

سوال : پاکستان میں بڑے بڑے میڈیا ادارے ہیں آخر کیا وجہ ہے کہ بلوچستان کو کوریج نہیں ملتی ،کیا ریاست کی پالیسی ہے یا میڈیا مالکان اس کے زمہ دار ہے ؟

جواب : دیکھیں پاکستان کا میڈیا کنٹرولڈ میڈیا ہے یہاں ظاہری طور پر دو چیزیں ہیں صحافی رپورٹر اور مالکان،پالیسی مالکان دیتے ہیں کہ کیا چلانا ہے اور کیا نہیں چلانا،صحافی کمیونٹی کا کردار اپنی جگہ صحیح ہے لیکن مالکان کو جو ہدایات دی جاتی ہیں وہ ویہی کرتے ہیں لیکن اس کا سب سے بڑا نقصان خود انہی میڈیا ہاؤسز کو ہوا ہے میڈیا کے بڑے بڑے اخبارات بلوچ ایریا میں پڑھے نہیں جاتے جنگ جیسا بڑا اخبار سرکاری اداروں کے سوا کہیں پر بھی پڑھا نہیں جاتا بلوچستان میں ان بڑے بڑے میڈیا ہاؤسز کے نہ چینلوں کو لوگ دیکھتے ہیں اور نہ ہی انکے اخبارات کو پڑھتے ہیں کیونکہ بلوچوں کا اعتبار اب ان میڈیا ہاؤسز سے اُٹھ چکا ہے بلوچ اب سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے مسائل خود دکھا کررہے ہیں اس میں وہ کامیاب بھی ہیں۔

سوال : عالمی منظر نامے میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں آپ اِن تمام معاملات میں بلوچ قومی سوال کے مستقبل کو کیسے دیکھتے ہیں ؟

جواب : بلوچستان کا مسئلہ اب انتہائی گھمبیر نہج پر پہنچ چکا ہے بلوچستان اور بلوچ کے لیے ملکی اور بین الاقوامی دونوں پالیسیاں بہت ہی گھمبیر ہیں، ایک زمانے تھا جب بلوچستان میں کالج ، ہسپتال ، روڈ اور پانی جیسی بُنیادی ضروریات کے نعرے لگتے تھے لیکن اب یہ تمام مطالبات چھوٹے پیمانے کے بن چکے ہیں۔ بلوچستان کے لوگ اب اِس سے آگے کی ڈیمانڈ کررہے ہیں۔
بلوچستان کا موجودہ مسئلہ بلوچ قومی تشخص کا ہے۔ بلوچ ثقافت، زبان، تاریخ اور سیاسی و معاشی مسائل سب کے سب بلوچستان کے نکتہ نظر سے منسلک ہیں جبکہ دوسری جانب ملکی اور بین الاقوامی پالیسیاں ایسی ہیں کہ بلوچوں کے لیے ان میں کوئی بھی رعایت نہیں چھوڑی ہے۔
ماضی میں بھی لڑو اور لڑاؤ حکومت کرو جیسی پالیسی کے تحت بلوچستان کو تقسیم در تقسیم کے مراحل سے گزرا گیا مرکزیت کو پارہ پارہ کیا گیا بلوچستان کے حوالے سے جو پالیسیاں انگریزوں کی تھیں ان کا تسلسل اب بھی جاری ہے بس شکلیں تبدیل ہوچکی ہیں۔
ماضی میں بلوچستان ایک وسیع خطہ ہوا کرتا تھا انگریزوں نے اِسے توڑ کر تین حصوں میں بانٹ دیا ایک حصہ ایران کے حوالے کیا گیا جو سیستان بلوچستان کے نام سے جاناجاتا ہے دوسرا حصہ افغانستان کو تحفتاً دیا گیا اور ایک حصہ پاکستان میں شامل کردیاگیا پاکستانی بلوچستان کے کچھ حصے سندھ اور کچھ حصے پنجاب میں شامل کر دیے گئے ۔
بلوچستان کے حوالے سے تقسیم در تقسیم کی پالیسی ابھی بھی جاری ہے جنوبی بلوچستان کے نام پر مکران اور قلات کو بلوچستان کے دوسرے علاقوں سے جدا کیا جارہا ہے عسکری سطح پر تمام انتظامی معاملات طے کرلیے گئے ہیں ۔
آپ دیکھیں نہ بلوچستان میں دو آئی جی ایف سی ہیں کونسا ایسا صوبہ ہے جہاں دو آئی جی ایف سی بٹھائے گئے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ اِن کے مستقبل کا پلان یہی ہے کہ جنوبی بلوچستان کو ایک الگ صوبہ بنائیں اور باقی بلوچستان کو دو حصوں میں تقسیم کریں۔
تربت کیچ یا گوادر میں ہیڈ کوارٹر بنائے جائینگے تربت کیچ میں عسکری حوالے سے کافی ڈیویلپمنٹ ہورہا ہے اڈے بن رہے ہیں اُن پر کام تیزی سے جاری ہے گوادر میں بین الاقوامی ائیرپورٹ بنائی جارہی ہے ابھی گوادر کو بین الاقوامی ائیرپورٹ سے زیادہ پینے کے پانی کی ضرورت ہے۔
گوادر میں اچھے تعلیمی ادارے موجود نہیں ہیں گوادر کو یونیورسٹی کی ضرورت ہے ہسپتال کی ضرورت ہے پورے بلوچستان میں کینسر کا ایک بھی ہسپتال نہیں ہے۔
کراچی کوئٹہ سنگل روڈ پر مختلف حادثات میں روزانہ بلوچستان کے لوگ مرتے ہیں ایک اندازے کے مطابق ہرسال ایک ہزار کے قریب لوگ بلوچستان میں ٹریفک حادثات کی وجہ سے مر جاتے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہوجاتے ہیں، سنگل روڈ ہے تیزرفتاری ہے کوئی روک تھام نہیں ہے۔
پاکستانی بلوچستان کے ساتھ ابھی ایرانی سیستان و بلوچستان کو بھی چار حصوں میں تقسیم کرنے کی منصوبہ بندی ہوچکی ہے ایران کہہ رہا ہے کہ وہ سیستان و بلوچستان کو چار حصوں میں تقسیم کررہا ہے یہ تمام پالیسیاں بلوچ کی مرکزیت کو توڑنے کے لیے مرتب کی گئی ہیں تاکہ بلوچ سیاسی ،معاشی ،سماجی ، جغرافیائی اور عسکری حوالے سے کمزور ہوں جغرافیائی حوالے سے یہ بلوچوں کی سرحدوں کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں یہ تمام چیزیں بلوچوں کے آپسی رشتوں کو کمزور کرنے کے لیے کیے جارہے ہیں ایران نے چاہ بہار پورٹ چائینہ کے حوالے کردیا ہے اور چائینہ وہاں ایک نیا شہر بسا رہا ہے جہاں لاکھوں کروڑوں لوگوں کو آباد کرنے کا منصوبہ ہے اِس سے چاہ بہار کے بلوچ اقلیت میں چلے جائینگے اسی طرح پاکستانی بلوچستان میں گوادر سے لیکر جیونی پھر ایرانی بارڈر تک چلے جائیں جو تقریبا 700/750 کلو میٹر پر محیط ہے اِس پٹی پر بھی نئے شہر آباد کرنا چاہتے ہیں مختلف ہاؤسنگ سوسائٹی لانچ کررہے ہیں۔ اِن ہاؤسنگ سوسائٹیز کی بڑھتی ہوئی رفتار کو دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ مستقبل میں بلوچستان میں پانچ کروڑ لوگ بسانا چاہتے ہیں بلوچستان کی موجودہ آبادی ایک کروڑ یا سوا کروڑ کے لگ بھگ ہے اگر آپ پانچ کروڑ لوگ باہر سے لاکر یہاں آباد کرینگے تو بلوچستان کا تشخص ہی ختم ہوجائے گا اور وہ ہمیشہ کے لیے تاریخ کا حصہ بن جائے گا کل یہاں ایم پی اے سے لیکر سی ایم اور گورنر بھی باہر سے امپورٹ ہوکر آئینگے بلوچ پھر ریڈ انڈین بن جائینگے یہ بہت ہی خطرناک پلان ہے بلوچوں کے لیے۔
دوسری جانب آپ اگر عالمی سطح پر دیکھیں تو وہاں بھی بلوچ کو کوئی بھی سپورٹ نہیں کر رہا ہے بلوچ اپنی مدد آپ کے تحت سے جدوجہد کر رہا ہے بلوچ پر الزام لگائے جاتے ہیں کہ اِنھیں بیرونی قوتوں کی سپورٹ حاصل ہے۔ لیکن بلوچ سے کوئی نہیں پوچھ رہا۔ نہ امریکہ نہ عرب ممالک اور نہ ہی یورپی یونین ، لیکن الزامات لگ رہے ہیں کہ بیرونی مداخلت ہے لیکن زمینی حقائق مختلف ہیں۔
یہ بات اب واضح ہوچکی ہے کہ چائینہ پاکستان اور ایران کی شکل میں ایک ٹرائیکا بن چکی ہے جو پورے خطے پر اپنا کنٹرول چاہتی ہے گوادر کو باڑ میں رکھنا انہی پالیسی کا تسلسل ہے ابھی عوامی دباؤ کی وجہ سے گوکہ گوادر فینسنگ کا پروگرام وقتی طور پر بند کردیاگیا ہے لیکن مستقبل میں اس پر دوبارہ کام شروع ہوگا۔
حکمران کہتے ہیں کہ گوادر پورٹ کارگو ہینڈلنگ کے لیے ہے جبکہ کارگوہینڈلنگ کے لیے شہر کو باڑ میں رکھنا کسی بھی طرح شعوری منطق نہیں ہے کارگو ہینڈلنگ کے لیے پورٹ کے دائرے کار کو بڑھانے کی ضرورت ہوگی سرمایہ داروں کو آزادانہ طور پر آمدورفت کی ضرورت ہوگی جب آپ باڑ لگا کر شہر کو ایک چھاؤنی بناؤگے تو اِس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ اِس کو کارگو پورٹ بنانا نہیں چاہتے ،باڑ عسکری کاموں کے لیے لگائی جاتی ہے ۔
ابھی چائینہ نے چاہ بہار پورٹ لی ہے چاہ بہار اور گوادر اتنا دُور بھی نہیں ہیں اگر دیکھا جائے سینٹرل ایشیاء کی جتنی ضروریات ہیں وہ چاہ بہار پورٹ سے پوری ہوسکتی ہیں چاہ بہار پورٹ پر پہلے سے انفرسٹکچر موجود ہے پانی، بجلی اور ریلوے ٹریک بھی موجود ہے گوادر میں نہ ریلوے ٹریک ہے نہ ہی پانی اور نہ بجلی موجود ہے کل اگر ایران اپنی بجلی بند کردے آپ پورٹ کو کس طرح چلائینگے۔
ایک تو پورٹ بناکر بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اُڑائی گئی ہیں بین الاقوامی قوانین یہ کہتی ہیں کہ آپ جہاں پر بھی کوئی بڑا منصوبہ شروع کر رہے ہوں تو سب سے پہلے وہاں کے مقامی لوگوں کی بنیادی حقوق کے حوالے سے قانون سازی کریں لیکن گوادر کے حوالے سے ابھی تک کوئی قانونی سازی نہیں کی گئی صوبہ کا ہوتے ہوئے گوادر پورٹ کو سیدھا وفاق کے کنٹرول میں دے دیا گیا ہے یہ تو صوبائی خود مختاری پر ایک حملہ ہے اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کی نیت میں فتور ہے آپ کو بلوچستان پر بھروسہ نہیں ہے ۔
پورٹ بنانے سے قبل گوادر میں کوئی بھی ٹیکنیکل ادارہ نہیں بنایا گیا لوگوں کو ٹیکنیکل بنیادوں پر مضبوط بنانے کے لیے کسی بھی قسم کے اقدامات نہیں اٹھائے گئے کل یہاں صنعتیں لگیں گی کاروبار ہوگا اور اِن صنعتوں کے لیے ماہر لوگوں کی ضرورت ہوگی جب گوادر میں ایسے ماہر لوگ دستیاب نہیں ہونگے تو ظاہر ہے باہر سے لوگوں کو لاکر برسرروزگار کیا جائے گا پھر یہ پورٹ گوادر کے لوگوں کے لیے نہیں ہوا ۔

سوال : بلوچستان مسئلہ کے حوالے سے بلوچستان کی سیاسی پارٹیوں کی جانب سے عملی پیش رفت کیوں نہیں ہورہا کیا بلوچستان میں حقیقی سیاسی جماعتوں کا فقدان ہے؟

جواب : بلوچستان میں واقعی سیاسی جماعتوں کا فقدان ہے یا جو سیاسی جماعتیں بلوچستان میں عوامی قوت رکھتی ہیں بلوچستان کے مسائل پر اُن کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے
بلوچستان کی سیاسی جماعتیں جن کے پاس عوامی مینڈیٹ بھی ہے ،میں باپ جماعت کی بات نہیں کر رہا کیونکہ سب کو پتہ ہے کہ یہ پارٹی امپورٹڈ شدہ ہے مسلط کردہ پارٹی ہے باپ پارٹی کے لوگ 450ووٹ لیکر ایم پی اے بن جاتے ہیں ،
میں نیشنل پارٹی اور بی این پی مینگل کی بات کررہا ہوں اِن دونوں جماعتوں کے پاس عوامی قوت موجود ہے بی این پی صوبائی ،قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بھی موجود ہے اِن کا کردار جیسا ہونا چاہیے میری نظر میں وہ بلوچستان ایشوز پر ایک فیصد بھی کام نہیں کررہے ہیں یوں لگتا ہے بلوچستان میں لیڈرشپ کا فقدان ہے اور ایک سیاسی خلا پیدا ہوچکی ہے۔
تربت کیچ کے علاقے ڈنک میں ایک واقعہ پیش آیا تھا نجی آرمی کے لوگ ڈکیتی کے لیے ایک گھر میں گھس جاتے ہیں اور ایک بلوچ خاتون اُن کے سامنے مزاحمت کرتی ہے نجی آرمی کے لوگ اُسے شہید کردیتے ہیں ڈنک کے لوگ قتل میں ملوث ڈکیت کو دبوچ لیتے ہیں اب سب کو پتہ ہے کہ نجی آرمی کے یہ بندے کس کے لیے کام کرتے ہیں ،ڈنک واقعہ پر بلوچستان کی سیاسی جماعتیں مکمل طور پر خاموشی اختیار کرلیتی ہیں تربت کیچ جو نیشنل پارٹی کا مسکن ہے بجائے اِس کے کہ پہلا احتجاج کیچ سے کیا جاتا پہلے پہل گوادر میں سول سوسائٹی کے چار پانچ لوگ احتجاج کے لیے نکل پڑتے ہیں۔ مظاہرے کو سوشل میڈیا میں بھر پور توجہ مل جاتی ہے گوادر کے بعد پھر مختلف علاقوں میں احتجاج کیے جاتے ہیں اور یہ تمام ریلیاں خود رو سطح پر ہوتی ہیں اُنھیں بلوچستان کی کسی بھی سیاسی جماعت کا سپورٹ حاصل نہیں ہوتا،
میری نظر میں بلوچستان کی جتنی بھی سیاسی جماعت ہیں سب مصلحت پسندی کا شکار ہیں اُس وقت بھی سیاسی جماعتوں نے شاید یہ سمجھا ہوگا کہ چونکہ ڈنک واقعہ میں ملوث لوگ اداروں کے ہیں اور بلوچستان میں حکومتیں بنانے اور ختم کرانے میں یہی اداروں کا عمل دخل ہوتا ہے بلوچستان کی سیاسی جماعتیں اِن اداروں کو کھبی بھی ناراض کرنا نہیں چاہتے۔
بلوچستان کے مختلف علاقوں میں منشیات کے کاروبار میں ملوث لوگوں کے بارے میں سب کو پتہ ہے کہ یہ کون ہیں
اور ایک سازش کے تحت بلوچستان کے بلوچ علاقوں میں منشیات کو پھیلا گیا ہے مکران کو بین الاقوامی منشیات اسمگلنگ کا روٹ بنادیاگیا ہے افغانستان سے منشیات براستہ مکران بیرون ممالک اسمگل کی جاتی ہے اور یہی منشیات مقامی سطع پر بھی پھیلائی جاتی ہے
یہ ایک طاقتور مافیا ہے بلوچستان میں سرعام منشیات کا دھندہ ہوتا ہے اور اِس وبا سے متاثر نوجوانوں کے خاندانوں نے مکران کے علاقے بلیدہ میں ریلی نکالی اور منشیات کے اڈوں کو جلایا گیا اور احتجاج کی قیادت بھی عام گھریلو خواتین نے کی ہے۔ خواتین کے احتجاج کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی اور اس کے بعد بلوچستان بھر میں منشیات مٹاؤ تحریک شروع کردی گئی۔ اس تحریک میں بلوچ قوم پرست جماعت نیشنل پارٹی اور بی این پی مینگل کا کوئی کردار نہیں ہے.
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بلوچستان میں (پولٹیکل ویل) نہیں ہے بلوچستان کی جو سیاسی جماعتیں پارلیمانی سیاست کررہی ہیں اُن میں کوئی بھی (پولٹیکل ویل) نہیں ہے وہاں ایک سیاسی بحران ہے اور اسی سیاسی بحران کی وجہ سے ہر مسلئے پر عوام بذاتِ خود میدان میں آجاتی ہے حالانکہ تمام مسائل سیاسی ہیں، منشیات کا مسئلہ ہے وہاں ڈکیتیاں ہورہی ہیں اُن کو روکنا سیاسی جماعتوں کا کام ہے کیونکہ سیاسی جماعتوں کے پاس مینڈیٹ ہے سیاسی جماعت آرگنائزڈ ہیں وہ ہر مسئلہ اسمبلی اور سینیٹ میں اُٹھا سکتے ہیں لاہور اسلام آباد جہاں بین الاقوامی میڈیا موجود ہے وہاں احتجاج ریکارڈ کراسکتے ہیں ان پر قانون سازی بھی کراسکتے ہیں کیونکہ اسمبلیوں کے اندر ان کے نمائندے موجود ہیں
بدقسمتی یہ ہے کہ وہ خاموش ہیں اُن کا اس طرح خاموش رہنا انتہائی خطرناک ہے اُنکو ایسی خاموشی اختیار نہیں کرنی چاہیے آج بلوچستان کے لیے ملکی اور بین الاقوامی سطع پر جو پالیسیاں بن رہی ہیں اُن میں بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کا کردار زیرو ہے ۔

سوال : بلوچستان کا مسئلہ معاشی ہے یا سیاسی ،اور اس پر حکمرانوں کی پالیسیوں کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں ؟

جواب : دیکھیں بلوچستان کا مسئلہ معاشی سیاسی دونوں ہے اور یہ تمام مسائل کمیونٹی سے منسلک ہیں آج بلوچستان کے جو حالات ہیں وہ غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہیں ۔
2000سے لیکر 2021 تک بہت سے لوگوں کو مارا گیا لاپتہ کیاگیا اکبر بگٹی کو شہید کردیاگیا یعنی بلوچستان کے حالات خراب کیے گئے، سیاسی سرگرمیوں پر بندش لگادی گئی سیاسی مسائل کو بندوق کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی گئی ۔
جب آپ سیاسی سرگرمیوں کو فوجی طاقت سے حل کرنے کی کوشش کرینگے تو سیاسی مسئلہ خود بہ خود عسکریت پسندی میں تبدیل ہوجائے گا، سیاسی مسلئے کو بندوق کی زور پر حل کرنے سے بلوچ عسکریت پسند سامنے آگئے انسرجنسی پیدا ہوگئی اور آج بلوچستان میں انسرجنسی ہے عسکریت پسندی اور گوریلا جنگ چل رہی ہے یہ سب ریاست کے غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہورہے ہیں۔
بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے اور اُسے سیاسی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے یہ بات اگر اُنکی سمجھ میں آجائے تو صحیح ہے ورگرنہ یہ مسئلہ مزید گھمبیر اور پیچیدہ ہوگا۔
بلوچستان کے حالات کی وجہ سے پاکستان میں معاشی مسئلہ پیدا ہورہا ہے بلوچستان میں انسرجنسی کی وجہ سے 70ہزار لوگ اپنا گھربار چھوڑ کر بے گھر ہوچکے ہیں۔ ہجرت کرکے حب،کراچی اور اندرون سندھ منتقل ہوگئے ہیں اب بلوچستان کے آئی ڈی پی ایس کے حوالے سے بھی کوئی واضح پالیسی نہیں بنائی گئی ہے دوسری جانب جنوبی وزیرستان کے جو آئی ڈی پی ایس ہیں اُن کا خیال رکھا جارہا ہے اور وہاں اقوام متحدہ اور حکومت پاکستان کام کررہی ہے لیکن بلوچستان کے آئی ڈی پی ایس کی آبادکاری کے لیے اقوام متحدہ خاموش ہے۔
بلوچستان سے جو 70ہزار لوگ مختلف علاقوں سے نقل مکانی کر گئے ہیں نہ انہیں کھانا دیا جارہا ہے اور نہ ہی اُنکے لیے کیمپ لگائے گئے ہیں یعنی اقوام متحدہ بھی بلوچوں کو نظرانداز کررہا ہے ۔
بلوچستان میں جو جنگی صورتحال ہے اُس نے بلوچوں کی سماجی اور سیاسی صورتحال کو متاثر کردیا ہے ۔
شاید آپ کو یاد ہو کہ کوئٹہ سے اقوام متحدہ کے رکن جان سولیکی کو اغوا کیا گیا تھا جان سولیکی کو شاید اس لیے اغواء کیاگیا تھا تاکہ اقوام متحدہ بلوچستان کے مسئلے کا نوٹس لے اُس وقت اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری نے بلوچ مسلح تنظیمیوں سے جان سولیکی کے رہائی کی اپیل کی جس پر اُسے بحفاظت چھوڑ دیا گیا ۔

سوال : بلوچستان کی قوم پرست لیڈر شپ کراچی میں بسنے والے بلوچوں کے مسائل کو کس طرح دیکھتا ہے ؟

جواب : دیکھیں کراچی ایک ایسا شہر ہے جس نے بلوچستان سے اُٹھنے والی ہر تحریک کی آبیاری کی ہے اور اُس میں اول دستے کا کردار ادا کیا ہے بلوچ اسٹوڈنس آرگنائزیشن کا قیام بھی کراچی سے ہوا ہے اور اسی کراچی سے میر غوث بخش بزنجو نے لیاری کی نشست پر الیکشن جیتا تھا نیپ کے جتنے بھی لیڈر تھے، خیربخش مری، عطااللہ مینگل نے اُس وقت لیاری میں اتنا بڑا جلسہ عام کیا تھا کہ آج تک کوئی بھی پارٹی اُس جیسا جلسہ نہیں کرسکا ہے ۔
بلوچستان کے مسنگ پرسنز ہوں یا کہ فوجی آپریشن اُس کے خلاف کراچی نے ہمیشہ اپنا کردار ادا کیا ہے کراچی کے بلوچوں نے بلوچستان کے سیاسی اور معاشی سفر میں اہم کردار ادا کیا اور آج بھی کررہا ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ بلوچ قوم پرست جماعتوں نے کراچی کے بلوچوں کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کیا ہے کراچی کے بلوچ اس بات پر شکوہ کناں بھی ہیں ۔
لیاری میں گینگ وار مسلط کردیاگیا ملیر اور دوسرے بلوچ گوٹھوں کے اندر گینگ وار کی سرپرستی کی گئی لیاری کو سیاسی حوالے سے کمزور کرنے کے لیے لیاری کے نوجوانوں کے ہاتھوں کتاب کے بجاے اسلحہ تھما دیاگیا گینگ وار کے نام پر بلوچوں کا قتل عام کیاگیا اِن تمام مسائل پر بلوچستان کے بلوچ قوم پرست خاموش رہے ہیں بلوچ قوم پرست جماعتوں کو یہ تمام مسائل بلوچستان اسمبلی سمیت قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اُٹھانے چاہیے تھے لیکن بلوچستان کی قوم پرست لیڈر شپ خاموش رہی ۔
گینگ وار کے ذریعے کراچی کے بلوچ علاقوں میں منشیات کو عام کردیاگیا یہاں بھی اصل ہدف بلوچستان کی بلوچ تحریک تھی کیونکہ اُنہیں پتہ تھا کہ لیاری کے بلوچ بلوچستان کے بلوچ قومی تحریک کے لیے اہم کردار ادا کررہے ہیں ۔
کراچی میں بھی ریاست کی پالیسیاں بلوچوں کے ساتھ صحیح نہیں ہیں۔ کراچی کے جتنے بھی بلوچ گوٹھ ہیں وہاں بلوچوں کی اراضیات پر قبضہ کیا جارہاہے ملیر،ماری پور،گڈاپ منگھوپیر یعنی جہاں جہاں بلوچ گوٹھ ہیں اُنہیں مسمار کیا جارہا ہے مبارک ویلیج میں پاکستان نیوی نے بلوچوں کے ہزاروں ایکڑ اراضی پر قبضہ کیا ہوا ہے یہاں پر بلوچوں کی تین سوسال پرانی آبادی ہے وہاں اب بلوچوں کو گھر تعمیر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
ماری پور میں بلوچوں کی پرانی آبادیاں ہیں لیکن وہاں بلوچوں کے پاس ابھی تک حق ملکیت نہیں ہے ملیر بحریہ ٹاؤن بن رہی ہےاور ابھی نیا ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی بنارہے ہیں اور اسکی زد میں بلوچوں کے چوبیس گوٹھ آرہے ہیں جنہیں مسمارکیا جارہا ہے اِس ڈیفنس کو اُس ڈیفنس سے ملانے کے لیے اور اپنی ہاؤسنگ اسکیم کو آباد کرنے کے لیے بلوچوں کی صدیوں سے آباد گوٹھوں کو تباہ کیا جارہا ہے اُنکی چراگاہوں اور باغات کو تباہ کیا جارہا ہے اِن تمام مسائل پر بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں خاموش ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

مسنگ سٹی۔۔۔عزیز سنگھور

گوادر پنجرے میں۔۔۔عزیز سنگھور

ڈرگ مافیا کا سماجی احتساب۔۔۔عزیز سنگھور

لسبیلہ میں جعلی ہاؤسنگ اسکیمز کی بھرمار||عزیز سنگھور

کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف ماہی گیروں کا احتجاج۔۔۔عزیز سنگھور

سندھ پولیس کا بلوچستان کے عوام کے ساتھ ناروا سلوک۔۔۔عزیز سنگھور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بشکریہ ،صدائے بلوچستان

عزیز سنگھور کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author