نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

یہ بھی پولیس والا ہے||جام ایم ڈی گانگا

کانسٹیبل سے لے کر آفیسرکی سطح تک جس پربھی کریمنل کیس درج ہوگا،اسے فوری طور پر معطل کیا جائے گا. جب تک مذکورہ افسر یا اہلکار مقدمہ سے بری نہیں ہوجاتا تب تک وہ اپنے عہدے سے معطل ہی رہے گا۔

جام ایم ڈی گانگا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محترم قارئین کرام،، پنجاب پولیس میں کسی دور میں بھی کالی بھیڑوں کی کوئی کمی نہیں رہی. دراصل ہماری پولیس کا اپنا نظام اور پھر اوپر سے سیاسی مداخلت نے پنجاب پولیس کے چہرے کو ہمیشہ سے داغ دار کیا ہوا ہے.اگر غیر جانبدارانہ طور پر ہم پولیس کے اندرونی و بیرونی ڈھانچے کا مشاہدہ کریں روزمرہ کے معاملات تو دیکھیں تو لامحالہ یہی کہنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ پولیس اور کرپشن لازم و ملزوم ہیں. پنجاب پولیس کی سروس کرپشن کیے بغیر یا کم ازکم ڈائریکٹ و ان ڈائریکٹ مجبورا کرپشن کو برداشت کیے بغیر نہیں کی جا سکتی. اچھی پوسٹنگ کا تو سوچا بھی نہیں جا سکتا.

 ان حالات میں آئین و، قانون کی بالا دستی، میرٹ انصاف کی فراہمی کے دعوے کیے اور نعرے تو لگائے جا سکتے ہیں مگر مذکورہ بالا دونوں چیزوں کی گرد کو بھی نہیں چھوا جا سکتا.سونے پے سہاگہ جب سے لفافہ صحافیوں نے طبالچی، خوشامدی اور جاسوسی ومخبری کا کردار سنبھال لیا ہے یقین کریں کالے کو چٹا اور چٹے کو کالے ثابت کرنے میں یا دھڑلے سے دن کو رات اور رات کو دن کہنے میں کوئی جھجک تک بھی محسوس نہیں کرتا شرمندگی تو بہت دور کی بات ہے.

مجھے لنک روڈ ماڈل ٹاون خانپور کی بیوہ خاتون کے مکان و دکان پر قبضے کی کہانی بھی یاد آرہی ہے.رحیم یار خان کی بیوہ خاتون شاہدہ تسنیم درانی اور اس کے یتیم بچوں حنا خورشید درانی وغیرہ کی موضع محمد پور قریشیاں چک 76این پی تحصیل رحیم یارخان میں واقع 52ایکڑ چھ کنال زمین پر صاحب اقتدار گروپ کے بااثر قبضہ گروپ کی داستان بھی وقت کے حکمرانوں سے فریاد کرتے ہوئے انصاف مانگتی نظر آ رہی ہے.

ان کی شنوائی کب ہوگی. کون ڈیفالٹر مستاجر سے بیوہ اور یتیموں کی زمین واگزار کرا کر دے گا. سپیشل برانچ سمیت وطن عزیز کی مرئی و غیر مرئی ایجنیسیاں کب حقائق کی اصل رپورٹ متعلقہ اداروں اور حکمرانوں کوپہنچائیں گے اور بتائیں گے کہ اس قبضہ گروپ کو کون سے صوبائی اور وفاقی وزیر کی مکمل اور اندھا دھند سرپرستی حاصل ہے.رحیم یارخان کی انتظامیہ کس قدر ان کے دباؤ کا شکار ہے. خیر اس موضوع پر پھر تفصیل سے تمام کرداروں کو علیحدہ سے لکھیں گے

محترم قارئین کرام،، آج میں آپ کے ساتھ رحیم یارخان پولیس اور پنجاب پولیس کے حوالے سے تین خبریں شیئر کرنا چاہتا ہوں پہلی خبر ملاحظہ فرمائیں
رحیم یارخان پولیس سپیشل. ُ ُ برانچ اور سٹی اے ڈویژن پولیس کی بڑی کارروائی ،تھانہ سٹی سے چند قدم فاصلے پر منشیات فروخت کرتے ہوئے پولیس کانسٹیبل گرفتار،چرس اور پیروئن بھی برآمد،بڑا نیٹ ورک پکڑے جانے اور دیگر پولیس ملازمین کے ملوث ہونے کا بھی امکان, تھانہ اے ڈویژن سے ملحقہ شہر کے وسط میں واقع سٹی فلائی اوور کے آس پاس نشے کے عادی افراد نے شہریوں کا جینا حرام کر رکھا تھا جبکہ انہیں منشیات بیچنے والوں نے پولیس کی نیندیں اڑا رکھی تھی ڈی پی او اسد سرفراز نے منشیات فروش کو پکڑنے کا ٹارگٹ دے رکھا تھا جس پر سیکورٹی برانچ ، اور سٹی اے ڈویژن پولیس گزشتہ تین روز سے ناکہ بندی کر رکھی تاھم منشیات فروش نشہ بیچ کر ایسے غائب ہو جاتا تھا جیسے گدھے کے سر سے سینگ

گزشتہ رات ایس ایچ او تھانہ اے ڈویژن چودھری شبیر جھورڑ کی نگرانی میں منشیات فروش کو اچانک سیکورٹی اہلکار ممتاز سولنگی اور پولیس اہلکاروں نے گھیر کر پکڑا تو وہ پولیس لائن میں تعینات بشارت نامی پولیس کانسٹیبل نکلا جس سے قبضہ سے بھاری مقدار میں چرس اور ہیروئن برآمد کر لی گئی ڈی پی او اسد سرفراز نے کانسٹیبل کو فی الفور معطل کرتے ہوئے اس کے خلاف منشیات ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر لیا۔ٗ ٗ

کیا ضلعی انتظامیہ، پولیس اور محکمہ ایکسائز حکومت پنجاب یہ بتا سکتے کہ انہوں نے ایک سال کے دوران ہر ماہ کتنی اور کس قسم کی منشیات پکڑی. اس کو کہاں کب اور کن کی موجودگی میں تلف کیا. کیا یہ درست نہیں ہے کہ پکڑی جانے والی منشیات میں سے بہت تھوڑی تعداد شو کی جاتی ہے. یہی منشیات دوبارہ مخصوص ایجنٹوں اور پولیس اہلکاروں کے ذریعے بیچی جاتی ہے. یہ کوئی نیا نہیں پرانادھندہ ہے.

اب دو نمبر سمگل شدہ ایرانی تیل کا کاروبار دیکھیں کیسے دھڑلے سے چل رہا ہے. اس نیٹ ورک کون کون اور کیسے چلا رہا ہے.پولیس کی وردیوں میں منشیات کی فارورڈنگ بھی کئی دفعہ پکڑی گئی ہے.یہ لوگ حصے کے چکر میں بے ایمانی کی وجہ سے پکڑے جاتے ہیں ورنہ ان کو کون پوچھتا ہے.دراصل ہمارے ارباب اختیار کو اس نقطے پر سوچنا اور اس کاحل نکالنا ہوگا کہ پولیس کے جوانوں سے انہیں دی جانے والی تنخواہ اور دیگر حاصل مراعات کے عوض ان سے کیا کیا، کون کون سے کام لیے جاتے ہیں. ان کی ڈیوٹی کا دورانیہ اور کاغذات میں مہیا کیے جانے والے دستیاب وسائل وسہولیات کیا ہیں. کیا پولیس ڈیپارٹمنٹ کو ایک گندہ تالاب اور دلدل نہیں بنا دیا گیا.یہاں اپنے دامن کو بچانا کتنا مشکل اور سخت و کٹھن ہے. کوئی سیف اللہ خان کورائی جیسے پولیس آفیسر سے پوچھے.

 ایک راشی تفتیشی اور وقت کے حکمرانوں کا چہیتا تفتیشی کتنا منہ زور اور طاقت ور ہوتا ہے کہ وہ ڈیس ایس پی کو بھی میرٹ اور انصاف نہیں کرنے دیتا.ایسی اندرونی راز کی باتیں ارباب اختیار رانا اکمل رسول، جاوید اختر جتوئی جیسے اچھے پولیس آفیسرز سے پوچھ سکتے ہیں.خانہ خراب ہو ایسی سیاسی مداخلت کا اور اس قدر چٹی دلالی و رشوت ستانی کا.جو میرٹ پسند آفیسر کو بھی میرٹ نہیں کرنے دیتے. ہائے اچھی پوسٹنگ کی مجبوریاں.

محترم قارئین کرام،، رحیم یارخان پولیس کے ایک اے ایس آئی اسماعیل گھلیجہ کی اچانک وفات پر میں گذشتہ تین چار دنوں سے ان کے اخلاق و کردار کے حوالے سوشل میڈیا پر مختلف طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا ان کے بارے میں اظہار خیال اور جذبات و احساسات پڑھ کر یہ سطور لکھنے پر مجبور ہو گیا ہوں کہ ابھی پولیس میں اخلاق رویے اور کردار کے حوالے سےاچھے لوگ باقی ہیں. قبل ازیں میں اسماعیل گھلیجہ کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا. مجھے معلوم ہوا ہے کہ پیر عبدالمالک جمال دین والی کا یہ سپوت ایک عام کسان گھرانے سے تعلق رکھنے والا شخص ہے.

اس کے گھر کے حالات یہ گواہی دے رہے ہیں کہ اس نے پولیس میں رہ کر دھن دولت نہیں عزت کمائی ہے. میری دعا یے کہ اللہ تعالی اس کی مغفرت فرمائے اس کے اہل و عیال کی بہترین کفالت کا بندوبست فرمائے. مجھے امید ہے کہ پولیس ڈیپارٹمنٹ اپنے ایسے قابل فخر جوان کے پسماندگان کے لیے ضرور کوئی اقدام اٹھائے گی.
محترم قارئین کرام اب تیسری خبر ملاحظہ فرمائیں. اور دعا فرمائیں کہ اللہ تعالی ہمارے حکمرانوں اور متعلقہ ارباب اختیار کو نیک نیتی کے ساتھ اپنی اس سوچ اور گائیڈ لائن پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ خلق خدا کو اس کے ثمرات نصیب ہو سکیں کہا جا رہا ہے کہ
ُ ُ ُ پولیس کی کارکردگی کو بہتر بنانےاور رشوت کلچر کے خاتمے کے لیے پنجاب حکومت کا اہم اقدام. صوبہ بھر کے تھانوں میں تعینات کریمنل کیسز میں ملوث تمام ایس ایچ اوز معطل کرنے کا فیصلہ

پنجاب پولیس کے 100 سے زائد تھانوں کے ایس ایچ اوز کواپریل2021ء میں معطل کردیا جائے گا.پنجاب کے تھانوں میں ایس ایچ او کی تعیناتیوں کے حوالے سے نئی گائیڈ لائنزجاری۔خراب سروس ریکارڈ اور کریمنل کیسز والے ایس ایچ اوز کو عہدوں سے ہٹادیا جائے گا۔آئندہ سے ایسے افسران جن کے خلاف کریمنل کیسز زیر سماعت ہیں یا جن کا سروس ریکارڈ خراب ہے انہیں ہرگز ایس ایچ او نہیں لگایا جائے گا

کانسٹیبل سے لے کر آفیسرکی سطح تک جس پربھی کریمنل کیس درج ہوگا،اسے فوری طور پر معطل کیا جائے گا. جب تک مذکورہ افسر یا اہلکار مقدمہ سے بری نہیں ہوجاتا تب تک وہ اپنے عہدے سے معطل ہی رہے گا۔

جس افسر نے انویسٹی گیشن ونگ یا تھانے میں بطور تفتیشی دو برس کام نہ کیا ہو اسے ایس ایچ او ہر گز نہیں لگایا جا ئے گا۔
ایس ایچ او کو تین ماہ سے پہلے عہدے سے ہٹانے سے قبل متعلقہ افسران کو آرپی اوز سے اجازت لینا ہوگی۔اگر کوئی سی پی او یا ڈی پی او ان گائیڈ لائنز سے انحراف کرتے ہوئے ایس ایچ او کو تعینات کرے گا تو متعلقہ آ ر پی او اسے ہٹانے کا مجاز ہو گا

ایس ایچ اوز کی تعیناتی بارے جاری گائیڈ لائنز سے انحراف پر متعلقہ افسران کو ہر صورت جواب دہ ہونا پڑے گا۔ایس ایچ اوز کی تعیناتیوں کو مزید شفاف بنانے کے لئے پولیس ہیومن ریسورس کے مرکزی ڈیٹا بیس (ہیومن ریسورس مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم) میں مانیٹرنگ کے نئے فیچرز بھی شامل کئے جارہے ہیں۔ٗ ٗ
کیا مذکورہ بالا نقاط پر عمل کرتے ہوئے اقدامات اٹھا کر پولیس کو اصلاح اور فلاح کی طرف گامزن کیا جا سکے گا یا نہیں. اس کا صحیح جواب تو وقت ہی دے گا. ایسی خوش کن باتیں تو ہر دور میں اور ہر نئے آنے والے آفیسران سے ہم سنتے چلے آ ریے ہیں.

 جب کہ حقیقت ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور والی ہی سامنے آتی ہے. کیا کوئی بڑا پولیس آفیسر بتا سکتا ہے کہ انسپکٹرز کی موجودگی میں سب انسپکٹرز کو تھانوں کاانچارچ کیوں لگایا جاتا ہے.کیس کی غلط تفتیش کرنے پر سزا کے قانون پر کتنا عمل کیا جاتا ہے.آئین و قانون کی حکمرانی یا قانون کی بالادستی اور صاحب اقتدار سیاستدانوں کی خوشنودی کے حصول میں سے کس کو اور کتنی ترجیح دی جاتی ہے. مختلف مافیاز کے ساتھ ڈیل اور ڈھیل کا کھیل اس وقت کس مرحلے اور مقام پر پہنچ چکا ہے. اس غیر مرئی مگر حقیقی راج کے کرداروں میں کون کون اور کس قدر شامل ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ اصلاح کے لیے ان باتوں پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے

یہ بھی پڑھیے:

مئی کرپشن ہم کدھر جا رہے ہیں؟۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

شوگر ملز لاڈلی انڈسٹری (1)۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

شوگر ملز لاڈلی انڈسٹری (2)۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

پولیس از یور فرینڈ کا نعرہ اور زمینی حقائق۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

جام ایم ڈی گانگا کے مزید کالم پڑھیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مضمون میں شائع مواد لکھاری کی اپنی رائے ہے۔ ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں

About The Author