وجاہت مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یکم ستمبر 1930ء کو مشرقی پنجاب (تب ہندوستان) کے مردم خیز قصبے گڑ گاﺅں میں پیدا ہوئے۔ ابن عبدالرحمان نام ہے۔ لیکن آئی اے رحمان کے قلمی نام سے پہچان اور شہرت پائی۔ 1947ء میں علی گڑھ کالج میں ایف ایس سی کے طالب علم تھے۔ تقسیم کے بعد لاہور چلے آئے۔ اسلامیہ کالج سے بی ایس سی تک تعلیم پائی۔ 1951ء میں گورنمنٹ کالج سے طبیعات میں ایم ایس سی کیا. اسی برس انگریزی روزنامے پاکستان ٹائمز سے وابستہ ہوئے جہاں فیض احمد فیض اور مظہر علی خان جیسے باعلم اور کہنہ مشق رفقا سے اکتساب کا موقع ملا۔
صحافتی زندگی کا آغاز فلمی اور ثقافتی مبصر کی حیثیت سے ہوا مگر افتاد طبع نے ٹریڈ یونین کے ریگزار کا انتخاب کیا۔ ایوب خان کے عشرہ عساکر میں شہری آزادیوں بالخصوص آزادی صحافت کے دفاع کی جدوجہد میں شریک رہے۔ 1960ء میں پی پی ایل پر سرکاری قبضے کے بعد سیاسی نقطہ نظر اور فکر معاش کی کشاکش سے آشنائی ہوئی۔ 1970ء میں کچھ عرصے کے لیے روزنامہ آزاد سے وابستہ رہے۔ 1974ء میں پریس ٹرسٹ سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی۔ 75ء میں ایک بین الاقوامی جریدے سینما انٹرنیشنل کی ادارت قبول کی۔ 1977ء میں پاکستان میں پھر سے بندی خانوں کا موسم آیا۔ آئی اے رحمان بھی رونق زنداں رہے۔ اس دوران ہفت روزہ ویو پوائنٹ، روزنامہ ڈان، روزنامہ فرنٹیر پوسٹ اور خلیج ٹائمز میں آئی اے رحمان کے دبنگ اور کاٹ دار تبصروں سے فوجی آمریت انگاروں پر لوٹتی رہی۔ 1988ء میں عہد آمریت کے خاتمے کے بعد آئی اے رحمان پاکستان ٹائمز کے چیف ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ 6 اگست 1990 کی شام بے نظیر بھٹو حکومت کی برطرفی کی خبر سنتے ہی مستعفی ہو گئے۔
1987ء میں جمہوریت، شہری آزادیوں اور انسانی حقوق کے سربرآوردہ کارکنوں نے پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کی بنیاد رکھی۔ اس قافلے میں دراب پٹیل، عاصمہ جہانگیر، ڈاکٹر مبشر حسن. عزیز صدیقی اور نثار عثمانی کے شانہ بشانہ آئی اے رحمان بھی شریک تھے۔ 1990ء میں آئی اے رحمان نے پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کے ڈائریکٹر کا منصب سنبھالا اور جنوری 2017ء تک اس ادارے کی بے مثل رہنمائی کی۔
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران پاکستان میں جمہوری اقدار، شہری آزادیوں اور انسانی حقوق کے اصولی دفاع میں بین الاقوامی سطح پر قابل رشک معیار قائم کیا ہے۔ پاکستان میں اجتماعی انحطاط کا ایک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ افراد اور ادارے اعتماد کے بحران کا شکار ہو چکے ہیں۔ ایسی ناقابل رشک صورت حال میں پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کی فقید المثال کارکردگی پاکستانی عوام کے خوابیدہ جو ہر پر دلیل ہے۔ کمیشن کی مثالی کامیابی میں ان گنت بے لوث کارکنوں کا کردار اپنی جگہ لیکن پاکستان میں انسانی حقوق کی تحریک کے خدوخال ابھارنے میں آئی اے رحمان کی فکری اور علمی رہنمائی ،فراست اور لگن کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
آئی اے رحمان نے بلوچ ہواﺅں کی رندانہ آشفتگی کو گنگا جمنی تموج کی وارفتگی بخشی ہے۔ جذبے کی گرمی کو تفکر سے توازن دیا ہے۔ اس اچھوتے امتزاج سے باعمل دانشوری کا قد آدم سے کچھ نکلتا ہوا معیار سامنے آیا ہے۔ ان کے قلم کی روانی اور تکلم کی جولانی پاکستان میں سول سوسائٹی کا اثاثہ ہے۔ آئی اے رحمان ایک روایت، ایک رچاﺅ کا نام ہے۔ اس روایت کے ہوتے ہوئے پاکستان میں انسانی حقوق اور جمہوریت کا خواب دھندلا نہیں سکتا۔
بشکریہ ہم سب
یہ بھی پڑھیے:
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر