رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان جمہوری تحریک پر جن کی نگاہیں تھیں کہ دس جماعتیں ماضی کے تمام معاملات کو بُھلا کر‘ متحد اور متفق ہو کر ایسا سیاسی طوفان برپا کریں گی کہ عمران خان اگر اڑ نہیں جائیں گے تو کم از کم ان کے پیر ضرور اکھڑ جائیں گے‘ وہ اب مایوس دکھائی دیتے ہیں۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ حزبِ اختلاف کے اس اتحاد کے سب کھلاڑی ہمارے اپنے ہی ہیں‘ جدی پشتی سیاسی کاروبار کرتے آئے ہیں‘ اور اگر انہیں مواقع دیتے رہے تو آئندہ بھی ان کا کاروبار ممکن رہے گا۔ پاکستانی ہونے کی حد تک تو یہ بات درست ہے‘ مگر ”جمہوریت‘‘ کی بحالی کے خالی خولی نعروں اور عوامی تحریک کے دعووں کے بارے میں اکثر ذہنوں میں شکوک و تحفظات شروع میں بھی تھے‘ اب کچھ زیادہ ہو گئے ہیں۔ بڑے مولانا صاحب کی مستقل مزاجی اور استقلال کو تو ماننا پڑے گا کہ ادھر خبریں تیزی سے آنا شروع ہوئیں کہ تحریکِ انصاف کے کھلاڑی میدان مار رہے ہیں‘ ادھر حضرت صاحب نے گلی گلی‘ کوچے کوچے اعلانات کرانے شروع کر دیئے کہ دھاندلی ہوئی ہے‘ اور کمر کس کر میدان میں اتر آئے کہ اگر ہم نہیں کھیلیں گے تو تمہیں بھی ہرگز کھیلنے نہیں دیں گے۔ ان کا اصرار تھا کہ کوئی منتخب رکن قومی یا صوبائی اسمبلی‘ اسمبلیوں کا رخ نہ کرے‘ کہ کہیں غلطی سے بھی حلف نہ اٹھا لیں۔ شکر ہے کہ انہوں نے وہ بات نہ کی کہ ”ٹانگیں توڑ دوں گا‘‘۔ ایسی دھمکیاں بھی تو ”جمہوریت‘‘ اور ”جمہوری‘‘ حقوق کی حفاظت کے لیے طاقت ور لوگ دیا کرتے تھے۔ بہت شکایات ہیں ہمارے بعض دانش وروں کو کہ تاریخ صحیح نہیں لکھی جا رہی۔ سب کچھ تو ہمارے سامنے ہے‘ کچھ سیکھ ہی لیں۔ تب بھی مسئلہ یہی تھا کہ دوسرے کی آئینی‘ جمہوری اور قانونی حیثیت کو تسلیم نہیں کرنا۔ روایت برقرار ہے کہ آدھا ملک گنوانے کے بعد بھی دو غالب سیاسی دھڑوں کے جانشین ایک دوسرے کو رد کرتے رہے۔ اس سے بہت آگے بڑھ کر حکومتیں گرانے کے غیر آئینی اور غیر جمہوری ہتھکنڈے کھلم کھلا استعمال کرتے رہے۔ ریاستی وسائل کا بے دریغ استعمال کیا‘ جب اقتدار تھا‘ اور پھر دولت کے پہاڑ بنائے کہ جب کرسی نہیں ہو گی‘ تو دوسرے کی مسندِ اقتدار کی چولیں ڈھیلی کرنے کے لئے سرمائے کی ضرورت ہو گی۔ ہر دھڑے میں اندر خانے کئی دہائیوں سے سیاست کا پہلا اور آخری سبق یہ پڑھایا جاتا رہا ہے ”سیاست کرنی ہے تو مال بنائو‘‘۔ انہوں نے دولت کے پہاڑ کھڑے کر لیے‘ ملک بد حال اور کنگال ہو گیا۔ عوام ابھی تک نعروں کے فریب میں جیتے ہیں۔
میرے خیال میں حزبِ اختلاف کا جمہوری اور پارلیمانی کردار ہمارے بڑے بڑے سیاست کار سمجھنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے۔ ان میں سے دیکھ لیں‘ کتنے کبھی تھے‘ یا اب سیاسی صف بندی میں موجود ہیں‘ جنہیں پارلیمانی روایات‘ جمہوری نظریے اور عالمی تاریخ سے سیکھنے کا موقع ملا ہو۔ ذہنی استعداد اور علمی قابلیت کو چھوڑ دیں‘ ذاتی تجربہ بھی تو بہت بڑا استاد ہوتا ہے۔ دل اور دماغ کھلے ہوں تو عام آدمی بھی بہت کچھ سمیٹ لیتا ہے۔ ظلم یہ ہے کہ لبادے تو ہمیشہ جمہوری زیبِ تن فرمائے‘ مگر اندر کے بندے جمہوری طرزِ فکر اور اس کی اخلاقیات اور آداب کو جوتے کی نوک پر دھرتے رہے۔ انسانوں کے درمیان مقابلہ کھیل کے میدان میں ہو‘ اور کوئی بھی دنیا کا کھیل لے لیں‘ یا سیاست ہو‘ قوانین اور اصولوں سے طے پاتے ہیں۔ ہار جیت کے فیصلے نہ ہوں‘ ہارنے والا ہار نہ مانے‘ لڑائی پہ اتر آئے‘ برسوں تک نعرے بازی کرتا رہے‘ عوام کو ابھارے‘ اور صرف اسی صورت میں جمہوری جواز کو تسلیم کرے‘ جب اقتدار کے گھوڑے کی باگیں اس کے ہاتھوں میں تھما دی جائیں‘ تو پھر وہی ہو گا جو کئی دہائیوں سے اس ملک میں ہو رہا ہے۔ کہنے کو تو سب کہہ دیتے ہیں کہ اصول وضع شدہ اور واضح ہیں‘ آئین کی صورت میں اور انتخابی قوانین کی شکل میں‘ تو پھر یہ لڑائیاں کیونکر؟ سادہ سا جواب ہے: نام نہاد جمہوریت پسند اقتدار کی جنگ میں ہر حربے کو جائز اور ہر ہتھکنڈے کو ”جمہوری‘‘ رنگ دے کر ہی جمہوریت پر کند کلہاڑے کے وار کرتے رہے ہیں۔ ذرا ٹھنڈے دل سے ایوبی دور کے خاتمے سے لے کر آج تک کا جائزہ لیں‘ ایسا نہیں لگتا کہ ہماری سیاست امن و آشتی‘ بھائی چارے‘ ہم آہنگی‘ باہمی برداشت اور جمہوری روح سے خالی‘ افراتفری کی علامت ہے‘ اور اکثر ایسا میدانِ جنگ کہ ہمارے شہری امن اور ترقی کی خواہش میں پریشان اور بے چین رہتے ہیں۔
میں وثوق کے ساتھ کہتا ہوں کہ اگر آج ہماری بڑی سیاسی جماعتیں اپنے درمیان امن معاہدہ کر لیں‘ فائر بندی کا اعلان کریں‘ انتخابی اصلاحات پر یکجا ہوں‘ اور اداروں کو احتساب کے لئے کھلا چھوڑ دیں تو پاکستان میں اقتصادی ترقی کی شرحِ نمو محض دگنی نہیں ہو گی بلکہ ایسی تیز رفتاری سے بڑھے گی کہ دنیا حیران رہ جائے گی۔ ہم سرمایہ دارانہ نظام میں جی رہے ہیں۔ سرمایہ دار قومی ہو یا بین الاقوامی‘ صرف وہاں سرمایہ کاری کرتا ہے‘ جہاں امن ہو‘ سیاسی استحکام ہو‘ قانون کی حکمرانی ہو‘ انصاف جلد ملتا ہو‘ اور سیاسی نظام چلانے والوں کے دامن صاف ہوں۔ ترقی اور معاشی تبدیلی کے اصول بھی دنیا میں طے ہو چکے ہیں‘ اور تبدیلی کیسے آتی ہے‘ یہ کوئی ایسا علم یا ہنر نہیں‘ جس کا احاطہ ہمارے ملکی ماہرین نہ کر سکتے ہوں۔ اگر سیاست کے جگادری کھلاڑیوں کی جمہوریت کو تسلیم نہیں کریں گے اور ہر موسم میں اور ہمہ وقت حکومت گرانے کی تگ و دو میں رہیں گے تو سیاسی عدم استحکام پیدا ہو گا‘ اور سرمایہ کاری نہیں ہو سکے گی۔
عجب تماشا ہے کہ حزبِ اختلاف کی خواہش ہے کہ حکومت ناکام ہو جائے۔ مان لیتے ہیں کہ وہ حکومت کو ناکام کرنے کی سازشیں نہیں کرتے رہے‘ تو پھر اس سیاست کا مقصد عوام اور ملک خدمت کیسے ٹھہرا؟ اندر کی بات تو یہی ہے کہ ہماری روایتی سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے تینوں ستون… موروثی جماعتیں‘ نوکر شاہی اور میڈیا کا ایک حصہ… وہ سب کچھ کر رہے ہیں‘ جس سے عمران خان اور تحریکِ انصاف ”ناکام‘‘ ”نااہل‘‘ اور ”اوپر‘‘ سے لائے گئے بیانیے عوام کے ذہنوں میں نقش ہو جائیں۔ یہ تین تکونی بیانیے روزِ اول سے سیاسی جنگجوئوں نے تراش لئے تھے۔ جو مسائل کے انبار وہ لگا چکے تھے‘ ساختی نوعیت کے خصوصاً مالیات اور بجلی کی پیداوار کے شعبے اور قرضوں کی صورت میں‘ معیشت کی ابتدائی معلومات رکھنے والے کو بھی معلوم تھا کہ دنیا کے بہترین ماہرین بھی ملک میں لا کر بٹھا دیں تو اقتصادی بحالی جلد نہ ہو سکے گی‘ وقت لگے گا‘ اور عوام میں ایسا ہیجان برپا رکھا جائے گا کہ ہر طرف ناکامی اور نااہلیت کا شور مچایا جائے۔ یہ حکمت عملی جاری ہے۔ کوئی پوچھنے کی جرأت کر سکتا ہے کہ شریفوں کی حکومت نے تجارت کا خسارہ کتنا چھوڑا‘ قرضے کتنے لئے اور کرنسی کو مصنوعی طریقوں سے کیسے سہارا دیا؟ ہماری دو جمہوری حکومتوں کے قرضے‘ پاکستان کی ساری تاریخ کو ملا کر دیکھیں اور تمام ادوار کے قرضے جمع کریں تو ان سے زیادہ ہیں۔ تجارت خسارے میں ہو‘ ٹیکس جمع کرنے والی نوکر شاہی ٹیکس چوری میں ملوث ہو‘ سرمایہ کاروں کے لئے مشکلات پیدا کرے‘ اور بڑے بڑے سیاسی گھرانے‘ جو صنعتوں کے علاوہ سیاسی جماعتیں بھی چلاتے ہیں‘ غیر قانونی انتقالِ زر میں ماہر ہوں‘ ان حالات میں تبدیلی کا نعرہ لگانا تو آسان ہے‘ اس عمل کو آگے بڑھانے کے لئے ریاضت‘ مشقت‘ مستقل مزاجی اور پکے ارادے سے سفر جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ مستقل مزاجی اور اصلاحات کو پاپولزم کا شکار نہ ہونے دیا جائے۔ حزبِ اختلاف جو بھی کرے‘ کپتان کو مشکل فیصلے کرنا ہوں گے۔ بہت عرصہ پہلے کی بات ہے‘ مرحوم طارق عزیز اپنے ٹی وی پروگرام میں کچھ سوالوں کا جواب غلط ملنے پر کہتے تھے ”اب غلطی کی گنجائش نہیں ہے‘‘۔ وہی معاملہ یہاں بھی ہے۔ اب بھی وقت ہے‘ بہت کچھ ہو سکتا ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر