نذیر ڈھوکی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان میں پارلیمانی نظام کے بانی قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید ہیں جو آئین کا حصہ ہے ،آمر ضیا اور پرویز مشرف نے آئین کا حلیہ بگاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تاہم پارلیمانی نظام کو ختم کرنے میں ناکام رہے ۔ پرو اسٹیبلشمنٹ دانشور پارلیمانی نظام پر تنقید صدارتی نظام کی حمایت کرتے رہے ہیں، دیکھا جائے تو اس وقت پارلیمانی نظام کے خلاف سازشیں عروج پر ہیں ان سازشوں کے کئی رخ ہیں سوچنے کی بات یہ ہے اس سازش کا حصہ کون بن رہا ؟
مگر پاکستان پیپلزپارٹی اس سازش کی مزاحمت کر رہی ہے ، نہ صرف پارلیمانی نظام کا دفاع کر رہی ہے بلکہ آئین کو ایک بار پھر مسخ کرنے کی سوچ رکھنے والوں کے سامنے آہنی دیوار بن کر کھڑی نظر آ رہی ہے، کوئی مانے یا نہ مانیں مگر حقیقیت یہ ہے کہ آمریت چاہے ضیا کی ہو یا پرویز مشرف کی پاکستان پیپلزپارٹی نے تنہا اس کی مزاحمت کی ہے ۔ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے اگر پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن 2008 کے انتخابات میں حصہ نہ لیتیں تو جنرل پرویز مشرف آئین کو مکمل تہس نہس کردیتے ، صدر آصف علی زرداری نے پارلیمنٹ کی طاقت سے نہ صرف مشرف کو نکالا بلکہ ائین کو اصل صورت میں بحال کرکے جمہوری انداز میں آمروں کو شکست دی ۔ اب بنیادی سوال یہ ہے اگر حزب اختلاف کی پارٹیاں اسمبلیوں سے استعفے دیتی ہیں اس کے بعد کیا ہوگا؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے ۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے اسرار پر پی ڈی ایم کی جماعتوں نے ضمنی انتخابات میں حصہ لیکر چاروں صوبوں میں پی ٹی آئی کو شکست دی یہاں تک کہ قومی اسمبلی میں بھی ، مسلم لیگ ن اور جمعیت علماء اسلام ف کے سینیٹر بھی جیتے ، اس وقت مسلم لیگ ن اس پوزیشن میں پے پنجاب اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک لاکر بزدار کو گھر بھیج سکتی ہے جس کے اثرات وفاق پر ہونگے اور عمران نیازی کی حکومت اسلام آباد تک محدود ہوکر رہ جائے گی اس کے بعد اگلا نشانہ عمران نیازی کی حکومت آسان حدف ہوگا ،مگر نہیں معلوم کہ سارا زور اسمبلیوں سے استعفے دینے پر کیوں ہے ؟ اگر پی ڈی ایم کی جماعتیں اسمبلیوں سے استعفے دے دیتی ہیں جو اسپیکر قومی اسمبلی قسطوں میں منظور کرتا ہے کیا کسی کے بس میں ہوگا کہ ضمنی انتخابات کو روک سکے ؟ پھر ہوگا کیا؟ تین ماہ کے اندر تمام حلقوں میں انتخابات کرواکر من پسند افراد کو لایا جائے گا اور سلیکٹڈ وزیراعظم عمران نیازی کیلئے میدان صاف ہوگا وہ اس پوزیشن میں ہو جائے گا کہ 18 ویں آئینی ترمیم اورصوبوں کو ملنے والے این ایف سی ایواڈ کو ختم کریں گے اس لیئے ضروری ہے کہ پارلیمنٹ میں رہ کر کٹھپتلی کا راستہ روکا جائے ،ان سے پنجاب حکومت چھین لی جائے اور پھر انہیں گھر بھیجنے کیلیئے قومی اسمبلی کی طاقت استعمال کی جائے ، ضرورت اس بات کی ہے کہ صدر آصف علی زرداری سے رہنمائی حاصل کی جائے ،اور اسمبلیوں سے استعفے کو چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے بیانیہ کے مطابق ایٹم بم کے طور استعمال کیا جائے ، حیران کن بات یہ ہے کہ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کے حوالے سے سندھ مکمل تیاری کے ساتھ حکمت عملی طے کر چکی تھی چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی ہدایات پر پیپلز پارٹی سندھ کے صدر نثار کھوڑو نے صوبہ میں مکمل تیاری کر رکھی تھی ایسے میں اسمبلیوں سے استعفے کو لانگ مارچ سے مشروط کرنا واقعی حیرت انگیز ہے ۔
غور طلب پہلو یہ ہے کہ آخر پارلیمانی نظام کو اکھاڑنے کیلئے کون کون سر گرم ہے ؟ سچ تو یہ ہے کہ جمہوریت اور آئین کے دفاع میں پیپلزپارٹی آج بھی تنہا کھڑی ہے ۔
یہ بھی پڑھیں:
لیڈر جنم لیتے ہیں ۔۔۔ نذیر ڈھوکی
شاعر اور انقلابی کا جنم۔۔۔ نذیر ڈھوکی
نیب یا اغوا برائے تاوان کا گینگ ۔۔۔ نذیر ڈھوکی
ڈر گئے، ہل گئے، رُل گئے، جعلی کپتان ۔۔۔نذیر ڈھوکی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر