سارہ شمشاد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے جنوبی پنجاب کے عوام کی احساس محرومی ختم کرنے کے لئے قائم کئے جانے والے سیکرٹریٹ کی ناقص کارکردگی پر برہمی کا اظہار کیااور عوامی مسائل فوری حل نہ کرنے پر افسران کی سرزنش کی۔ وزیراعلیٰ پنجاب کاکہنا تھا کہ عوامی توقعات کے مطابق ڈلیور نہ کرنے والے افسر کو عہدے پر رہنے کا کوئی حق نہیں۔ جو نتائج نہیں دے گا وہ پنجاب میں نہیں رہے گا۔
وزیراعلیٰ عثمان بزدار کا جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کی کارکردگی پر برہمی کا اظہار بالکل درست ہے کیونکہ پچھلے چند دنوں سے سیکرٹریٹ ختم ہونے کی خبروں سے وسیب کے لوگوں میں غم و غصے کی کیفیت پائی جاتی ہے کہ موجودہ حکومت کی جانب سے بھی حسب روایت جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے قیام کا جو لالی پاپ دے کر انہیں بہلانے کی کوشش کی گئی تھی اب یکدم 7محکمے ختم کئے جانے سے عملاً جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ تقریباً ختم ہوکر رہ گیا ہے اور یوں اس خطے کے غریب عوام کی حسرت و یاس کی تصویر بن کر رہ گئے ہیں کہ جو بھی حکمران آتے ہیں ان کے جذبات سے کھیلتے ہیں اور بعد میں انہیں ٹھینکا دکھاکر بھاگ جاتے ہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب کے جنوبی پنجاب کے طوفانی دوروں سے عوام کو سمجھ نہیں آرہی کہ وہ خوش ہوں یا اپنی حالت زار پر ماتم کریں کیونکہ وزیراعلیٰ ایک ایسے وقت میں جنوبی پنجاب کے دورے کررہے ہیں کہ جب دوسری طرف وزیراعظم کی جانب سے پنجاب کی کمان تبدیل کرنے کی بازگشت سننے کو مل رہی ہے۔ یہی نہیں بلکہ بعض تجزیہ کار تو ان سے استعفیٰ لے لیا گیا ہے، کی بھی بات کررہے ہیں۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ایسا شخص جس کو اپنے عہدے پر رہنے یا نہ رہنے کا بھی علم نہ ہو تو ایسے میں اس کی جانب سے دیئے جانے والے احکامات کی کیا حیثیت ہوگی۔
یہ درست ہے کہ جب تک وزیراعلیٰ پنجاب کو عہدے سے نہٹں ہٹایا جاتا اس وقت تک وہ کوئی بھی حکم جاری کرسکتے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا تعلق ڈی جی خان جیسے پسماندہ علاقے سے تھا ایسے میں عوام کی جانب سے توقع کی جارہی تھی کہ وہ روایتی سیاستدانوں سے مختلف ہوں گے مگر افسوس کہ کوئی خاطر خواہ تبدیلی جنوبی پنجاب میں دیکھنے میں نہیں آئی بلکہ جنوبی پنجاب صوبے کے نام پر سیکرٹریٹ کا لالی پاپ دے کر جو عوام کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
وزیراعظم عمران خان اپنی ہر تقریر میں ٹورازم کو فروغ دینے کی بات کرتے ہیں لیکن نجانے جنوبی پنجاب ان کی نظروں سے کیونکر اوجھل ہے کہ یہ خطہ ہر لحاظ سے اپنی مثال آپ ہے لیکن پتہ نہیں کوئی خان صاحب کو اس بارے مبں بریفینگ نہیں دے رہا۔ہم ان سطور کے ذریعے کئی مرتبہ ارباب اختیار کی توجہ جنوبی پنجاب میں ٹورازم کے حوالے سے موجود پوٹینشل کی جانب دلواچکے ہیں لیکن کسی کے کان پر کوئی جوں تک نہیں رینگ رہی۔ اگر وزیراعظم کے ہر ڈسٹرکٹ میں یونیورسٹی کے قیام کے ہی اعلان کو دیکھ لیں تو یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ آج بھی جنوبی پنجاب کے کئی ڈسٹرکٹ ایسے ہیں جہاں یونیورسٹی تو کیا سکولز تک نہیں اور بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لئے کئی کئی میل پیدل سفر کرنا پڑتا ہے۔
کچھ ایسی ہی صورتحال صحت کی ہے اگرچہ وزیراعظم کی جانب سے پنجاب کے عوام کو رواں برس کے آخر تک صحت کارڈ کی سہولت دستیاب ہوگی، کی تسلی کروائی گئی ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ اگر وزیراعظم کے اعلانات کی فہرست مرتب کی جائے تو اس پر شاید کئی والیمز لکھے جاسکیں گے۔ وزیراعظم عمران خان کو یہ علم ہونا چاہیے کہ جنوبی پنجاب سے سب سے زیادہ نمائندگی پی ٹی آئی کو ملی ہے لیکن اس کے باوجود اس خطے کی ترقی کے لئے کسی قسم کے اقدامات کی زحمت نہ کرنا انتہائی تکلیف دہ عمل ہے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی جنوبی پنجاب کی تمام تر تکالیف، محرومیوں اور پسماندگی سے بخوبی آگاہ ہیں لیکن شرم کا مقام ہے کہ ان کی جانب سے کبھی اس خطے کی ترقی کے لئے کوئی اقدامات کو کبھی ضروری ہی نہیں سمجھا گیا۔ اگرچہ شاہ محمود قریشی اپنی ہر پریس کانفرنس میں ملتان کو جنوب پنجاب صوبے کا دارالحکومت بنانے کی عوام کو تسلی کرواتے ہیں لیکن یہ نشستن، گفتن اور برخاستن جیساہی محسوس ہوتا ہے اسی لئے تو جنوبی پنجاب کے سیکرٹریٹ کو بھی تقریباً رول بیک کرنے کی تیاریاں بھرپور انداز میں مکمل کرلی گئیں۔
عرصہ دراز سے محرومیوں کے شکار سرائیکی وسیب کے عوام وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اس خطے کا عرصہ دراز سے کوئی دورہ نہ کئے جانے پر بھی شدید نالاں ہیں کہ جب تک وہ اس خطہ کے لوگوں کے مسائل کی طویل کتھا نہیں سنیں گے تو انہیں اصل حقائق کا علم کیسے ہوگا۔ عوام کا یہ دکھ اور کرب بالکل ٹھیک ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے تو جواب یہی ہوگاکہ یہاں کے عوامی نمائندے اس طرح سے اس خطے کی نمائندگی نہیں کررہے جس کی ان سے توقع تھی یہی نہیں بلکہ یہاں کی بیوروکریسی بھی چونکہ شہباز شریف کی لگائی ہوئی ہے اسی لئے تو اسے بھی اس خطے کی ترقی میں قطعاً کوئی دلچسپی نہیں ہے اور جہاں تک ممکن ہے اس خطے کی ترقی میں رکاوٹیں ڈال کر معاملات کو مزید پیچیدہ بنایا جارہا ہے۔
ایسے میں جنوبی پنجاب کے غریب اور پسماندہ عوام کی حالت کچھ ایسی ہوگئی ہے کہ ’’اے وارثان صبح طرب چیختے رہو‘‘ایسی صورتحال میں عوام کس سے منصفی چاہیں کیونکہ سیاستدان، بیوروکریسی سب اپنے اپنے مفادات کے اسیر ہیں انہیں عوام کی خستہ حالی اور محرومیوں سے ٹکے کا بھی سروکار نہیں ہے اسی لئے عوام کو حالات کے رحم و کرم پر تڑپنے کے لئے چھوڑدیا گیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل جہانگیر ترین کے سیاست میں ایکٹو ہونے اور عمران خان سے اختلافات ختم ہونے کی خبریں اخبارات کی زینت بنیں تو عوام کو امید بندھی کہ شاید اس خطے کی ترقی کا بھی کسی کو کوئی ہوش آجائے لیکن ترین کی جانب سے لمبی خاموشی اور پھر سینیٹ الیکشن میں گیلانی کی جیت سے بہت سے سوالات عوام کے ذہنوں میں پیدا ہوگئے کہ یہاں سب کو اپنا اپنا مفاد عزیز ہے۔
اگرچہ جہانگیر ترین اپنی فائونڈیشن کے زیراہتمام لودھراں میں اچھے معیار کا سکول چلارہے ہیں لیکن ان کے ضلع میں یونیورسٹی کانہ ہونا اچھنبے کی بات ہے کہ علی ترین اور جہانگیر ترین دونوں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور ہائر ایجوکیشن کی راہ میں حائل عوام کو درپیش رکاوٹوں سے بخوبی آگاہ ہیں تو انہیں اس خطے کے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے ضروری اقدامات کرنے چاہئیں اور حکومت کی تعلیمی میدان میں ترقی کے لئے مدد کرنی چاہیے کیونکہ اس سے جہاں بچوں کو اعلیٰ معیار تعلیم میسر آئے گی وہیں پڑھے لکھے نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع بھی میسر آئیں گے اور یہی اس خطے کے لئے انتہائی اہم ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب کو چاہیے کہ وہ جنوبی پنجاب کی ترقی کی راہ میں حائل بیوروکریسی کو لگام ڈالیں اور اس خطے کی ترقی کے لئے ایک جامع روڈ میپ کا اعلان کریں اور ساتھ ہی تحریک انصاف اس حقیقت کو جان لے کہ اگر اس نے آئندہ انتخابات تک جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کو شرمندہ تعبیر کیا تو عوام آئندہ الیکشن میں اپنا ووٹ اپنے بہترین مفاد میں استعمال کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر