ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
8مارچ کو پوری دنیا میں خواتین کا عالمی دن منایا گیا ۔اس موقع پر تقریبات کا اہتمام ہوا اور ریلیاں نکالی گئیں،دائیں بازوکی جماعتوں نے یہ دن یوم حیاء کے طور پر منایا۔اس دن کا افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ صدر ،وزیر اعظم کے علاوہ پاکستان کے صوبوں کے گورنرز اور وزرائے اعلیٰ کی طرف سے کوئی پیغام پڑھنے کو نہیں ملا ۔ دوسرے افسوسناک پہلو کاتذکرہ بھی ضروری ہے کہ خواتین کے حقوق کی تحریک کو مردوں سے زیادہ نقصان اُن چند ایک خواتین نے پہنچایا ہے جنہوں نے ’’میرا جسم میری مرضی ‘‘ کا نعرہ لگایا ۔
ہر چیز کی حدود و قیود ہوتی ہیں کسی بھی معاشرے میں کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ بے حیائی کو عام کرے اور ساتھ ہی ڈھٹائی کے ساتھ یہ کہے کہ ’’میرا جسم میری مرضی ‘‘اس نعرے سے کسی اور کو نہیں بلکہ خواتین کے حقوق کی تاریخ کو نقصان ہوا ہے ۔خود خواتین کو آگے بڑھ کر اس طرح کے نعرے کی مذمت کرنی چاہیے اور خواتین کے حقوق کا جھنڈا بلند کرتے ہوئے اپنا نقطہ نظر پیش کرنا چاہیے، سب لوگ اُن کے ساتھ ہوں گے اور ان کے حقوق کی حمایت کریں گے۔ ترقی پذیر ممالک میں عورتوں کے خلاف امتیازی سلوک کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے ۔
ایک سروے کے مطابق کووڈ19کے بعد خواتین پر تشدد کے واقعات میں 200فیصد اضافہ ہوا ، اور معاشی مسائل نے مسئلے کو اور گھمبیر بنادیا ہے اور خواتین کے ساتھ ساتھ بچوں پر بھی جنسی تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، ان مسائل پر قابو پانے کے لئے حکومت کی طرف سے کوئی بہتر اقدام سامنے نہیں آیا ۔یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ پوری دنیا میں میل شاؤنزم ہے لیکن یورپ نے بہت حد تک عورت کو جزوی احترام دیدیا ہے لیکن ترقی پذیر دنیا میں آج بھی عورت کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے اور پاکستان میں بھی عورت صنفی امتیاز کا شکار ہے۔
کالا کالی کے ہر آئے روز واقعات ہوتے ہیں اور کالا کالی کے نام پر عورت کو قتل کیا جاتا ہے ۔ ’’ کالا کالی ‘‘ کی رسم کو کسی علاقے کیلئے قانون یا کسی قوم میں ثقافتی وراثت قرار دینا تو درست نہیں ، مگر بد قسمتی سے پاکستان کے کچھ حصوں میں اس گندی رسم کا نفاذ کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ سب سے پہلے اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ اس رسم کو مختلف علاقوں میں کس علاقے میں کون سے نام سے بلایا جاتا ہے اور اس کا دائرہ پاکستان کے کس کس علاقے میں پھیلا ہوا ہے ؟ اس رسم کو بلوچی زبان میں ’’ سیاہ کاری ‘‘ ، سندھی زبان میں ’’ کاروکاری ‘‘ اور سرائیکی میں ’’ کالا کالی ‘‘ کہا جاتا ہے۔
پنجابی ، پشتواور پوٹھوہاری زبان میں اس رسم کیلئے کوئی لفظ نہیں کیونکہ پنجاب، پشتو اور پوٹھوہاری علاقے میں اس رسم کا کوئی وجود ہی نہیں ۔ بات یہ نہیں کہ ان علاقوں میں یہ واقعات یا اس نتیجے میں قتل نہیں ہوتے ، یہ سب کچھ ہوتا ہے مگر ’’ کالا کالی ‘‘ رسم یا قانون کے طور پر ڈیل نہیں کیا جاتا۔ کالا کالی رسم یا قانون کی ابتدا آج سے نہیں صدیوں پہلے بلوچستان سے ہوئی تھی ۔
بلوچ ’’ جرگے ‘‘ میں اس رسم کو باقاعدہ قانون کا درجہ حاصل ہے۔ بلوچستان میں اگر کوئی شخص غیرت میں آ کر ’’ کالا کالی ‘‘ کو قتل کر دے تو بلوچ قانون میں اس جرم پر نہ صرف یہ کہ کوئی سزا نہیں بلکہ قاتل کیلئے جزاموجود ہے بلکہ اس کو انعام کے ساتھ ساتھ ’’ غیرت مند ‘‘ کا خطاب دیا جاتا ہے۔ سرائیکی خطے اور سندھ میں اس رسم کو قانونی حیثیت تو حاصل نہیں پر کسی نہ کسی شکل میں اس رسم کا وجود باقی ہے اور نام نہاد ’’ سردارانِ قوم ‘‘ اس کالے قانون یا ظالمانہ رسم کا نفاذ اپنے ذاتی عزائم اور مقاصد کیلئے کرتے رہتے ہیں۔
دین اسلام، آئین پاکستان اور دنیا کے کسی مہذب معاشرے میں اس سزا کا وجود نہیں ۔اسلام میں کالا کالی کو سنگسار کرنے کا حکم موجود ہے پر اس سزا کے نفاذکیلئے بھی شادی شدہ ، غیر شادی شدہ ، شک کی بجائے یقین جیسی شقیں موجود ہیں مگر ہمارے علاقے میں اس رسم کو انتہائی بھیانک اور غیر انسانی انداز میں استعمال کیا جاتا ہے اور اکثر اوقات جھوٹے الزامات لگا کر مرد و خواتین کو بیدردی سے قتل کیا جاتا ہے۔ نا حق قتل بہت بڑا جرم ہے ۔
غیرت کے نام پرکسی بے گناہ کا قتل قابلِ شرم اور نا قابلِ معافی جرم ہے۔ اب اس روش کو ختم ہونا چاہئے کہ عورت کے قتل کیلئے گھر کا ہی فرد قاتل ہوتا ہے اور دوسرا مدعی بن کر کچھ عرصہ بعد قاتل کو معاف کر دیتا ہے۔ اس بارے میں قانون سازی ، اس سے بڑھ کر قانون پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
دائرہ دین پناہ کا یہ واقعہ ہماری آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہے ، حکومت کے ساتھ ساتھ مقامی سطح پر بھی سمجھدار لوگ خصوصاً نوجوان اس طرح کے واقعات کی حوصلہ شکنی کریں ۔ اب بہت کچھ بدل چکا ہے ، کورونا کے بعد نیا زمانہ وجود میں آ رہا ہے ، اب جہالت کے بت توڑنا ہونگے اور جعلی پیروں کے خلاف جہاد کرنا ہوگا اور ظلم کا شکار ہونے والی صرف دائرہ دین پناہ کی ایک خاتون کو نہیں بلکہ تمام خواتین کو ظلم سے بچانا ہوگا اور میل شاؤنزم کے بت پاش پاش کرنا ہونگے اور ہر عورت کو ماں ، بہن اور بیٹی کے روپ میں دیکھنا ہوگا ورنہ یہ سوال باقی رہے گا کہ عورت پر ظلم کب تک ؟
یہ حقیقت ہے کہ ہر جگہ عورت ظلم کا شکار ہوتی ہے ۔ کہنے کو صنفی امتیاز کے بغیر ہر انسان کو برابر کے حقوق حاصل ہیں مگر عملی طور پر عورت کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے ۔
جنات کے حوالے سے جعلی اور ڈبہ پیروں کے قصے کہانیاں زبان زدِ خاص و عام ہیں ۔ جعلی پیروں نے بہت دوکانداری کر لی ہے ، ذاتی اغراض و ہوس زر کے لئے انسانیت پر بہت ظلم کئے ۔ کورونا وائرس نے بہت سے جعل سازوں کے نقاب اتار دیئے ، یہ تو کہتے تھے کہ کائنات کی ہر مرض کا ہم علاج کرتے ہیں ، اب یہ کورونا کے خوف سے گھروں میں چھپ کر بیٹھے ہیں ۔
اس طرح کے واقعات جہالت کی بناء پر ہوتے ہیں ،سرکارؐ کی آمد سے پہلے عرب میں بیٹی کو زندہ درگو کیا جاتا تھا ، یہ بھی جہالت کی بناء پر تھا ، وسیب میں اس طرح کے واقعات کے خاتمے کیلئے تعلیم اور تعلیمی اداروں کے قیام کے ساتھ ساتھ بیروزگاری کا خاتمہ اور وسیب کے لوگوں کو صوبہ اوراختیار دینا ضروری ہے تاکہ وہ غربت اور جہالت کی قید سے آزاد ہو سکیں ۔
یہ بھی پڑھیں:
ایک تاریخ ایک تہذیب:چولستان ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر