نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

گیلانی کی فتح اور اعتماد کا ووٹ||ملک سراج احمد

کوئی مانے یا نا مانے مگر یہ طے ہے کہ ان مداخلت کاروں کی مداخلت کم ہوئی ہے۔اور یوں اراکین اسمبلی کے مطابق ان کو اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ دینے کا موقع مل گیا۔

ملک سراج احمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان کے ایوان بالا جس کو سینیٹ کہا جاتا ہے کہ 48 نشستوں پر انتخابات ہونا تھے ۔تاہم25 فروری کو پنجاب سے سینیٹ کی 11 نشستوں پر سینیٹرز کے بلامقابلہ انتخاب کے بعد باقی ماندہ 37 نشستوں جس میں اسلام آباد کی 2،سندھ کی 11، بلوچستان کی 12اورکے پی کے کی 12 نشستوں کے لیے قومی اسمبلی اور تینوں صوبائی اسمبلیوں میں 3 مارچ کو پولنگ ہوئی۔ ۔اور ان انتخابات میں حکومتی اتحاد کو 28 اور اپوزیشن اتحاد کو 20 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی ہے۔سینیٹ کے انتخابی نتائج کم وبیش توقع کے مطابق ہی آئے سوائے اسلام آباد کی نشست کے جہاں پر پی ڈی ایم کے امیدوار سید یوسف رضا گیلانی نے تحریک انصاف کے امیدوار مشیر خزانہ حفیظ شیخ کو 5 ووٹوں سے شکست دے دی۔
3 مارچ کو ہونے والے الیکشن میں تحریک انصاف 18 نشستوں پر کامیاب ہوئی ان میں 5 پنجاب سے 10 کے پی کے ،2سندھ اور ایک نشست اسلام آباد کی شامل ہے۔اس طرح تحریک انصاف کی سینیٹ میں مجموعی نشستوں کی تعداد 26 ہوگئی ہے۔اس کے بعد حالیہ انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی نے 8 نشستیں جیتی ہیں جس میں سے 7نشستیں سندھ اور ایک نشست اسلام آباد سے اور یوں سینیٹ میں پیپلزپارٹی کے سینیٹرز کی مجموعی تعداد 20 ہوگئی ہے ۔ن لیگ نے حالیہ الیکشن میں پنجاب سے 5 نشستیں جیتی ہیں اور سینیٹ میں ن لیگ کے سینیٹرز کی تعداد 18 ہوگئی ہے ۔جی ڈے اے کا 1 سینیٹر اور 4آزاد اراکین بھی حکومتی اتحاد میں شامل ہیں
بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی)نے گزشتہ روز 6 نشستیں حاصل کی ہیں اور پرانی 6 نشستوں کے ساتھ بی اے پی کے سینیٹرز کی مجموعی تعداد 12 ہوگئی ہے ۔ایم کیو ایم نے سندھ سے دو نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور 1 پرانی نشست کے ساتھ ایم کیو ایم کے سینیٹرز کی تعداد 3 ہوگئی ہے ۔مسلم لیگ ق نے 1 نشست پر کامیابی حاصل کی ہے ۔جمعیت علمائے اسلام نے 2نشستوں پر کے پی کے اور 1 ایک نشست پر بلوچستان سے کامیابی حاصل کی ہے۔ یوں سینیٹ میں جے یو آئی کے سینیٹرز کی مجموعی تعداد 5 ہوگئی ہے ۔عوامی نیشنل پارٹی نے 2 نشستیں جیت لیں جس میں سے ایک کے پی کے اور دوسری بلوچستان سے تھی ۔اسی طرح بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)نے بھی 2نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔پشتونخواہ میپ کی 2، نیشنل پارٹی کی 2اور2آزاد اراکین بھی اپوزیشن کے ساتھ ہیں
مندرجہ بالا نشستوں کی تعداد کے بعد سینیٹ میں اس وقت تحریک انصاف اور اس کے اتحادی سینیٹرز کی تعداد 47 اور پی ڈی ایم کے سینیٹرز کی تعداد 53 ہوگئی ہے ۔ اس طرح سینیٹ میں اپوزیشن کو حکومت پر عددی برتری حاصل ہے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ سینیٹ میں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخابات میں پی ڈی ایم کے امیدواروں کی کامیابی یقینی ہے اگر کوئی غیبی ہاتھ حرکت میں نہ آیا تو اور اس غیبی ہاتھ کو معروف صحافی اور تجزیہ نگار وجاہت مسعود ماورائے آئین مداخلت کار کا نام دیتے ہیں ۔ اور کوئی مانے یا نا مانے مگر یہ طے ہے کہ ان مداخلت کاروں کی مداخلت کم ہوئی ہے۔اور یوں اراکین اسمبلی کے مطابق ان کو اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ دینے کا موقع مل گیا۔
اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام آباد کی سینیٹ کی نشست پر سب سے بڑے مقابلے میں پی ڈی ایم کے امیدوار سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے حکومتی مشیر خزانہ حفیظ شیخ کو پانچ ووٹ سے شکست دے دی۔یہ نتیجہ بہرحال حکومت کے لیے کسی دھچکے سے کم نہیں تھا اس ضمن میں الیکشن سے قبل حکومت کی طرف سے اوپن ووٹ کے لیئے کی گئی کوششوں سے اندازہ ہورہا تھا کہ حکومت مشکلات کا شکارہے۔حکومت کو شائد اس کا اندازہ تھا کہ خفیہ ووٹنگ میں ان کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور ان کا اندازہ حفیظ شیخ کی شکست کی صورت میں درست نکلا۔
تاہم اس نتیجے کے فوری بعد وزیراعظم نے بنی گالہ میں ہنگامی اجلاس طلب کیا اور اجلاس کے بعد وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم ایوان سے اعتماد کا ووٹ لیں گے۔جو بھی ہو وزیراعظم کی طرف سے یہ بروقت فیصلہ ہے اور کسی حد تک مناسب بھی ۔ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد وزیراعظم شدید تنقید سے بچ جائیں گے اور یہ بات بھی اہم ہے کہ اعتماد کا ووٹ شو آف ہینڈ سے ہوگا تو وزیراعظم با آسانی اعتماد کا ووٹ حاصل کرلیں گے۔اصل گیم اس دن شروع ہو گی جس دن اپوزیشن تحریک عدم اعتماد پیش کرے گی وگرنہ اس سے قبل اعتماد کا ووٹ لینا وزیراعظم کے لیے قطعی پریشانی کا باعث نہیں ہوگا
وزیراعظم بھلے ایوان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرلیں تاہم سینیٹ میں اپوزیشن کی عددی برتری بہرحال حکومت وقت کے لیے کسی مصیبت سے کم نہیں ہوگی اور اس کا اندازہ حکومت کو ضرور ہوگا اور آنے والے دنوں میں حکومت کے لیے مشکلات مزید بڑھیں گی۔مجموعی طورپر سینیٹ الیکشن میں حکومت کا مورال نشستیں حاصل کرنے کے باوجود گرا ہے اور اپوزیشن کا مورال بلند ہوا ہے اور اس کے اثرات آئندہ ضمنی انتخابات میں ضرور نظر آئیں گے۔
پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے گیلانی کی فتح کے بعد میڈیا سے کہا کہ اب یوسف رضا گیلانی کو چیئرمین سینٹ بنوائیں گے ۔اس سے قبل یہ دعویٰ سابق صدر آصف علی زرداری بھی کرچکے ہیں ۔سب جانتے ہیں کہ مروجہ سیاست میں آصف علی زرداری سے زیادہ گرفت شاید ہی کسی کی ہوگی اس لیئے یوسف رضا گیلانی کا چیئرمین سینیٹ بننا کوئی انہونی نہیں ہوگی۔سوال یہ ہے کہ اگر وزیراعظم اعتماد کا ووٹ لے لیں اور یوسف رضا گیلانی چیئرمین سینیٹ بن جائیں تو کیا ایسی صورت میں حکومت چل سکے گی اگر جواب ہاں میں ہے تو کوئی سمجھائے کیسے چلے گی؟اگر اس کا جواب نہیں ہے تو پھر کیا ہوگا؟ کیا اس پیدا ہونے والے ممکنہ بحران کابھی کوئی حل تلاش کیا جارہا ہے یا نہیں ۔ارباب اختیار نے اگر حل تلاش نہیں کیا تومناسب ہے کہ تلاش شروع کردیں کیونکہ بحران بہرحال شروع ہوگیا ہے۔
براے رابطہ 03334429707
وٹس ایپ 03352644777

یہ بھی پڑھیے:

ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد

وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد

حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد

بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد

عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد

حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد

About The Author