ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک سرکاری ہینڈ آئوٹ کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان خان بزدار کی ہدایت پر پنجاب حکومت نے بھائی چارے اور قومی یکجہتی کو فروغ دینے کے لئے صوبہ بھر میں 2مارچ کو بلوچ کلچر ڈے کو شایانِ شان طریقے سے منانے کا فیصلہ کیا ہے۔
پنجاب میں بلوچ کلچرل ڈے ؟یہ بات ایک سوال بن سکتی ہے حقیقت نہیں۔اس سلسلے میں گزارش یہ ہے کہ بلوچ کلچرل ڈے سر آنکھوں پر مگر سرکاری طور پر اسے بلوچستان حکومت کو منانا چاہئے ، پنجاب میں سرکاری محاصل کو پنجاب کی ثقافت کے فروغ کے لئے خرچ ہونا چاہئے ۔
عثمان خان بزدار کو لوگ غلط مشورے دے رہے ہیں اسی بناء پروسیب میں ان کی مقبولیت کم ہو رہی ہے ۔ ہم اصول کے بر عکس بات نہیں کریں گے اور وہ بات کریں گے جو میرٹ پر ہو ۔ اس طرح کے اقدام سے فاصلے بڑھیں گے اور چار سو سال میں باہر سے وسیب سے میں آکر آباد ہونے والی بلوچ اقوام اورقدیم وسیبی لوگوں کے درمیان فطری طور پر جذب پذیری کا جو عمل مکمل ہوا ہے اس کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے ۔
میں صاف بتانا چاہتا ہوں کہ ان کے اقدامات سے وسیب میں تفریق پیدا ہو رہی ہے ۔ جبکہ وسیب میں رہنے والے تمام بلوچ پنجابی بھی ہیں اور چار سو برسوں سے زبان و ادب کے لئے ان کی بہت خدمات ہیں ۔ اقتدار آنی جانی چیز ہے مگر حکمرانوں کے فیصلے اور اقدامات دور رس نتائج کے حامل ہوتے ہیں ۔
میں جو کچھ عرض کر رہا ہوں ، حکمرانوں کے کڑوا ضرور ہوگا مگر اس کی حیثیت تریاق کی ہے ۔ بھائی چارے والی بات اس وقت درست ہو سکتی تھی جب بلوچستان حکومت سرائیکی یا پنجابی کلچر ڈے منا رہی ہوتی وہاں تو صورتحال یہ ہے کہ ابھی چند دن پہلے بلوچستان سے صادق آباد کے مزدوروں کی لاشیں آئی ہیں ۔
ایک ظلم یہ ہے کہ بلوچستان میں مزدوروں کو پنجاب کے نام پر قتل کیا جاتا ہے دوسرایہ کہ حکمرانوں کو صرف تعزیت کرنے کی توفیق بھی نہیں ہوتی ۔ حکومت کو اپنی ترجیحات تبدیل کرنا ہوں گی یہ 21ویں صدی ہے ، ہر شخص ہر بات کا احساس بھی ر کھتا ہے اور ادراک بھی ۔
میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے دور میں وسیب کو نظر اندا ز کیا جاتا رہا اور وسیب کی شناخت کو تسلیم نہ کیا گیا تو وسیب کے لوگوں نے ان کے خلاف ردِ عمل بھی دیا ، آج عمران خان اور عثمان خان بزدار برسر اقتدار ہیں تو یہ وسیب کے لوگوں کی نصف صدی کی جدوجہد ہے جو کہ انہوں نے صوبے اور وسیب کی محرومی کے خاتمے کے نعرے پر حاصل کی ۔
سردار عثمان خان بزدار خود صوبہ محاذ کا حصہ تھے۔بار دیگر کہوں گا کہ عثمان خان بزدار کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور پورے صوبے میں سرائیکی کلچرل ڈے منانے کا اعلان کرنا چاہیے۔ 6 مارچ سرائیکی اجرک ڈے کے حوالے سے بتائوں گا کہ اجرک سرائیکی خطے کی صدیوں پرانی ثقافتی علامت ہے ۔
ازرق کا لفظ عربی میں سے آیا ہے ۔اجرک کا لفظ ’’ ازرق ‘‘ سے تبدیل ہو کر اجرک بن گیا ۔ اس کا مطلب ’’ نیلا ‘‘ ہے ۔ تاریخی واقعہ ایسے ہے کہ عرب فوج نے محمد بن قاسم کی سربراہی میں سلطنت ملتان کو فتح کیا تو بہت سارے لوگوں نے اپنے کندھوں پر ’’ لوکار ‘‘ زیب تن کی ہوئیں تھیں جو ملتانی کاشی کے نیلے رنگ سے رنگی ہوئیں تھیں۔ جب عربوں نے دیکھا تو ان کے منہ سے خوشی اور حیرانی سے لفظ ’’ ازرق ، ازرق ‘‘ یعنی ’’ نیلا نیلا ‘‘ نکلا۔ بعد میں اس چادر کا نام اجرک ہو گیا۔ کیونکہ کچھ مقامی لوگ ’’ ز ‘‘ کو ’’ ج ‘‘ بولتے تھے ۔ان سے پہلے اور اس کے بعد بھی حملہ آوری کی وجہ سے مقامی آبادی اور خطے کے ساتھ جوبیتی وہ الگ داستان ہے۔
وسیب کے باسی وطن سے بے وطن ہو گئے، سرائیکی میں سے سندھی ، پنجابی ، اردو، پوٹھوہاری ، ہندکو اور دوسری بہت سی زبانیں پیدا ہوئیں مگر سرائیکی کی تہذیب، ثقافتی اور جغرافیائی شناخت مٹا دی گئی ۔
سندھی دوستوں کو صوبہ مل گیا اور اجرک کے رنگ تبدیل ہو کر سندھی اجرک بن گئی۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ سرائیکی اجرک سندھی اجرک کے مقابلے کیلئے نہیں بلکہ اس کے متبادل ہے ۔
خوشی کی بات ہے کہ آج کے تاریخی موقعے پر سرائیکی قوم اپنی پرانی اجرک کو اس کے اصل رنگوں میں پوری دنیا کے سامنے لے آئی اور اپنی گمشدہ میراث کو ویسے ہی زندہ کیا جیسے سرائیکی زبان اورثقافت کو زندہ کیا گیا۔
ملتان کاشی پوری دنیا میں مشہور ہے۔ آپ سندھ جائیں یا بلوچستان ۔ تاریخی عمارتوں پر آپ کو ملتانی کاشی کے نقش نظر آئیں گے ۔بات صرف پاکستان یا ہندوستان کی نہیں ۔ ایران ، عراق، شام ، مشرق وسطیٰ ہو یا بلخ بخارا سے کاشغر تک چلے جائیں۔ آپ کو ملتانی کاشی گری کے رنگ فیروزی اور نیلا نظر آئیں گے ۔
سرائیکی اجرک کے رنگ بھی یہی ہی ہیں ۔ ان رنگوں اور ان رنگوں کے پھولوں کی تاریخ پانچ ہزار سال ہے۔ ان رنگوں میں سرائیکی اجرک متعارف کرا کر ہم نے اپنی پانچ ہزار سال کی تاریخ کو زندہ کیا ہے۔ یہ صرف سرائیکی اجرک ہی نہیں وسیب کا پانچ ہزار سال بعد ایک نیا جنم ہے۔
سرائیکی اجرک کے رنگوں کو ہر جگہ پسند کیا گیا ۔ سرائیکی اجرک کے رنگ دیکھ کر آنکھیں کو ٹھنڈک پہنچتی ہے ۔ سرائیکی اجر کے فیروزی اور آسمانی رنگ ہمارے وسیب کے قدیم رنگ ہیں ۔ خوشی کی بات ہے کہ وسیب کے لوگ ان خوبصورت رنگوں کے ذریعے اپنی قدیم ثقافت اور قدیم اجرک کو ایک بار پھر سے زندہ کر رہے ہیں۔ رفعت عباس نے سچ کہا کہ : اساں تاں نیلیاں سلھاں اُتے پھل بنْاونْ آلے ہُنْ جے نوبت وحٖ پئی اے تاں ویس وٹیندے پئے ہیں
یہ بھی پڑھیں:
ایک تاریخ ایک تہذیب:چولستان ۔۔۔ظہور دھریجہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر