نومبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تحریک انصاف: مٹھی سے پھسلتی ریت||محمد عامر خاکوانی

ضمنی انتخابات سے مجموعی طور پر دو تین نکات ایسے سامنے آئے ہیں، جن پر تحریک انصاف کو ابھی سے غور کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ آئندہ الیکشن میں انہیں شدید دھچکا پہنچ سکتا ہے۔

محمد عامر خاکوانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ضمنی انتخابات کا شورشرابا ختم ہوا، ڈسکہ کے الیکشن میں خوب ہنگامہ آرائی ہوئی، الیکشن کمیشن نے وہاں دوبارہ انتخاب کرانے کا اعلان کیا ہے۔ امید کرنی چاہیے کہ اس بار پرامن اور شفاف انتخاب ہوں ، مقامی انتظامیہ، پولیس تماشائی نہیں بنی رہے۔دیکھنا یہ بھی ہوگا کہ اس بار نتیجہ کیا رہتا ہے؟
یہاں سے ن لیگی امیدوارپیر افتخار شاہ المعروف رازے شاہ مرحوم کئی بار جیتے تھے بلکہ وہ ناقابل شکست رہے ۔ ان کے انتقال کے بعد ان کی صاحبزادی ن لیگ کی جانب سے امیدوار ہیں۔ حالیہ الیکشن کا نتیجے مکمل تسلیم نہیں ہوا، مگر اس میں پی ٹی آئی کا ووٹ خاصا بڑھا تھا۔ دوبارہ الیکشن میں درست اندازہ ہوسکے گا۔
ضمنی انتخابات سے مجموعی طور پر دو تین نکات ایسے سامنے آئے ہیں، جن پر تحریک انصاف کو ابھی سے غور کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ آئندہ الیکشن میں انہیں شدید دھچکا پہنچ سکتا ہے۔
یہ بات اب واضح ہوگئی کہ آئندہ کسی بھی بڑے انتخابی معرکے میں تحریک انصاف کو متحدہ اپوزیشن یا کم از کم اپوزیشن کی بیشتر جماعتوں کے متفقہ امیدوار کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ ایک طرح سے تحریک انصاف بمقابلہ آل (Pti V All)والی صورتحال بن جائے گی۔ اس کا پی ٹی آئی کو نقصان پہنچے گا کہ وہ ایک بڑی جماعت تو ہے ، مگر اس کا ووٹ بینک اتنا بڑا نہیں کہ سب مخالفوں پر غالب آ جائے۔
پچھلے جنرل الیکشن کے نتائج اٹھا کر دیکھ لیں، بہت سے حلقوں میں ایسا ہوا کہ پی ٹی آئی جیتی ، مگر دوسرے، تیسرے اور چوتھے نمبر پر موجودہ اپوزیشن کی کوئی جماعت تھی۔ دوسرے ، تیسرے اور چوتھے نمبر کے امیدواروں کے ووٹ اکٹھے کر لئے جائیں توجیتنے والے امیدوار کے ووٹ سے دوگنے نہیں تودس پندرہ ہزار زیادہ ضرور بن جاتے ہیں۔
اس اعتبار سے اگلا الیکشن جیتنے کے لئے پی ٹی آئی کو پچھلی بار سے کہیں زیادہ محنت کرنے اور زیادہ ووٹ لینے کی ضرورت ہے۔ پی ٹی آئی نے خود اپنے لئے یہ مصیبت کھڑی کی ہے۔ اپوزیشن جماعتیں اکٹھی ہوجایا کرتی ہیں، ایسا بہت بار پہلے بھی ہوا۔ اس بار مگر پی ٹی آئی نے نفرت اور تلخی کی جو دیوار اپنے اور اپنے سیاسی مخالفین کے مابین کھڑی کی ،اس نے معاملہ زیادہ گمبھیر بنا دیا۔ اب یہ محض سیاسی لڑائی نہیں رہی، بلکہ عزت وآن کا مسئلہ بھی بن گیا۔
سیاسی جماعتیں اتحاد کی صورت میں یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لئے اکٹھی ہوں تو انہیں فائدے کے ساتھ کچھ نقصان بھی پہنچتا ہے۔ مثال کے طور پرخیبر پختون خوا کے کسی حلقے سے اگر جے یوآئی ف اپنا امیدوار اے این پی کے حق میں دستبردار کر دے تو اسے دو نقصان ہوں گے۔ الیکشن میں اپنا امیدوار کھڑا نہ کرنے سے وہاں پوزیشن کمزور ہوگی اور اگلے کسی الیکشن میں جگہ بنانا مشکل ہوجائے گا۔
دوسرا اس کا ٹھیٹ مذہبی ووٹر ناخوش ہوگا کہ اے این پی کے قوم پرستوں کو ووٹ ڈالنا ان کے لئے آسان چوائس نہیں ۔ یہی مثال دوسری جماعتوں پر بھی فٹ ہوتی ہے۔ عمران خان نے اپنی اپوزیشن جماعتوںکو عوامی محاورے کے مطابق اتنا ذلیل وخوار کردیا ہے کہ وہ اسے ہرانے کے لئے اپنے ذاتی ، جماعتی نقصان کے لئے تیار ہوچکی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کو اگر اگلے الیکشن میں پی ٹی آئی کو ہرانے کی قیمت پر اپنی کچھ نشستیں قربان کرنا پڑیں، اے این پی ، وطن پارٹی یا ن لیگ کو مضبوط کرنا پڑے تو وہ اس کے لئے یقینا دل وجاں سے تیار ہوں گے۔
یہی ن لیگ کے پی اور پنجاب میں کرنا چاہے گی۔ اب نوشہرہ کے الیکشن کو دیکھ لیں، وہاں مقامی سطح پر پی ٹی آئی میں اختلافات بھی تھے، مگرسامنے کی بات ہے کہ جے یوآئی اور پیپلزپارٹی کا امیدوار نہ ہونے سے ان کے ووٹ ن لیگ کے امیدوار کو پڑے۔
اے این پی کاامیدوار بھی بٹھایا جا سکتا تھا، مگر وہ دانستہ کھڑا رکھا گیا کیونکہ اس نے پی ٹی آئی کے امیدوار کے ووٹ کاٹے ، دونوں کا تعلق ایک ہی برادری سے تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ نوشہرہ جسے تحریک انصاف کا گڑھ کہا جاتا تھا، وہاں سے پہلی بار ن لیگ سیٹ لے گئی ۔ اپنے سیاسی مخالفین کو انتہائی حد تک دھکیل دینے میں عمران خان اور ان کے شعلہ برساتے وزرا کا مرکزی کردار ہے۔یہی بھٹو صاحب نے کیا تھا اور پھر ستتر میں اس کا مزہ بھی چکھ لیا۔
سیاست اتحادی بنانے اور مخالفوں کو کمزور کرنے کا نام ہے۔ عمران خان لگتا ہے اس ہنر کی الف ب سے بھی واقف نہیں۔ انہیں مخالفوں کو دشمن بنانے جبکہ دوستوں کو ناخوش اور مایوس کرنا ہی آتا ہے۔ بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ کے پی میں آئندہ جو بھی انتخاب ہوا، اسی طرح کانتیجہ آئے گا یا ممکن ہے پی ٹی آئی کو زیادہ مارجن سے شکست ہو۔ پی ٹی آئی کو یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک بڑی حد تک قائم ہے اور ان کے ارکان اسمبلی، لیڈر اور مقامی سطح پر کارکن نہیں ٹوٹ سکے۔ یہ تحریک انصاف کی بدترین نااہلی ہے۔
ن لیگ کوئی نظریاتی جماعت نہیں اور اس کا سٹرکچر بھی عام جماعتوں سے مختلف ہے۔ دراصل یہ الیکٹ ایبلز اور مختلف دھڑوں کے باہمی مفادات کے تحت سیاست اوراقتدار میں آنے کے پلیٹ فارم کا نام ہے۔ کہیں کہیں مسلم لیگی عصبیت بھی موجود ہے ،میں اس حقیقت سے انکار نہیں کر رہا۔ کسی جگہ میاں نواز شریف کی ذاتی مقبولیت بھی ہے ، مگربہ این ہمہ ن لیگ کو توڑنا کسی بھی دوسری جماعت سے زیادہ آسان تھا۔ اگر عمران خان چودھری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بناتے یا اپنی پارلیمانی جماعت میں سے کسی ہنر مند سیاست دان کو صوبہ سونپتے تو یقینی طور پر ن لیگ توڑ پھوڑ کا شکا ر ہوجاتی۔
میاں نواز شریف کے بیماری کا علاج کرانے ملک سے باہر جانے کے بعد تو بڑے پیمانے پر یہ کام ہوتا اور بہت سے الیکٹ ایبلز، مقامی طاقتور شخصیات ن لیگ کو چھوڑ کر حکمران اتحاد کا حصہ بن جاتیں۔ پنجاب کے چند اضلاع میں ن لیگ بہت مضبوط رہی ہے اور اس نے وہاں پر لینڈ سلائیڈ وکٹری لی۔ گوجرانوالہ، سیالکوٹ، ناروال ان میں سرفہرست ہیں، قصور ، شیخوپورہ، اوکاڑہ میں بھی ن لیگ کی دو تہائی سے زیادہ نشستیں ہیں، لاہور تو خیر ن لیگ کا پرانا مستقر ہے۔ ان علاقوں میں تحریک انصاف کو کام کرنے کی ضرورت تھی۔
مظفر گڑھ پنجاب کا وہ ضلع ہے جہاں سے پیپلزپارٹی نے تین نشستیں حاصل کیں۔ پیپلزپارٹی کا پنجاب سے صفایا ہوچکا، مظفر گڑھ میں مقامی شخصیات کی وجہ سے اسے فائدہ ہوا۔ اس فائدے کو نیوٹرلائز کرنا کون سا مشکل کام تھا؟ایسا کچھ بھی نہیں ہوسکا۔ وجہ یہ تھی کہ عمران خان نے بڑی چھان پھٹک کے بعد،تحقیق کر کے پنجاب کے ارکان اسمبلی میں سے کمزور ترین، ویژن سے عاری اور میڈیا سے چند جملے نہ بول سکنے کی صلاحیت رکھنے والے ایم پی اے کو وزیراعلیٰ بنایا۔
صرف اس لئے کہ وہ کٹھ پتلی بن کر رہے اورتمام کنٹرول عمران خود کر سکیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کام چل سکتا ہے۔ نہیں، اس طرح تو کوئی دکان بھی نہیں چلائی جا سکتی۔ اس کے لئے بھی سمجھدار مینجر اور ہوشیار سیلز مین رکھنے پڑتے ہیں۔عمران خان اپنے ہسپتال، لیبارٹری ، نمل یونیورسٹی یا کسی بھی اور جگہ ایسا کر سکتے ہیں؟ نہیں ، ہرگز نہیں۔
ایسا کرنے کی صورت میں سال ڈیڑھ کے اندر ہی وہ ادارے تباہ ہوجائیں گے۔ پھر پنجاب میں ایسا کیوں کیا گیا؟ اس سوال کا جواب عمران خان اور ان کے حامیوں کو اگلے کسی بھی شفاف الیکشن میں بدترین شکست کے بعد شائد ملے۔ تب تک مگر بہت دیر ہوچکی ہوگی۔ تحریک انصاف اور عمران خان اپنا پچاس فیصد سے زیادہ وقت ضائع کر چکے ہیں۔ ان کے پاس بڑے فیصلے کرنے کے لئے اب انرجی بچی ہے اور نہ ہی اتنی مہلت کہ وہ نئے منصوبوں پر عملدرآمد کر سکیں۔ اب تو وہ صرف یہی کر سکتے ہیں کہ جو نقصان ہوگیا، اسے کنٹرول کرنے کی اپنی سی کوشش کریں۔
پنجاب کو کسی اہل اور تجربہ کار سیاستدان کے حوالے کریں تاکہ بلدیاتی انتخابات میں حکومت کی بھد نہ اڑے ۔اسے وزیراعلیٰ بنایا جائے جو پولیس ، انتظامیہ سے کام لے اور کچھ ڈیلیور کر کے دکھائے۔ اگلے انتخابات کی ابھی سے تیاری کرے اور جو جنگ اس وقت ہاری ہوئی لگ رہی ہے، اسے معقول انداز سے لڑنے کی کوشش تو کرے۔ عمران خان کیا ایسا کر سکیں گے؟ کیا وہ اپنی ضعیف الاعتقادی اور روحانیت کے سطحی شعور سے نکل کرپنجاب اور کے پی میں زمینی حقائق دیکھ سکیں گے؟
جواب تو نفی میں ملتا ہے۔عمران خان کی ڈھائی سالہ کارکردگی اور ان کے عظیم فیصلے دیکھتے ہوئے کسی بھی قسم کی خوش گمانی یا حسن ظن کا جواز باقی نہیں رہا۔ ممکن ہے کوئی چمتکار ہوجائے ، عمران خان ایسے درست تقرر کر ڈالیں جن کا فائدہ انہیں ملے۔ امکانات کی دنیا تو ہمیشہ کھلی رہتی ہے، لیکن …بظاہر ایسا لگ نہیں رہا۔

 

 

 

یہ بھی پڑھیے:

عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

About The Author