رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہارِ عرب کچھ افسردہ ہے کہ جو طوفان حکمران طبقات کے خلاف اٹھا تھا‘ وہ رنگ نہ بکھیر سکا جن کی امید پر لاکھوں نوجوان‘ عورتیں اور بوڑھے صعوبتیں برداشت کرتے رہے‘ اور ہزاروں نے آزادیٔ فکر اور عوامی اقتدار کے خواب کی تعبیر تلاش کرتے ہوئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر دئیے۔ عرب دنیا کے بارے میں مستشرقین کی آرا میں اگرچہ تنوع پایا جاتا ہے‘ لیکن زیادہ تر ان کے تجزیے جمود اور انتہا پسندی کے دائرے میں گھومتے ہیں۔ ہمارے اپنے دانشور بھی تمام مسلم ممالک کو ایک ہی رنگ دینے کی سہل کاری کا شکار ہیں‘ اس لئے کہ کھوج‘ تحقیق اور زمینی مشاہدے کے لئے جس ریاضت‘ ذہنی استعداد اور تیاری کی ضرورت ہے‘ اس کے لئے ہم آمادہ نہیں۔ عرب معاشروں کے بارے میں عالمانہ ادب کا ذخیرہ وسیع ہے۔ تاریخ‘ مذہب‘ ثقافت اور ادب تو کلاسیکی ادوار سے لے کر عصرِ حاضر تک موضوعِ قلم رہے ہیں۔ ایک زندگی میں صرف جزئیات پر عبور حاصل کرنا ممکن ہے۔ یہ خاکسار تو کسی شمار میں نہیں کہ اس خطے کی محض علمی سرحدوں کو چھوتا رہا ہے۔ دورِ جدید‘ خصوصاً استعماریت کے خاتمے کے بعد قومی ریاستوں کی تشکیل‘ نظریاتی تحریکوں‘ عرب قومیت کے جذبات‘ اور فلسطین پر قبضے کے بعد کے سیاسی‘ سماجی اور دفاعی معاملات سے کون واقف نہیں۔ درس گاہوں میں تو سب موضوعات پر کسی نہ کسی حوالے سے مکالمہ جاری رہتا ہے‘ لیکن اخبارات‘ رسائل اور سیاسی دنیا‘ مغرب ہو یا مشرق‘ کے مشرقِ وسطیٰ کے حالات پر تبصرے‘ تجزیے اور اپنے اپنے موقف پیش کرتے رہے ہیں۔ جتنے منہ اتنی باتیں کے مصداق دنیائے عرب کے بارے میں عصرِ حاضر میں کبھی ایک رائے نہیں رہی‘ نہ ہی ان ممالک کے اندر جہاں ایک عرصے سے ریاست‘ قومیت اور ملکی ترقی کے حوالے سے مختلف نظریات‘ دھڑے اور ریاستی طاقت سے جڑی جماعتیں اور ان کے مخالفین ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار رہے ہیں‘ ایسا ممکن ہو سکتا ہے۔
تقریباً ایک صدی پہلے سلطنتِ عثمانیہ کا خاتمہ ہوا‘ تو فاتح مغربی اتحادی ممالک نے عرب قومی ریاستوں کی تشکیل کی۔ عرب قومیت کا احساس تاریخ میں ہمیشہ رہا ہے‘ عربوں کی ثقافت‘ تاریخ اور ادب سے قریبی طور پر جڑا ہوا مگر اس کی سیاسی تشکیل اور تحریک جنگِ عظیم اول کے دوران ابھری۔ مغربی طاقتیں صدیوں عثمانیوں کو کمزور کرنے میں مصروف رہیں اور انہیں کامیابی کے آثار عرب قومیت پسندی کے ابھرتے ہوئے جذبات میں نظر آئے۔ انہیں مزید تقویت دینے کے لئے مغربی سیاسی رہنمائوں‘ ریاستی خفیہ اداروں اور سلطنت کی جگہ سنبھالنے کی تڑپ رکھنے والے عرب قبائلی سرداروں نے گٹھ جوڑ بنا لیا تھا۔ مغربی حلیفوں نے فتح کے بعد مشرقِ وسطیٰ کا نیا جغرافیائی نقشہ تشکیل دیتے وقت اپنے غلبے کو ملحوظِ خاطر رکھا۔ قبائلی سرداروں کو بادشاہت کی خلعتیں پہنا کر نئی قائم کردہ ریاستوں کا مالک بنا دیا۔ اس ضمن میں فرانس اور برطانیہ کے فقط دو سفیروں نے صحرا کے ایک کنارے پہ بیٹھ کر لکیریں کھینچ ڈالیں۔ کہیں بھی مذہب‘ لسانیت اور قومیتی شناخت کا لحاظ نہ رکھا۔ سب کچھ مصنوعی۔ سوال یہ بنتا ہے کہ اگر عرب ایک قوم ہیں تو پھر سرحدیں کیسی؟ عرب قومیت کے نعرے اور اس تصور کی تشکیل عربوں میں آج بھی گہرا اثر رکھتی ہے‘ مگر جو کبھی سلطنتوں میں صوبے ہوا کرتے تھے‘ اب ریاستیں ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ کی سب بادشاہتیں باہمی مفادات کے تقاضوں کے تحت مغرب کی حلیف ہیں۔ انہیں دفاع‘ سرمایے اور سرپرستی کی ضرورت تھی‘ اور مغرب اس علاقے میں اپنا اثرورسوخ قائم رکھنا چاہتا تھا۔ صہیونیوں کی نظریں فلسطین پر تھیں‘ جو تب تاج برطانیہ کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ سابق سلطنتِ عثمانیہ کا یہ واحد صوبہ تھا جو ریاست نہ بن سکا۔ دلیل یہ دی گئی کہ لوگ ابھی ریاست بنانے کی استعداد نہیں رکھتے‘ ان کو تیار کرنا ہو گا۔ اس کی ذمہ داری برطانیہ کے سپرد کر دی گئی۔ صہیونیت نے اسرائیل کے قیام کے لئے اپنی خفیہ سرگرمیاں تو انیسویں صدی سے ہی جاری رکھی ہوئی تھیں‘ مگر دو عالمی جنگوں کے درمیانی عرصے میں انہوں نے یہودیوں کو مختلف ممالک سے ترغیب دے کر بڑی تعداد میں بسانا شروع کر دیا تھا۔ کچھ عرصہ تک برطانیہ نے ہجرت کو محدود رکھا‘ مگر دبائو کے تحت بے بس ہو گیا۔ اس دبائو میں ایک عنصر جرمنی میں ہٹلر اور نازی پارٹی کی اٹھان بھی تھا۔ جرمن قومیت پرستی پر منفی اور توسیع پسندانہ نظریات کا غلبہ تھا۔ اندرونی طور پر فسطائیت‘ ”عظیم‘‘ رہنمائی کی اندھی تقلید اور یہودیوں کے خلاف نفرت کے بیج بوئے گئے۔ یہ نفرت صرف زبانی کلامی نہیں تھی‘ لاکھوں بے گناہ عام یہودیوں کو موت کے گھاٹ اتار نے کی ریاستی مہم نے سب کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ جذبۂ ہمدردی فطری تھا‘ جو صہیونیت کی تحریک بڑی صلاحیت کے ساتھ بروئے کار لائی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صرف جرمنی نہیں بلکہ سارے یورپ میں یہودیوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا گیا۔ لاکھوں کی تعداد میں یہودی یورپ چھوڑ کر فلسطین منتقل ہونے لگے۔ صہیونیت نے مسلح جدوجہد کا آغاز کر کے فلسطینیوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ کل کے مظلوم‘ ظالم بن گئے۔ یہ کوئی افسانوی باتیں نہیں‘ حقائق ہیں کہ مسلح یہودی دستے بحری جہازوں پر لاد کر لائے گئے اور وہ نہتے‘ دیہاتی فلسطینیوں پر پل پڑے۔ تاریخ اس بات کی بھی گواہی دیتی ہے کہ اسرائیل کے قیام کی سازش بہت پہلے تیار کرلی گئی تھی۔ جنگ عظیم دوم کے بعد موقع نکل آیا تو تمام بڑی مغربی طاقتوں نے حمایت شروع کر دی۔
اسرائیل کے قیام سے عرب قوم پرستوں کو بہت بڑا جھٹکا تو لگا مگر نہ ریاستیں‘ نہ رہنما اور نہ معاشرہ‘ کوئی بھی اس قابل نہ تھا کہ وہ اس عمل کو روک سکتا۔ عوام‘ دانشوروں خصوصاً نوجوان طبقے نے بادشاہوں اور انکے مغرب کے ساتھ اتحاد کو ذمہ دار قرار دیا۔ اردن‘ شام اور مصر نے ہلکی پھلکی جنگ تو کی مگر اسے جاری رکھنے کی سکت کہاں تھی ان میں؟ ناکامی نے بادشاہوں کیخلاف عوام کے جذبات کو مزید تقویت دی۔ وہ زمانہ سطحی تحریکوں کا نہ تھا‘ نہ سیاسی جماعتیں وجود رکھتی تھیں‘ نہ ہی میڈیا آزاد تھا۔ مصر‘ شام‘ عراق اور آخر میں لیبیا میں فوجی افسروں نے حکمرانوں کیخلاف بغاوت کی۔ فوجی حکومتوں نے خود کو انقلابی سانچے میں ڈھالنے کی روش اختیار کر رکھی تھی۔ عرب قومیت‘ اشتراکیت اور عرب معاشروں کی تعمیرِ نو کے نظریات دلکش اور ہر دلعزیز تھے۔ آغاز میں ان ”انقلابیوں‘‘ کو عوامی حمایت حاصل رہی۔ ترقی کی کچھ منزلیں بھی تیزی سے طے ہوئیں‘ مگر ہر ”انقلابی‘‘ عرب ریاست میں نئے خاندانوں کی سلطنتیں قائم ہو گئیں۔ شام میںاسد خاندان کا غلبہ ہے اور اس نے اپنی بقا کیلئے پورا ملک تباہ کر ڈالا ہے۔
عرب بہار‘ عرب معاشروں کی محرومیوں کی پیداوار ہے۔ خاندانی اور شخصی حکومتوں نے فسطائیت کوجنم دیا۔ مخالفین کا قتل عام کیا جاتا ہے‘ انہیں قیدوبند کی صعوبتیں اٹھانا پڑتی ہیں اور آزادیوں کا گلا گھونٹا جاتا رہا۔ ناانصافی‘ معاشی ناہمواری اور ارتکازِ زرکے علاوہ ہماری طرح کے حکمران پیدا ہوئے‘ جنہوں نے اپنے معاشروں کی لوٹ کھسوٹ بے روک جاری رکھی۔ سرمایہ بیرونِ ملک منتقل ہوتا رہا۔ پڑھے لکھے نوجوان بیروزگار‘ مایوس‘ آزادیوں سے محروم ہونے لگے‘ اندر ہی اندر روحیں سلگتے سسکتے دم توڑتی رہیں۔ 17 دسمبر 2010 کو تیونس میں عربی بوعزیزی کا اپنی زندگی خود سوزی کرکے ختم کرنے کا فیصلہ وہ چنگاری تھا‘ جس نے پورے شرقِ اوسط کو آگ لگا دی۔ عوام کے آتش فشاں پھٹ پڑے‘ خون لاوے کی طرح سڑکوں پر بہایا گیا۔ طاقتور بتوں کو خاک کا ڈھیر بننا پڑا۔ بہارِ عرب افسردہ تو ہے کہ شام و مصر خاندانی اور شخصی آمریت اور یمن خانہ جنگی کا شکار ہے۔ میرے نزدیک بہار کے مدہم رنگ ضرور نکھریں گے۔ یہ تحریک ایک واقعہ نہیں‘ تاریخی عمل ہے۔ عرب معاشرے کے احیا کیلئے لاکھوں بوعزیزیوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر