وسعت اللہ خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سینیٹ میں ہر یونٹ کو برابری کی سطح پر نمائندگی دی گئی تاکہ وفاق کسی ایک صوبے کی کثرتی آمریت کا شکار نہ ہو۔ اس ادارے کے قیام کی روح بھی شاید یہی تھی کہ سیاسی جماعتیں ضمیر کو حاضر ناظر جان کے بلاواسطہ انتخاب کی سہولت استعمال کرتے ہوئے بہتر سے بہتر شخصیات کو سینیٹ میں بھیجیں تاکہ پارلیمانی قانون سازی کا مجموعی معیار بلند ہو۔
اگرچہ ہر سینیٹ میں اپنے اپنے شعبے کے ماہرین اور پارلیمانی روایات کا پاس رکھنے والے کئی چہرے بھی نظر آئے، مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کا پس منظر رکھنے والے قابل لوگ بھی نشستوں پر براجمان ہوئے مگر ان کی تعداد ہمیشہ روایتی اور پیشہ ور سیاسی اشرافیہ کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر رہی۔
ایوانِ بالا تشکیل دینے والے آئین ساز یقیناً خوش نیت تھے۔ تاہم غالباً وہ یہ پابندی لگانا بھول گئے کہ صرف وہ شخص ہی سینیٹ میں کسی صوبے کی نمائندگی کر سکتا ہے جس کا مستقل رہائشی پتہ اُسی صوبے کا ہو۔
یہ راستہ بند نہ کرنے کا نتیجہ اس مضحکہ خیزی کی صورت میں نکلا کہ متعدد بار پنجاب کا رہائشی سینیٹ میں سندھ کی نمائندگی کر رہا ہے اور خیبر پختونخوا کا رہائشی پنجاب کی سیٹ پر بیٹھا ہے اور سندھ والا خیبر پختونخوا کے حقوق کے تحفظ کا دعویدار ہے۔
اس پر مجھے وہ قصہ یاد آ رہا ہے کہ کسی نے اپنے دوست سے پوچھا کہ تمہارا گھر تو بہت چھوٹا ہے تم لوگ گزارہ کیسے کرتے ہو؟ جواب ملا کہ گزارہ ہو ہی جاتا ہے، ایک منجی (پلنگ) پر میں اور ابا جی اور دوسری پر میری بیوی اور اماں جی سوتے ہیں۔۔۔
سیاسی جماعتیں کہلانے والے سیاسی قبائل کے سرداروں نے بارہا ایسی شخصیات کو سینیٹ میں منتخب کروایا جو چچا، تایا، پھوپھی کے درجے پر تھے یا سیاسی سے زیادہ ذاتی وفادار تھے، اہلِ سرمایہ تھے، خاندانی اثر و رسوخ کی کرنسی سے اٹے ہوئے تھے یا اسٹیبلیشمنٹ کے قریب ہونے کے ناطے سردار کے پسِ پردہ مفادات کی دیکھ بھال اور تکمیل کے ماہر تھے۔
کچھ خاندانوں نے تو سینیٹ کو فیملی کلب بنا لیا۔ جیسے مولانا فضل الرحمان کا ایک ایک عزیز صوبائی اسمبلی، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اکثر ہوتا ہی ہے۔
مولانا کے ہی آبائی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے گلزار خاندان نے تو ایک زمانے میں سینیٹ کو ہی گلِ زار بنا دیا۔یعنی والد محترم بھی سینیٹر رہے اور پسرانِ باسعادت وقار احمد خان اور عمار احمد خان بھی سینیٹر بنے اور والدہ محترمہ بیگم رضیہ سلطانہ رکنِ قومی اسمبلی رہیں۔
اسی طرح ہمسائیہ ضلع لکی مروت کی سیف اللہ فیملی میں سے تین بھائی انور سیف اللہ، سلیم سیف اللہ، عثمان سیف اللہ یکے بعد دیگرے سینیٹ کے رکن رہے جبکہ ایک بھائی ہمایوں سیف اللہ اور والدہ کلثوم سیف اللہ رکنِ قومی اسمبلی رہے۔
کئی بلوچ سردار اور سندھ کے مالک ایسے ہیں کہ وہ اپنے موڈ اور سیاسی آب و ہوا دیکھ کے فیصلہ کرتے ہیں کہ اس بار وہ صوبائی اسمبلی میں رہیں گے، قومی اسمبلی میں جانا پسند فرمائیں گے یا سینیٹ میں رونق افروز ہوں گے۔
سنہ 1973 کے آئین کے تحت وجود میں آنے والی سینیٹ کو 48 برس میں آٹھ چیئرمین ملے۔ ( حبیب اللہ خان، غلام اسحاق خان، وسیم سجاد، محمد میاں سومرو، فاروق نائیک، نیئر بخاری، رضا ربانی اور میر صادق سنجرانی)۔
ان آٹھ میں سے سات چیئرمین امورِ ریاست میں سیاسی، قانونی یا بیوروکریٹک پس منظر کا کم یا زیادہ تجربہ رکھتے تھے۔
مگر آٹھویں چیئرمین کے انتخاب نے یہ تصور بھی غلط ثابت کر دیا کہ اس منصب پر بیٹھنے کے لیے کسی بھی سیاسی یا انتظامی بائیوڈیٹا یا تجربے کی ضرورت ہے۔
اوپر والا چاہے تو راجہ ظفر الحق جیسا زیرک سیاستداں بھی ایک آزاد نووارد کے ہاتھوں برادرانِ یوسف کے تعاون سے شکست کھا سکتا ہے۔ اور پھر یہی نووارد چند ماہ بعد تحریکِ عدم اعتماد لانے والوں کو اکثریت کے باوجود پٹخ سکتا ہے۔ ایسے معجزات ہی شناخت کی تلاش میں سرگرداں جمہوریت کا حسن کہلاتے ہیں۔
جو مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی سنہ 2006 میں میثاقِ جمہوریت کے تحت سینیٹ میں پیسے کے بل پر خرید و فروخت روکنے کے لیے خفیہ رائے شماری کے بجائے کھلے ووٹ کے لیے آئینی ترمیم کے وعدے میں بندھے ہوئے تھے، میثاقِ جمہوریت کے بعد برسرِ اقتدار آنے کے باوجود یہ آئینی ترمیم نہیں کر پائے۔
اب جبکہ عمران خان نے اس ترمیم کے لیے ہر دروازہ بجانا شروع کر دیا تو یہی پیپلز پارٹی اور نون لیگ عمران خان کی اس کوشش کو دال میں کالا قرار دے رہے ہیں حالانکہ سب متفق ہیں کہ ہر تین برس بعد سینیٹ الیکشن کے نام پر بکرا پیڑھی لگتی ہے۔
بجائے یہ کہ سیاسی جماعتیں اپنے منتخب ارکان کی مسلسل پارلیمانی تربیت پر توجہ دیتیں اور انھیں احساس دلاتی رہتیں کہ وہ اس منصب پر محض ذاتی منفعت اور اثر و رسوخ کے فروغ کے لیے نہیں بلکہ اجتماعی بہتری کو قانون سازی کے ذریعے آگے بڑھانے کے لیے لائے گئے ہیں۔
ان سیاسی جماعتوں کی قیادت نے سیاسی مصلحت کوشی کو دانستہ یا نادانستہ انداز میں آگے بڑھایا، یوں اندرونی محاسبے اور ضروری سیاسی ڈسپلن سے ارکان بے فکر ہوتے چلے گئے۔
اس رجہان کو لگام دینے کے بجائے سیاسی جماعتوں کی قیادت نے یہ آسان راستہ اختیار کیا کہ جو کام ان کے کرنے کا تھا وہ انھوں نے دیگر اداروں پر ڈال دیا۔ پیسے کے چلن کا واویلا ہر کسی نے مچایا لیکن اس چلن کو کنٹرول کرنے کا بوجھ بھی الیکشن کمیشن کے کندھوں پر رکھ دیا۔ خفیہ ووٹنگ کو کرپشن سے بچانے کے طریقے سوچنے کے بجائے ساری برائی کی جڑ ہی خفیہ ووٹنگ کی جمہوری مشق کو قرار دے دیا۔
خود بدلتے نہیں دستور بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق (اقبال سے دست بستہ معافی)
جو جماعتیں اپنے انتخابی اخراجات کی تفصیلات بروقت جمع کروانے میں ناکام رہیں اور ہر بار الیکشن کمیشن کو ارکانِ پارلیمان کی رکنیت معطل کر کے انھیں گوشوارے جمع کروانے پر مجبور کرنا پڑے ایسی سیاسی قیادت سے اپنے ارکان کی سمت درست رکھنے کی فرمائش بہت ہی زیادہ ہے۔
ایسی سینیٹ اپنا عوامی وقار کیسے قائم رکھ سکتی ہے اور پھر صوبوں کو مساوی وزن دلوا کے ان کے آئینی مفادات کا تحفظ کیسے کر سکتی ہے اور عوام دوست قانون سازی میں قومی اسمبلی سے کیسے سبقت لے جا سکتی ہے اور بنیادی آزادیوں کو قانون سازی کی آڑ میں محدود کرنے کے رجہان کے آگے دیوار کیسے بن سکتی ہے؟
یہ تمام سوالات بھی تین مارچ کی شام تک ہی کچھ اہمیت رکھتے ہیں۔ اس کے بعد میں کون اور تُو کون؟
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)
یہ بھی پڑھیں:
قصور خان صاحب کا بھی نہیں۔۔۔وسعت اللہ خان
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر