اپریل 30, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ارشاد تونسوی….سرائیکی وسوں کا چاند غروب ہوا||حیدر جاوید سید

لیجیئے ارشاد تونسوی رخصت ہوئے، سفر حیات تمام ہوا، ادیب تھے، شاعر اور دانشور وسوں کی ترقی پسند سوچ کے ان اولین لوگوں میں سے جنہوں نے دو تین نسلوں کومتاثر کیا۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لیجیئے ارشاد تونسوی رخصت ہوئے، سفر حیات تمام ہوا، ادیب تھے، شاعر اور دانشور وسوں کی ترقی پسند سوچ کے ان اولین لوگوں میں سے جنہوں نے دو تین نسلوں کومتاثر کیا۔
سرائیکی لوک سانجھ کے بانیوں میں شامل تھے۔ ہمارا اولین تعارف عزیز جاں دوست عزیز نیازی ایڈووکیٹ مرحوم کے ضلع کچہری والے چیمبر میں ہوا۔ پھر رضو شاہ کے ہاں اکثر ملاقاتیں ہوتی رہیں ۔ بھلے مانس شخص تھے انسان تو انسان انہیں پرندے تک عزیز رہتے۔
1970ء کی دہائی کی سرائیکی وسوں میں رجعت پسندی کو للکارنے والے زمین زادوں کی پہلی صف میں ہمیشہ دیکھائی دیئے۔ کمال کے شخص تھے۔ روایت پسند انسان، سماجی اقدار کا زندہ بھرم تھے۔ تونسہ کی مٹی سے اٹھے اسی میں جاسوئے۔
سفر حیات میں روزگار شہر شہر لئے پھرا۔ فرائض منصبی کا سلسلہ ختم ہوا تو پھر وہیں جابسے۔ صحرا، ریگستان، آدمی، کتابیں، پرندے انہیں زندگی بھر محبوب رہے۔
آدمیوں کے جنگل میں پوری فکر کے انسان تھے۔ 17فروری کی صبح ان کے دائمی وچھوڑے کی خبر لائی۔ یہ جو دنیا سرائے ہے اس میں ہمیشہ کون رہتا ہے۔
ایک ایک کرکے لوگ رخصت ہوتے جارہے ہیں۔ بچھڑنے والوں کی فہرست بڑی طویل ہے لالہ زمان جعفری، عزیز نیازی، عمر علی خان بلوچ، تاج محمد خان لنگاہ، مرید حسین خان راز جتوئی، ریاض خان کورائی، حکیم محمود خان، سید حسن رضا بخاری المعروف رضو شاہ، اسد لنگاہ، استاد محترم سید حیدر عباس گردیزی۔ کسے یاد کیجئے کسے بھلایئے۔
یادوں کے در وا ہوئے۔ ارشاد تونسوی رحیم یارخان میں تعینات تھے۔ شبیر قریشی صالح محمد کلہار اور میں ان کے دولت کدہ پر حاضر ہوئے ایک طویل نشست، چبھتے ہوئے سوالات، دلیل سے گندھے جواب، ان کے وسیع مطالعہ نے متاثر کیا۔
خواجہ غلام فریدؒ، سچل سرمتؒ، شاہ لطیفؒ انہیں ازبر تھے۔ لوک روایات۔ پرانی متھیں، صدیوں کا سفر کئے، اقوال حافظہ کا کمال تھا۔
قریشی اور کلہارنے انگنت سوالات کئے بہت متانت سے انہوں نے جواب دیا۔ یہ نشست جاری تھی کہ ملتان سے نذر عباس بلوچ (مرحوم) بھی آن پہنچے۔ حال احوال کے بعد گفتگو وہیں سے شروع ہوئی سلسلہ جہاں ٹوٹا تھا۔
میں نے عرض کیا، ایسا لگتا ہے کہ جیسے آپ ہندو ازم سے بہت متاثر ہیں؟ مسکراتے ہوئے بولے جو موجود ہوگا اس کا اثر بھی ہوگا۔
ایک ملاقات اور یاد آئی۔ خواجہ غلام فریدؒ کے شہر کوٹ مٹھن میں ایک لمبی نشست، سوال اور جواب، اچانک گفتگو روک دی، چائے کا کپ اٹھایا دو سپ لئے اور پھر بولے،
شاہ جی!
آدمی کو پرچون فروش بننے کی بجائے انسان بننے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ مجھے یاد پڑتا ہے بھٹو کو تازہ تازہ پھانسی لگی تھی۔ اس پس منظر میں عرض کیا،
سئیں! انسان تو دجلہ کنارے مارے جاتے ہیں کبھی فرات کنارے، سامت اور بھٹو ہی نہیں حسین بن منصور حلاجؒ بھی پھانسی چڑھے وہ انسان ہی تو تھے۔
رسان سے بولے قاتل تو آدمی تھے۔ بونے اور بوزنے۔
ملاقاتیں انگنت تو نہیں البتہ کافی ہوئیں۔ مجھے دعویٰ دوستی ہرگز نہیں البتہ وہ ہمیشہ لائق احترام رہے اپنی ترقی پسند سوچ، کتابوں سے دوستی، مطالعہ کی وسعت اور دلیل سے عبارت مکالمے کی وجہ سے وہ ایسے ہی تھے۔
ان کاسانحہ ارتحال سرائیکی وسیب کے ایک روشن چاند کا غروب ہوجانا ہے وہ چاند جس کی روشنی سے دو تین نسلوں نے راستے تلاش کئے۔
دلیل سے عبارت مکالمے فیض پانے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ نظم اور نثر دونوں میں باکمال شخص تھے۔
عصری شعور کی دولت سے مالامال ان کا دکھ یہ تھا کہ وسوں نے اس طور خود کو دریافت نہیں کیا جو اس کا فرض تھا۔
سرائیکی قومی سوال پر ان کے ہاں ابہام نہیں تھا۔ وسوں کی ہزاریوں پر پھیلی تاریخ کے حافظ تھے۔ مست ملنگ شخص تھے طمع سے ہمیشہ بچ کر رہے اورعلم کو چوکڑی مارلیتے کہ جانے نہ پائے۔
عزیز نیازی اور رضو شاہ انہیں بہت محبوب تھے یہی دو حوالے ہمارے ان کے مراسم کی بنیاد بنے۔
جب تک ملاقاتیں رہیں شفقت سے ملے۔ سوالوں پر کبھی چیں بچیں نہ ہوئے ان کا خیال بلکہ پختہ رائے تھی سوال زندہ آدمی کرتے ہیں۔ ہمیشہ کہا کرتے تھے،
شاہ جی! خامشی قبرستانوں میں اچھی لگتی ہے، زندگی سندھ دریا کے چلتے پانی کی طرح ہے پانی بہتا رہے تو لہریں اٹھتی ہیں زندگی بڑھتی رہے تو سوال ہوتے ہیں۔
کبھی کبھی سوچتا ہوں کیا ہمارے نصیب میں نوحہ گری لکھی ہے۔ مرنے والوں کی یادیں تازہ کرنا بھی نوحہ گری ہی ہے۔
صبح سے سوچ رہا ہوں سرائیکی وسوں کو تعزیت کروں جس کا چاند غروب ہوگیا۔
حبس پہلے کافی تھا اب اندھیرا بھی بڑھے گا۔ کیا زمانہ آ پہنچا ہے دانا بینا لوگ ایک ایک کرکے رخصت ہورہے ہیں۔
کیا اس وسوں نے بانجھ موسموں کا بوجھ اٹھاکر جینا ہے۔
سوال یہ ہے کہ سوال کس سے کیا جائے؟
چار اور تو آدمیوں کا جنگل ہے۔ ’’عشق اساڈہ دین‘‘ کا خالق رخصت ہوا جس نے کہا تھا ’’ندی ناں سنجوگ‘‘ چاند غروب ہوا یوں کہہ لیجئے ایک عہد تمام ہوا۔
سرائیکی وسوں کا روشن فکر انسان دوست، مرد آزاد، ارشاد تونسوی اب نہیں رہا۔
یادیں رہ گئیں۔ بس یہی سرمایہ ہیں۔ اگلی نسلوں کےلئے ان کی صاف ستھری روشن خیالی ورثہ ہے۔
پتہ نہیں صبح سے ایسا کیوں لگ رہا ہے جیسے
’’سب تمام ہوا‘‘۔ مجھے جمال احسانی یاد آئے کیا کمال کے شاعر ہیں کہتے ہیں:
چراغ بجھتے چلے جارہے ہیں سلسلہ وار
میں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوئے

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: