فہمیدہ یوسفی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پتہ نہیں کیوں اس سال میرے الفاظ تلخیوں سے بھرے کیوں رہیں گے سمجھ نہیں آ رہا کیا اس سال مجھے صرف جوان لاشوں کے نوحے لکھنے ہیں۔ کیا اس سال میرے قلم سے کوئی تحریر ایسی ہوگی جس میں کسی بے گناہ کے خون کی سیاہی نہیں ہوگی؟ کیا میرے لفظوں میں درد ہی تحریر ہوں گے ۔
پولیس کے ہاتھوں اسامہ کے قتل پر لکھنے کے بعد سوچا تھا شاید اس کے بعد کچھ ایسا نہ دیکھنا پڑے جو تڑپا کر رکھ دے لیکن پھر جو کچھ اس چشم فلک نے دیکھا جب سسکتے بلکتے غریب اپنے پیاروں کی لاشیں کھلے آسمان کے تلے لے کر بیٹھے تھے اور اس پر جس طرح کے پرسے دیے گئے اس پر تو قلم اٹھانے کی جرات ہی نہیں تھی۔
لیکن ایک بار پھر دل تڑپا ہے ایک بار پھر لفظ سسک سسک کر کہہ رہے ہیں کہ بس لکھ دو۔ ایک بار پھر سامنے کچھ بے بس اور خاموش تصویریں ہیں ان کی آنکھیں پوچھ رہی ہیں نا کہ ہمارا قصور کیا تھا؟ ہوا تو کچھ بھی نہیں بس بڑے بڑے لوگوں کے شہر میں ایک بڑی سی لینڈ کروزر اپنی طاقت کے نشے میں آپے سے باہر ہو کر ایک معمولی سی مہران پر چڑھ دوڑی اور ظاہر ہے کہ ایسے حادثات میں لوگ جان سے چلے جاتے ہیں۔
تو بس اس معمولی سی مہران میں موجود چار دوست وہیں ختم ہو گئے۔ ہاں لیکن بہت اچھی بات یہ ہے کہ لینڈ کروزر میں موجود تمام لوگ بال بال بچ گئے اور ان کا بچنا اس ملک اور قوم کے مستقبل کے لیے بے حد ضروری ہے۔
اس مہران گاڑی میں پانچ دوست تھے جو ایک ساتھ تھے اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے سفر پر نکلے تھے لیکن ان کو کیا پتہ تھا کہ وہ تو ایسے سفر پر جا رہے ہیں جہاں سے کبھی کوئی لوٹ کر نہیں آتا بس پیچھے رہ جانے والے اب زندگی بھر یاد کر کر کے روتے رہیں گے۔
یہ مرنے والے غریب کے بچے تھے تو ظاہر ہے کہ ان کے لیے انصاف تو اللہ کے گھر ہی ہوگا۔ ان میں سے ایک غریب جوان اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا اور اپنے لیے نوکری ڈھونڈنے کے لیے اس آخری سفر پر اپنے دوستوں کے ہمراہ ہو گیا تھا۔ دوسرے غریب کی ماں اس کا سہرا سجانے کی تیاریاں کر رہی تھی اور اب اس کو کفن میں دیکھ دیکھ کر غش کھا رہی ہے تو پھر کیا ہوا غریب مائیں تو ایسے ہی غش کھا کھا کر گرتی ہی رہتی ہیں۔ باقی دو کی کہانی بھی کون سا الگ ہے ہاں قدر مشترک غربت اور دوستی تھی۔ بدنصیب حیدر کو کون سا پتہ تھا کہ اس کا یہ فیس بک لائیو آخری ہوگا جب اس نے کہا تھا کہ خیریت سے سفر کرو۔
پولیس نے تو ہمیشہ کی طرح اپنی روایتی کارروائی ڈال دی ہے اور ہمیشہ کی طرح شاہ سے زیادہ شاہ کی مصاحبی میں ڈرائیور نے مان لیا ہے کہ گاڑی وہ چلا رہا تھا۔
جبکہ کشمالہ بی بی نے انتہائی افسوس کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو بچے جان سے گئے ان کے لیے دل بہت پریشان ہے مرنے والوں کے ساتھ انصاف ہوگا لیکن ساتھ میں یہ بتا دیا ہے کہ ناحق کسی کے بچے کو نہ لپیٹیں۔
ان کا معصوم بیٹا تو پچھلی گاڑی میں تھا اور کیونکہ ابھی تک پولیس اس الزام کی تحقیقات کر رہی ہے کہ گاڑی کشمالہ طارق کا فرمانبردار بیٹا چلا رہا تھا یا پھر کوئی نشے میں دھت ڈرائیور۔
تاہم ہوگا اس بار بھی کچھ نہیں قبل از گرفتاری ضمانتیں عدم ثبوت پر رہائیاں اور پیسے کے کھیل اس ملک میں نئے نہیں ہیں لینڈ کروزر سفید ہو یا پھر کالی مبینہ ملزمان عدم ثبوت پر چھوٹ جاتے ہیں۔
لیکن بس میرا ایک ہی سوال ہے اور ہاں یہ کوئی بددعا نہیں ہے کہ اگر کشمالہ صاحبہ اس مہران گاڑی میں خدانخواستہ آپ کا بیٹا ہوتا تو؟ بس پوچھ رہی ہوں بد دعا نہیں دے رہی۔
یہ بھی پڑھیے:
پاکستان کا سمندری نمک بہترین زرمبادلہ ثابت ہوسکتا ہے۔۔۔ فہمیدہ یوسفی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر