نومبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مردانہ آگ کے دریا پر چھٹکی خاتون جینیئس کی چاندنی ۔۔۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

مردانہ بالادستی کے معاشرے میں عبداللہ حسین بھی پیچھے نہ رہے اور قرۃالعین کو قابل ذکر ناول نگار ماننے سے انکار کر دیا حالانکہ “اداس نسلیں”کے بارے میں خود قرۃالعین نے محسوس کیا اور کہا کہ کئی مقامات پہ ان کے سٹائل کو چربہ کیا گیا ہے۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 “آخر کیسے ہو سکتا ہے یہ؟ میں نہیں مان سکتا! یہ زیادتی ہے مصنف کی، یکطرفہ گمان!”

“لیکن چاچا، کیا خبر ایسا ہوا ہی ہو؟”

“ہر گز نہیں! جس پائے کی وہ خاتون تھیں، ایسے عامیانہ پن سے وہ اپنی پسندیدگی کا اظہارنہیں کرسکتیں تھیں”

“لیکن چاچا، دل پہ تو زور نہیں چلتا نا”

“نہیں بیٹا، اتنی بڑی شخصیت کا دل اتنا اتاؤلا نہیں ہوا کرتا۔ اور اگر دل نے چاہا بھی تو وہ اٹھارہویں صدی کی کوئی خاتون تھیں کیا؟ جن کی زبان شرم کے مارے گنگ ہو گئی، اور جن کا قلم کبھی اس بارے میں لکھ نہ سکا….. نہ بیٹی نہ، میں نہیں مانتا”

“لیکن چاچا، وہ مفروضوں پہ کیوں لکھیں گے؟”

“مردوں کے جنگل میں حقوق نسواں پہ آواز اٹھانے والی میری بیٹی، ایک نامی گرامی ادیب عورت کو برداشت کرنا آسان کام ہے کیا؟

اور تم سے زیادہ کون بہتر سمجھے گا کہ عورت کی ہر خوبی، اچھائی اور قابلیت کو اگر پس پشت ڈالنا ہو تو ایک ہی ترکیب ہے کہ کردار پہ سوال اٹھا دیا جائے، یا کسی بھی عام سی صورت حال کو دھندلا کرتے ہوئے افسانوی رنگ دے دیا جائے یا مبہم سے لہجے میں کسی ایسی بات کا ذکر کیا جائے جس کا کوئی اور راوی نہ ہو۔

اور فرض کرو کہ دو ادیبوں کے درمیان کچھ ملاقاتیں ہوئی بھی ہوں تو یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ان میں مرد و عورت کی تخصیص کرتے ہوئے اسے رومانوی رنگ دیا جائے۔

 مزید فرض کرو کہ مرد ادیب نے آپ ہی آپ اگر خوش فہمیاں بھی پال رکھی ہوں تب بھی، یہ کہاں سے ثابت ہوتا ہے کہ خاتون ادیب بھی ویسے ہی سوچ رہی تھی؟

مرد و عورت کی بحث سے قطع نظر ایک عورت ادیب کو محض ادیب کیوں نہیں سمجھا جا سکتا؟”

ارے اس بحث کو پڑھ کے الجھیے نہیں، ہم بتائے دیتے ہیں اس مکالمے کا سیاق وسباق بھی۔ پہلے یہ اقتباس دیکھ لیجیے۔ کتاب ہے “خطوط” اور مصنف ہیں مستنصر حسین تارڑ اور اس میں شفیق الرحمان، کرنل محمد خان اور محمد خالد اختر کے وہ خطوط شامل ہیں جو مصنف کو لکھے گئے اور ان کے ساتھ کچھ یادداشتوں کا ذکر بھی ہے۔

“قرۃالعین کی کتاب ‘کار جہاں دراز ہے’ میں کہیں بھی شفیق صاحب کا کچھ ذکر نہیں… کیوں نہیں… شاید اس لیے کہ غالباَ انہیں دیکھ کر ان کا دل تھوڑا سا دھڑکا تھا۔ “

( غالباَ کہہ کر مصنف کے قیاس کرلینے کے بعد ہم یہ سوال پوچھ سکتے ہیں کہ اگر کسی کا کار جہاں دراز میں ذکر نہیں ملتا، تو یہ کہاں کی دلیل ہے کہ ان کو دیکھ کر عینی آپا ہوش گم کر بیٹھی تھیں)۔

“لندن میں شفیق الرحمن اور قرۃالعین حیدر کی متعدد ملاقاتیں ہوئیں۔ بقول شفیق صاحب وہ لندن کے کسی طے شدہ بس سٹاپ پر ملاقات کا وقت طے کرتے۔ کبھی وہ اپنی ٹائی کی گرہ درست کرتے ان کی راہ تکتے اور کبھی وہ ان سے پہلے وہاں پہنچ کر بے تابی سے منتظر اپنی ساڑھی کا پلو درست کرتیں، کلائی پر بندھی گھڑی پر نظر ڈالتیں اور بار بار ایک چھوٹے سے آئینے کو رو بہ رو لا کر گہرے شیڈ کی لپ سٹک کو اپنے ہونٹوں پر پھیرتی منتظر رہتیں”

( یہ احوال کسی متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی مرد کے التفات کو ترستی کم عمر لڑکی کا تو ہو سکتا ہے جو رومانس کرنا چاہے تو کسی فلم کی جذباتی ہیروئن کی طرح ٹھنڈی سانسیں بھرتے ہوئے ہونٹ کچل ڈالے اور ساڑھی کا پلو کبھی شانے سے سرکائے اور کبھی بے اختیار ڈھلکتا جائے۔ لیکن ایک ایسی عورت کا احوال ہر گز نہیں ہو سکتا جس نے بچپن سے والد کے ساتھ آزادی اور خود مختاری کی زندگی گزاری ہو، جو لندن میں اکیلی رہتی ہو، پراعتماد ہو، ادیبہ ہو اور جس کے لئے مرد و عورت کے آزادانہ میل جول میں صنفی امتیاز نام کا کوئی مسئلہ موجود نہ ہو)

“پھر ہم ڈنر کے لئے کسی ریستوران میں چلے جاتے۔ میں تو اکثر سبز پتوں والی سلاد وغیرہ پسند کرتا اور عینی… وہ جو کچھ بھی آرڈر کرتی تیز مرچ مصالحوں والا کوئی سالن ہوتا… اسے کھاتے ہوئے سوں سوں کرتی رہتی اور پھر ویٹر سے کہتی کچھ اور مرچی لاؤ… وہ مرچوں کو ہمیشہ مرچی کہتی…. ایک بار ڈنر کے بعد وہ مجھے لنڈن میں مقیم ایک ایسی سابقہ طوائف کے پاس لے گئی جس کے کردار کو اس نے آگ کا دریا میں پینٹ کیا تھا اور وہ اگر چہ ایک بوڑھی لیکن نہایت طرحدار عورت تھی اور اس نے ہم دونوں کو عجیب سازشی نظروں سے دیکھا”

 ( کیا یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ دونوں کے درمیان کچھ دال میں کالا ضرور تھا جو اس طوائف نے بھانپ لیا تھا)

“ان دنوں ایک افواہ بہت عام ہوئی کہ شفیق صاحب تو بہت دلچسپی رکھتے تھے لیکن قرۃالعین نے شادی سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ…. میں ایک مزاحیہ اور بچوں کی کہانیاں لکھنے والے کے ساتھ کیسے شادی کر سکتی ہوں…”

( یہ بات قرین قیاس ہو سکتی ہے کہ ادب کے عایشان زینے پہ فائز عورت نے ایسا سوچا ہو۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ بس سٹاپ، ساڑھی، لپ اسٹک کا یہ سارا فسانہ شفیق الرحمان صاحب کی زخمی ایگو کی رفوگری کے لئے بنا گیا ہو۔ پدرسری معاشرے میں کسی عورت کا اپنی پسند کا اظہار کرتے ہوئے کسی مرد کو بیک جنبش قلم رد کر دینا کسے پسند آیا کرتا ہے )

“ویسے میرا گمان ہے کہ شفیق صاحب کی رغبت یک طرفہ ہر گز نہیں تھی… وہ تو خود اپنی وجاہت کے گھمنڈ میں تھے..”

( یعنی اگر قرۃالعین اپنی خوبصورتی، خاندانی پس منظر اور ذہانت کی وجہ سے کسی کو خاطر میں نہیں لاتیں تھیں تو شفیق الرحمان بھی کچھ کم نہ تھے… یعنی پھر وہی ایک مرد کی ایگو کا مسئلہ …)

“اور اگر لندن میں ان کی باہمی رغبت سے کچھ ملاقاتیں ہوئیں تو یقیناً یہ وہی مرد تھا جسے دیکھ کر عینی آپا کا دل لمحہ بھر کے لئے رکا ( ہائے رے یہ خوش فہمی)

ورنہ وہ اس کے ساتھ یہ میل ملاقات کیوں کرتیں؟”

( اگر دو مرد ادیب باہمی رغبت سے میل ملاقات کریں تو کیا پھر بھی یہی معنی اخذ کیا جائے گا اور ایسا ہی سوال پوچھا جائے گا؟)

“لندن کے کسی بس سٹینڈ پر اپنی ساڑھی کا پلو درست کرتی لپ اسٹک کا شیڈ ہونٹوں پر گہرا کرتی ان کا انتظار کیوں کرتیں؟”

کس قدر ارزاں الفاظ ہیں یہ جن میں ایک نامور عورت کو سستے جذبات کی میزان میں تولا گیا ہے۔ ساڑھی پہن کے پلو درست کرنا ایک عورت کا جرم ہے یا لپ اسٹک کا گہرا شیڈ۔ بس سٹاپ پہ انتظار کا استعارہ یقیناً ان سستے رومانوی رسالوں کی دین ہے جہاں عورت کے جذبات کی شدت کو بس سٹاپ پہ انتظار کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔

کیا ملکوں ملکوں گھومنے والے مصنف نہیں جانتے کہ مغرب میں سبھی بسوں سے سفر کرتے ہیں اور جو پہلے پہنچ جائے وہ دوسرے کا انتظار بھی کرتا ہے۔ یہاں ایک دانشور عورت کو ایک عام عورت کا چولا پہنایا گیا ہے جو دل ہی دل میں کسی کو پوجتی رہتی ہے اور لبوں سے اظہار کی جرات نہیں کرتی۔

(خطوط، صفحہ نمبر چوبیس اور پچیس، مستنصر حسین تارڑ)

جس مکالمے کا ہم نے مضمون کے شروع میں ذکر کیا وہ ہمارے چاچا کے دل کی آواز ہے جو قرۃالعین حیدر کو بیسویں صدی کے اردو ادب کی سب سے اہم ادیب مانتے ہیں۔ اور یہ ماننے سے انکاری ہیں کہ وہ بت طناز جس کا ایک عالم دیوانہ تھا، جس کی راہ میں سماج نامی کوئی دیوار حائل نہ تھی کہ سجاد حیدر یلدرم کا گھرانہ سماجی بندشوں کو خاطر میں نہیں لاتا تھا، وہاں اس جینیئس عورت کے لئے مفروضے باندھے جائیں، گمان پہ سوچ لیا جائے کہ کچھ تو تھا جس کی پردہ داری تھی!

اس سارے واقعے کو یوں بھی تو دیکھا جا سکتا ہے کہ شفیق الرحمان یہ یکطرفہ خواہش دل میں پال بیٹھے تھے۔ یہ ان کی ذات تک تو صحیح ٹھہرا لیکن اگر قرۃالعین حیدر نے ایسا نہیں چاہا اور افواہ کے مطابق اپنے انکار کا اظہار بھی کر دیا تو یہ ان کا حق تھا کہ جس سے چاہیں بندھن بنانے کا سوچیں، جسے چاہے رد کریں۔

اس افواہ کی موجودگی میں دونوں کی ملاقات کو رنگین پیراہن اوڑھا کے ایک خاص زاویے سے دیکھنا اسی پدرسری معاشرے کا خاصہ ہے جہاں عورت چاہے ادیب ہو صنف کی میزان میں پرکھی جاتی ہے اور مرد ادیب کے ہرجائی پن، رومانس اور رنگین شاموں کے ہزاروں افسانے اس کا کچھ نہیں بگاڑ پاتے۔

افواہ کا ذکر چل ہی نکلا ہے تو ان افواہوں کے متعلق بھی بات کر لی جائے جن کے مطابق قرۃالعین حیدر قدرت اللہ شہاب سے عقد رچانے کے لئے بےتاب تھیں لیکن شہاب صاحب نے انہیں درخور اعتنا نہ سمجھا۔ نتیجتاً وہ اس قدر مایوس ہوئیں کہ پاکستان ہی چھوڑ گئیں۔

سوال یہ اٹھتا ہے کہ دل کو ٹھیس پہنچنا اور کسی رشتے میں نہ بندھنے کے باعث مایوسی کے عالم میں ہجرت کر جانا ایک عورت کے حصے میں ہی کیوں آتا ہے؟

مفروضات کی روشنی میں تو شفیق الرحمان ، قدرت اللہ شہاب اور بے شمار اور کے دل کو بھی ٹھیس پہنچنا چاہیے تھی اور کوئی جوگ وغیرہ لے لینا چاہیے تھا کہ وہ عشاق کی فہرست میں شامل تھے لیکن مسئلہ کچھ اور تھا، جس کے متعلق مستنصر صاحب نے خود ہی لکھ دیا۔

“میں نے ایک بار اعجاز حسین بٹالوی سے پوچھا کہ اعجاز صاحب… یہ کیا ہے کہ قدرت اللہ شہاب سے لے کر آپ تک عینی آپا کی گرویدگی میں غرق رہے تو انہوں نے کہا… تارڑ صاحب ہمارے زمانے وہ تھے جب کسی برقع پوش خاتون کے ٹخنے کو دیکھ کر ہم اس کے عشق میں مبتلا ہو کر آہیں بھرنے لگتے تھے اور ان زمانوں میں ایک دم بخود کر دینے والی دل کش اور جینئیس عورت…ساڑھیوں اور لپ اسٹک کے شیڈز میں انتخاب بے جواب… جو نہ صرف مردوں کی آنکھوں میں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتی تھی بلکہ کسی حد تک انہیں حقیر سمجھتی تھی تو ہم کیا کرتے، اس کے عشق میں مبتلا نہ ہوتے تو کیا کرتے”

( خطوط، صفحہ نمبر چوبیس، مستنصر حسین تارڑ)

لیجیے آ گئی نا بلی تھیلے سے باہر! خوش شکل، خوش ادا، خوش لباس، اور جینیئس عورت جو مردوں سے مرعوب نہ ہوتے ہوئے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرے اور انہیں حقیر بھی سمجھے، اب ایسی ناقابل تسخیر عورت کا کیا علاج کیا جائے؟

وہی، جو کیا گیا!

حقیقت یہ ہے کہ ایک علمی وادبی خانوادے سے تعلق رکھنے والی قرۃالعین حیدر محض بتیس برس کی عمر میں آگ کا دریا لکھ کے دنیائے ادب کے ایک ایسے مقام پہ فائز ہو چکی تھیں جہاں سے ہر ادیب بالشتیا دکھتا تھا۔ اس دمکتے ہوئے ستارے کی روشنی بہت سی آنکھوں میں اندھیرے اتارتی تھی۔ اس لئے افواہوں، بے جا تنقید اور کسی حد تک کردار کشی کا ایک ایسا سلسلہ چلا جس نے انہیں دوسری مرتبہ ہجرت کرنے پہ مجبور کر دیا۔

اس سارے المیے کا بیک گراؤنڈ یہی نظر آتا ہے کہ آگ کا دریا کی شہرت اور ادبی مقام نے مرد ادیبوں کو مجبور کر دیا کہ قرۃالعین حیدر کو ساتھی ادیب کی بجائے ایک کمزور عورت کا روپ دے دیا جائے تاکہ کچھ تو ہو جس سے کچھ زبانیں سانپ بن جائیں۔ کسی نے انہیں بدھسٹ، تو کسی نے ہندو یہ کہہ کر پکارا کہ وہ نظریہ تناسخ کی قائل ہیں۔

قدرت اللہ شہاب نے مارشل لاء کی آمد کے بعد ان کا ایک ایسی عورت کا نقشہ کھینچا جو بکھرے بالوں، اداس چہرے اور پریشان آنکھوں کے ساتھ ان کے پاس پہنچیں تھیں۔ اور کرب آمیز لہجے میں پوچھا تھا کہ گویا اب بھونکنے پہ بھی پابندی ہو گی؟ وہ لکھتے ہیں کہ “سنسر شپ کے تخیل ہی سے اس کو بڑا شدید ذہنی جھٹکا لگا۔ کچھ عجب نہیں اسی جھٹکے کے ردعمل نے اس کے قلم کی باگ ” آگ کا دریا ” کی طرف موڑ دی ہو”

( شہاب نامہ صفحہ نمبر 748)۔

کیا ہی حیرت کی بات ہے کہ شہاب سوچ رہے ہیں کہ اکتوبر 58 میں لگنے والے مارشل لاء کے بعد عینی آپا کی یوں کایا کلپ ہوئی کہ محض چند مہینوں میں انہوں نے ” آگ کا دریا ” جیسا معرکتہ الآرا ناول لکھ مارا جو 59 میں چھپ بھی گیا۔ یعنی مارشل لا سے پہلے آگ کا دریا کا وجود ہی نہیں تھا اور یہ مارشل لا کے بعد کی پراگندہ خیالی کا نتیجہ تھا۔

مردانہ بالادستی کے معاشرے میں عبداللہ حسین بھی پیچھے نہ رہے اور قرۃالعین کو قابل ذکر ناول نگار ماننے سے انکار کر دیا حالانکہ “اداس نسلیں”کے بارے میں خود قرۃالعین نے محسوس کیا اور کہا کہ کئی مقامات پہ ان کے سٹائل کو چربہ کیا گیا ہے۔

اختر بلوچ اپنے مضمون ” مگر عینی ہندوستان کیوں گئی؟ ” میں لکھتے ہیں،

“ایک سینیئر ادیب اور کالم نگار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ہمیں بتایا کہ یہ معاملہ صرف ”آگ کا دریا“ کا نہیں تھا۔ عینی خوش شکل تھی۔ غیر شادی شدہ تھی۔ نہ صرف رائٹرز گلڈ بلکہ جن محکموں میں انہوں نے ملازمت کی، کچھ افسران ان سے شادی کرنا چاہتے تھے یا ان سے رسم و راہ رکھنا چاہتے تھے۔ عینی دونوں صورتوں کے لیے تیار نہیں تھی”۔

آہ پدرسری معاشرے کا وہ معیار، جس کا خراج عینی آپا کو بحثیت عورت دینا پڑا۔

عینی آپا کی سالگرہ پہ صرف اتنا کہنا ہے کہ عینی آپا آپ اپنے وقت سے بہت پہلے اس دنیا میں آ گئیں۔ آج اکیسویں صدی کے پدرسری معاشرے کا مرد عورت کے لکھے ہوئے سے وہ کچھ ڈھونڈتا ہے جس سے اسے سنگباری کا اذن مل سکے تو آپ نے تو آٹھ دہائیاں پہلے اپنے ٹیلنٹ سے ان لاکھوں آنکھوں کو چندھیا دیا جو عورت کو لب و رخسار کے علاوہ کچھ نہیں سمجھتے تھے۔ اردو ادب میں ناول نگاری کے نئے اسلوب کی وہ بنیاد رکھی جس راہ پہ لوگ چلے تو سہی لیکن یہ راہ ایک عورت نے نکالی تھی، کا اقرار قفل لگے لب کبھی نہ کر سکے۔

قرۃالعین حیدر! سالگرہ مبارک!

 

About The Author