گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب ہم چھوٹے تھے تو ہماری دادیاں اور نانیاں ہمیں کوہ قاف کے قصے سناتیں ۔ ان قصوں میں کوہ قاف کی خوبصورت پریاں۔۔ کچھ دیو اور جن بھی شامل ھوتے ۔جب ٹی وی آیا تو اس پر باقائدہ ایسے پروگرام بچوں کے بناۓ گئے جن میں تمام پرانے قصے فلماۓ گئے اور ہم بڑے شوق سے پریاں ۔جن اور دیو اڑتے دیکھتے ۔
جب بڑے ھوے تو کھوج لگانا شروع کیا کہ کوہ قاف ھے کہاں؟ پتہ چلا کوہ قاف پاکستان کے شمال میں سویت یونین کی مختلف ریاستوں میں موجود ھے ۔خیر دل میں کوہ قاف دیکھنے کی تڑپ تو تھی مگر کوئی چانس نظر نہیں آ رہا تھا۔ مگر اللہ پاک بھی انسان کے لئے اچانک ایسے اسباب بنا دیتا ھے جہاں اس کا گمان بھی نہیں ھوتا۔
کئی سال پہلے مجھے اسلام آباد ایک دن حکم ملا کہ فوراً ماسکو پہنچو وہاں شنگھائی کواپریشن آرگنائزیشن کی سربراہ کانفرنس ہو رہی جس میں پاکستان کے وزیراعظم شرکت کریں گے اور مجھے یہ کانفرنس رپورٹ کرنی تھی۔۔اب تو میرے ذھن میں کوہ قاف کے سارے مناظر فلم کی طرح گھومنے لگے۔
رخت سفر باندھا اور سخت سردی میں جب ہر طرف برف پڑی تھی میں ماسکو پہنچ گیا۔۔۔ روس زمین کے حساب سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ھے کیونکہ یہ زمینی سیارے کے دسویں حصے پر پھیلا ہوا ھے اگرچہ آبادی پندرہ کروڑ کے لگ بھگ ھے۔
اس کی سرحدیں ایشیا سے یورپ تک 14 ملکوں جن میں چین شمالی کوریا ڈنمارک فن لینڈ کو چھو رہی ہیں۔ یہاں نو علیحدہ ٹایم زون ہیں مطلب نو ریاستوں میں ٹائیم علیحدہ علیحدہ ہیں۔
پہلے آپ شنگھائی کواپریشن آرگنائیزیشن جسکو SCO لکھتے ہیں اس کا حال سنیں۔ یہ آرگنائزیشن دراصل چین نے جون 2001 میں بنائی تھی جس کا مقصد ممبر ملکوں کے درمیانی اقتصادی۔سیاسی اور سیکورٹی کے شعبوں میں تعاون کرنا تھا۔ ابتداء میں اس ادارے کے چھ ممبر تھے جن میں چین۔ قازکستان۔ کرغستان۔ روس ۔ تاجکستان اور ازبکستان شامل تھے۔۔۔ جون 2017 میں پاکستان اور انڈیا کو بھی ممبر بنا لیا گیا اور اس طرح اب اس کی تعداد آٹھ ہو گئی ھے۔
چار ملک اس میں ایسے بھی ہیں جنہیں ابھی مبصر observer کا درجہ حاصل ھے۔ وہ ملک افغانستان۔ بیلاروس ۔ ایران اور منگولیا ہیں۔ اس کے علاوہ چھ اور ملک ڈائیلاگ پارٹنر ہیں۔
وہ ہیں آرمینیا ۔آذر بائیجان ۔ کمبوڈیا ۔ نیپال ۔ سری لنکا اور ترکی۔۔۔اس آرگنائزیشن کی ہر سال کسی بھی ممبر ملک میں سربراہ کانفرنس ہوتی ھے اور آپس میں تجارت اور دوسرے شعبوں میں تعاون بڑھانے پر غور ہوتا ھے۔۔ ماسکو کی کانفرنس میں ممبر ملکوں کے مابین تجارت کا حجم بڑھانے اور سیکورٹی کے معاملات میں تعاون کرنے پر کئی فیصلے ھوۓ۔
ماسکو میں سب سے مشہور عمارت کریملن کہلاتی ھے جو اب صدر کی رہائش گاہ بھی ھے۔اس عمارت میں پانچ سال پہلے ہیلی پیڈ بنایا گیا کیونکہ صدر کے آنے جانے کی وجہ سے سڑکوں پر ٹریفک کا رش ہو جاتا تھا۔۔ ہمارے وزیراعظم عمران خان بھی ٹریفک کی وجہ سے لوگوں کی تکلیف سے بچنے کے لئیے ہیلی کاپٹر استعمال کرتے ہیں لیکن یہاں تو ہر بات کا بتنگڑ بنایا جاتا ھے اور چھوٹے چھوٹے ایشو پر ساری رات ہماے ٹی وی اینکر گلا پھاڑ پھاڑ کے تنقید کرتے رھتے ہیں۔
عمران خان کے ہیلی کاپٹر استعمال پر بھی طرح طرح کے پروگرام کر کے قوم کا وقت ضائع کیا گیا اور اصل ایشوز پیچھے چلے گئیے۔ کبھی آپ لوگ اس پر بھی غور کر لیا کریں کہ ٹی وی پروگرام دیکھ کر آپکی زندگی میں کوئی مثبت تبدیلی آئی یا ٹی وی نے آپ کا دل جلایا۔آپ کے اندر حسد اور انتقام کی آگ کو بھڑکایا تاکہ آپ تیلا تیلا ھو کر بھسم ھو جائیں۔
آپ انگریزی کاTED شو دیکھیں جب شو ختم ہو گا آپ اپنے آپکو ایک نواں نکور مختلف شخص محسوس کرینگے اگر ہمارے میڈیا کے پروگرام دیکھیں تو آپ یہ سوچ کر سوئیں گے کہ میں کل کسی شخص کو قتل کر دوں یا کسی ادارے کو آگ لگا دوں۔ چلیں چھوڑیں ہمیں اس دنیا کی زندگی کو خود جہنم بنا کے جینا ھے آگے اللہ مالک ھے۔
ماسکو میں کریملن ایک قدیم تاریخی قلعہ نما کمپلیکس ھے جس میں کئی محلات ہیں اور سامنے دریا بہتا ھے۔اور یہ بہت خوبصورتی سے بنایا گیا ھے۔مجھے اسے دیکھنے کا بڑا شوق تھا۔کریملن کے اندر جانے کی اجازت تو نہیں مگر پاکستان کے وزیراعظم نے وہاں اپنے ہم منصب سے مذاکرات کرنے تھے اس کی وجہ سے ہمیں بھی اندر جانے کا موقع مل گیا۔
اندر سے عمارت بہت شاندار تھی اور کاریڈور اتنی نفاست اور یکسانیت سے مزین کئے گیے تھے کہ آدمی راستہ بھول جاۓ۔ بہرحال روس کی یہ عمارت ملک کی شان و شوکت کا شاہکار ھے۔اب دیکھتے ہیں کہ برصغیر میں کو قاف کے قصے کیوں مشھور ہوۓ؟ اس کی وجہ یہ نظر آتی ھے کہ روس کی عورتیں پوری دنیا میں خوبصورتی کی وجہ سے مشھور ہیں۔ پچھلے سال ملائیشیا کے بادشاہ نے روسی حسینہ سے شادی کی وجہ سے تخت و تاج چھوڑ دیا ۔
تعلیم بھی سو فیصد ھے۔ صحت بھی بھت اچھی ھے تو ہمارے بزرگ جو وہاں سے انہیں دیکھ کر آتے تو انہیں پریاں بنا کر پیش کرتے اور نسل در نسل یہ قصے چلتے رھے۔ ہماری نانیاں اور دادیاں زیادہ پڑھی لکھی تو نہیں تھیں لیکن Bed Time پر ہمیں سلانے کے لئیے شروع میں لوریاں سناتیں ۔
ان لوریوں میں وہ کہتیں میں صدقے تھیواں تے قربان تھیواں مگر ہم چھ ماہ کی عمر میں لوری سمجھ تو نہیں سکتے تھے مدھر بھری آواز کا نغمہ سن کر سو جاتے۔پھر جب پانچ چھ سال کے ہوۓ تو پریوں کی کہانیاں سنا کر ہماری اندر آگے بڑھنے اور پریاں حاصل کرنے کی امنگ اور آرزوئیں پیدا کی گئیں۔۔
اس سے ظاہر ھوتا ھے پڑھے ہوۓ سے کِڑھا ہو زیادہ سیانہ ہوتا ھے۔۔ خیر ہم لوگوں کی زندگی میں کوہ قاف کی پریاں تو نہ آ سکیں مگر جو قسمت میں لکھی تھی ہر مرد نے شادی کر کے ایک پری حاصل کر لی۔۔ بس اب اس پہ گزارہ کرو اور اللہ کا شکر ادا کرو۔ورنہ اگر روس نہیں جا سکتے تو ناران چلے جاو اور جھیل سیف الملوک کے کنارے کھڑے قصہ سنانے والوں سے قصہ سن کے جھیل کے اوپر پہاڑ پر چڑھنے کی کوشش کرو۔ شاید کچھ مل جاۓ۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر