سعید خاور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کل ہی کی تو بات ہے یار دل دار اکبر ملک کو پس خاک روانہ کر کے کسی نہ کسی طرح اشکوں کی روانی کو حوصلوں کے بند باندھ کر روکا ہی تھا کہ آنکھوں میں آنسوئوں کا ایک اور طوفان امڈ آیا ہے-
نہ جانے اچانک یہ کیا ہوا کہ قاسم لاشاری بھی ہنستا مسکراتا راہی ملک عدم ہو گیا-
ہمارے ناتواں کندھوں پر خالق حقیقی نے جتنا بوجھ لاد دیا ہے بہ خدا ہم اسے برداشت کرنے کے قابل کبھی تھے ہی نہیں- پھر یہ مشیت ایزدی نے کیا ٹھان رکھی ہے کہ غم و اندوہ کے پہاڑ ہیں کہ ہمیں ان کے تلے دھکیلتی اور دبوچتی ہی چلی جا رہی ہے-
یہ کوئی اسی کی دہائی کا وسط تھا کہ سنگت کے وسیلے قاسم لاشاری سے میرا تعارف ہوا جو بعض مشترکہ خوبیوں اور خامیوں کی بہ دولت غیر معمولی دوستی میں تبدیل ہو گیا-
ہم خاک نشینوں کا طرز محبت بھی عجیب ہے، کسی پر مرتے ہیں تو مر مٹ جاتے ہیں- ہم خاک سے مل کر خاک ہو جانے والے آشنائی کے اس سفر میں سود و زیاں کے احساس سے بے نیاز ہو جاتے ہیں اور پھر ہماری محبت میں کوئی اور نصاب چلتا ہی نہیں- محبت بس محبت اور درمیان میں کچھ بھی نہیں- کچھ یہی اہتمام تھا قاسم لاشاری اور میرے درمیان محبت کے رشتے کا-
سرائیکی دھرتی کے قدیم علمی، ادبی، تاریخی اور تہذیبی مرکز اوچ شریف سے چند کلو میٹر دور بلہ جھلن، چک کیہل میں لاشاری قبیلے کے ایک متوسط خاندان کے غیور انسان عبدالغفور کے گھر میں جنم لینے والا قاسم لاشاری کراچی آیا تو سنگت اسے گلے لگانے اور عزت، شہرت اور دولت اس کے قدموں پر نچھاور ہونے کے لئے مضطرب تھی- سماج کے غیر فطری اور غیر انسانی رویوں اور روایات سے بغاوت کا علم بردار قاسم لاشاری کراچی آ کر جلد ہی دوستوں کی جان بن گیا- مرشد نذیر لغاری، مشتاق فریدی، شاہد جتوئی، رشید جرانی، اکبر ملک مرحوم، پروفیسر ڈاکٹر جاوید چانڈیو، مولوی فاروق احمد مرحوم، انجم لاشاری مرحوم، حمید سانگی، لالا حمید اصغر، شیخ افضل، شیخ اسلم، شیخ سانول، اکبر بگٹی، عبدالخالق اچھا، خورشید انجم، حمید علی، مجاہد جتوئی، زاہد جتوئی، ریاض بھٹی، ملک ریاض، زاہد خان، عابد خان اور حفیظ اللہ خان دریشک سے اس کا ایسا یارانہ ہو گیا کہ جیسے یہ سب کے سب اس کے جنم جنم کے ساتھی ہوں- بہت سے اہم نام میں نہیں لکھ سکا، ہر دوست، ہر محفل ہر تقریب اس کے بغیر ادھوری سمجھی جانے لگی-
وہ کسی جامعہ سے فارغ التحصیل نہیں تھا لیکن اس کی ذہنی اپج اتنی بلند تھی کہ وہ کسی جامعہ کے پروفیسر سے کم سخن ور نہیں لگتا تھا- اس کے پاس ہر الجھن، ہر مشکل کا حل تھا، وہ چٹکیوں میں بڑے بڑے مسائل کے آسان حل پیش کر دیا کرتا تھا- سرائیکی زبان و ادب اور سیاست کے لئے اس کی خدمات ناقابل فراموش ہیں- قاسم لاشاری نے اپنی اہلیہ کرن لاشاری کو بھی سرائیکی ثقافت اور سیاست میں سرگرم کیا اور وہ اس وقت تریمت تحریک کی صدر ہیں- وہ دھرتی کا روشن دماغ اور عظیم بیٹا تھا-
قاسم لاشاری ایک زندہ دل اور مہربان انسان تھا، اس کے چہرے پر ہر وقت پر خلوص مسکان سجی رہتی تھی، اس سے مل کر تو دوست اپنے غم بھی بھول جاتے تھے، میں نے 35 برسوں کی دوستی اور قربت میں اسے کبھی غمگین نہیں دیکھا، اسے ہمیشہ غمگسار ہی پایا- وہ اپنے المئے اپنے وجود میں ہی چھپا کر رکھتا تھا، اسے دوستوں کو خوش رکھنے کا ہنر آتا تھا، وہ ہمیں جب بھی ملتا تو لمحوں میں سب کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر دیتا- وہ محبوب نظر انسان تھا، اس کا ہر رنگ اور ہر روپ نرالا تھا- قاسم لاشاری بلند بخت بیٹا، مہربان بھائی، مشفق باپ اور محبت کرنے والا شوہر اور یاروں کا یار اور دل بر تھا، وہ رشتے بنانے اور رشتے نبھانے کے ہنر میں یکتا تھا- ہماری زندگی سے جڑے ان رشتوں کی خوشبو موت کے بعد بھی موجود رہتی ہے- ہمارا یار دل دار قاسم لاشاری اچانک ہم سب سے روٹھ گیا ہے، ہم نے اسے منانے کے بہت جتن کئے لیکن وہ کسی طور بھی نہیں مانا اور فرشتہ اجل کے ہم راہ ابدی سفر پر روانہ ہو گیا ہے، ہم سب کو بھی اک روز وہیں جانا ہے لیکن جب تک سانس کی ڈوری بدن کے ساتھ جڑی ہے قاسم لاشاری ہمارے دلوں کی دھڑکن بن کر، ہماری زندگی میں خوشبو بن کر مہکتا رہے گا-
یہ بھی پڑھیں:
یار ظفر لاشاری۔۔۔سعید خاور
”اسکینڈل پوائنٹ “سے ادبی میلے تک۔۔۔ سعید خاور
مردحرآصف زرداری کی واپسی ، ڈھیل یا ڈیل؟۔۔۔سعیدخاور
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر