نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دیدہ ور کی تلاش اور بے رحم احتساب ۔۔۔نصرت جاوید

ہفتے کی شام سونے سے قبل نجانے اس کی کیوں یاد آگئی۔ یوٹیوب کھولی تو اتفاقاَََ ایک نظم سننے کو ملی جس نے مجھے پریشان کردیا۔ جو نظم میں نے سنی ایک سادہ اور روزمرہّ کہانی بیان کرتی ہے۔

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شام کے پانچ ہزار برس سے دائم آباد شہر دمشق کے ایک قدیمی محلے سے گزشتہ صدی کے آغاز میں ایک شاعر اُبھرا تھا۔ نزارقبانی اس کا نام تھا۔ لبنان اور شام کے قہوے خانوں میں مختلف میزوں پر موجود نوجوانوں اور بزرگوں کی گفتگو میں اس کے کسی نہ کسی شعر کا دُنیا کے ہر موضوع پر ہوئی بحث کے دوران حوالہ ضرور دیا جاتا ہے۔ عربی زبان و ادب سے قطعاََ نآشنائی کے باوجود اس کی مقبولیت نے ہمیشہ بہت حیران کیا۔ کسی زبان میں ہوئی شاعری کو اُردو یا انگریزی میں ہوئے ترجمے کی بدولت اگرچہ سراہنے کے قابل نہیں ہوں۔

2007 میں لبنان پر اسرائیل کی مسلط کردہ جنگ کے دوران چھ ہفتے قیام کے دنوں میں فضائی بمباری سے تباہ ہوئے شہروں اور قصبات کی جانب کرائے پر لی گاڑی میں سفر کرنا ہوتا تھا۔ ان گاڑیوں کے اکثر ڈرائیور قبانی کا کلام سن رہے ہوتے۔ میں دلچسپی کا اظہار کرتا تو ٹیپ بند کرکے اس کے شعر بلند آواز میں پڑھنا شروع ہو جاتے۔ صوتی اعتبار سے عربی مسحور کن زبان ہے۔ کلام پاک کی برکت سے اکثر عربی الفاظ و تراکیب ہم پاکستانیوں کی اکثریت سمجھ لیتی ہے۔ ڈرائیور ایک ایک لفظ کا انگریزی متبادل ڈھونڈتے ہوئے قبانی کے شعروں کو مزید بااثر بنادیتے۔

نزار قبانی کے سحر سے مغلوب ہو کر میں نے پاکستان لوٹ کر اس کے بارے میں گوگل کے ذریعے مزید معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی۔ دریافت یہ ہوا کہ وہ جب پندرہ برس کا تھا تو اس کی بہن نے خودکشی کرلی تھی۔ وہ یہ انتہائی قدم اس لئے اٹھانے کو مجبور ہوئی کیونکہ خاندان کے بزرگ ایک ایسے شخص سے اس کی شادی کرنا چاہ رہے تھے جو اسے پسند نہیں تھا۔ تعلق قبانی کا ایک ادبی خاندان سے تھا۔ اس کا دادا شام میں جدید تھیٹر کے بانیوں میں شمار ہوتا تھا۔ گھر کے ادبی ماحول کے باعث قبانی کا مزاج بھی شاعرانہ ہوگیا۔ بہن کی خودکشی نے اس کی حساس طبیعت کو مہمیز لگائی۔ وہ ’’محبت کے گیت‘‘ لکھنا شروع ہوگیا۔ اس کا اصرار رہا کہ عرب معاشرہ اس وقت تک ’’انسانی‘‘ کہلایا ہی نہیں جاسکتا جب تک وہاں محبت ’’آزاد‘‘ نہیں ہوجاتی۔

قدامت پسند معاشرے میں اس کی سوچ ’’باغیانہ‘‘‘ قرار پائی۔ وہ مگر حیران کن استقامت سے اپنی سوچ پر ڈٹا رہا۔ قبانی کی ضد نے اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو بھی جلا بخشی۔ مختصر نظموں میں وہ سادہ الفاظ کو چونکا دینے والے خیالات رقم کرنے میں مصروف رہا۔ ’’محبت کے نغمے‘‘ لکھتے قبانی کے لئے حافظ اسد کے شام میں زندگی گزارنا ممکن ہی نہیں تھا۔  بیروت، پیرس اور لندن میں جلاوطنی کے عذاب میں مبتلا ہوتے ہوئے بھی دمشق کی گلیوں کو ان کی مخصوص خوشبو سمیت دُنیا کے سامنے بیان کرتا رہا۔ میں اکثر فارغ اوقات میں یوٹیوب پر اس کی نظموں سے انگریزی تراجم کی بدولت لطف اندوز کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

ہفتے کی شام سونے سے قبل نجانے اس کی کیوں یاد آگئی۔ یوٹیوب کھولی تو اتفاقاَََ ایک نظم سننے کو ملی جس نے مجھے پریشان کردیا۔ جو نظم میں نے سنی ایک سادہ اور روزمرہّ کہانی بیان کرتی ہے۔ قبانی کا کم سن بیٹا جو حال ہی میں سکول داخل ہوا ہے ’’ہوم ورک‘‘ کے طور پر ڈرائنگ بک پر بچوں کے زیر استعمال برش اور رنگوں کے ذریعے کسی پرندے کی تصویر بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس ضمن میں ناکامی سے زچ ہوکر وہ اپنے والد سے مدد مانگتا ہے۔ قبانی برش اٹھا کر خالی صفحے پر سرمئی رنگ سے تین لکیریں کھیچ دیتا ہے۔ شاعر کا بیٹا پکار اُٹھتا ہے کہ ’’بابا آپ پرندہ نہیں کوئی جیل دکھا رہے ہیں‘‘۔ قبانی بہت عجز سے اعتراف کرتا ہے کہ اس کی نسل کے عربیوں نے پرندے نہیں بلکہ جیلیں ہی دیکھی ہیں۔ وہ پرندوں اور ان کی پرواز سے آشنا ہی نہیں۔

قبانی کی مذکورہ نظم یقینا شاعری کے لئے مختص مبالغے سے بھرپور تھی۔ اس نے مگر مجھ جیسے پاکستانیوں کے ذہنوں پر مسلط کئی خیالات یاد دلا دئے۔ مثال کے طور پر یہ تصور کہ ہمارا ہر سیاست دان ’’چور اور لٹیرا‘‘ ہے۔ اقتدار مل جائے تو خلقِ خدا کی خدمت کے بجائے اپنے اختیار کو ’’حرام کی کمائی‘‘ جمع کرنے پر مرکوز کر دیتا ہے۔ مختلف ذرائع سے اس کمائی کو غیر ملک بھجوا دیتا ہے۔ وہاں قیمتی جائیدادیں خرید کر شاہی انداز میں رہنا شروع کر دیتا ہے۔ اسی باعث 1950 سے ہم مستقل کسی ایسے ’’دیدہ ور‘‘ کی تلاش میں رہے جو ان ’’چوروں اور لٹیروں ‘‘ کا ’’بے رحم احتساب‘‘ کرے۔ قوم کی لوٹی ہوئی دولت واپس لائے۔

اسی ’’فریضے‘‘ کو نبھانے کے لئے اکتوبر 1999 میں جنرل مشرف نے اقتدار پر قبضے کے بعد ’’قومی احتساب بیورو‘‘ بنایا۔  ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کی ایک فہرست مرتب کی۔ ان میں سے چند لوگوں کو گرفتار کرکے جنگی قیدیوں کی مانند اٹک قلعے کے تہہ خانوں میں پھینک دیا۔ فقط ایک برس گزرنے کے بعد مگر نواز شریف کو سعودی عرب سے آئے ایک طیارے میں بٹھاکر پورے خاندان سمیت ’’سرورپیلس‘‘ بھیج دیا گیا۔ دیگر افراد کی اکثریت کے ساتھ بھی بعدازاں ’’مک مکا‘‘ ہوگیا۔ ان میں سے چند جنرل مشرف کی سرپرستی میں 2002 سے 2008 تک چلائی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے طاقت ور وزیر بھی رہے۔

جنرل مشرف ’’کڑے احتساب‘‘ میں ناکام ہوگئے تو کرکٹ کے حوالے سے مشہور ہوئے عمران خان صاحب ایک نئے ’’مسیحا‘‘ کے طور پر نمودار ہوگئے۔ ہمارے میڈیا اور متوسط طبقے کی بے پناہ اکثریت نے ان پر اندھا اعتماد کیا۔ بالآخر اگست 2018 میں وہ وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہوئے۔ ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کو کسی صورت NRO نہ دینے کی بڑھک لگاتے رہتے ہیں۔ ان کے ڈھائی سالہ دورِ اقتدار ہی میں تاہم نواز شریف کو ’’سزا یافتہ مجرم‘‘ ہونے کے باوجود وفاقی کابینہ کی منظوری سے ’’علاج کروانے‘‘ قطر سے آئے ایک جہاز کے ذریعے لندن بھجوا دیا گیا۔ ’’بھگوڑا‘‘ اب وطن لوٹنے کو تیار نہیں ہے۔ ’’بے رحم احتساب‘‘ کی گردان مگر اب بھی جاری ہے۔

ہمارے دلوں میں کئی نسلوں اور دہائیوں سے موجود ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کے ’’بے رحم احتساب‘‘ کی خواہش کو بھڑکانے کے لئے چند روز قبل لندن ہی میں مقیم ایک ایرانی نژاد نمودار ہوگیا۔ لندن میں مقیم ایک پاکستانی صحافی کو جو بہت ’’سینئر‘‘ ہوجانے کے بعد اب اپنا یوٹیوب چینل چلا رہا ہے اس نے ایک طویل انٹرویو دیا۔ نواز شریف اور آصف زرداری کی مبینہ کرپشن کے بارے میں اس نے تھرتھلی مچاتی کہانیاں سنائیں۔ اس کی بتائی داستان کا وزیر اعظم صاحب نے ٹویٹس لکھ کر خیر مقدم کیا۔ کرپشن کے خلاف ان کی 22 برسوں تک پھیلی جدوجہد کو گویا اس داستان کے ذریعے اثبات فراہم ہوگیا۔ عوام میں بے پناہ مقبول اور ان کا ’’ذہن بناتے‘‘ہمارے کئی مشہور اینکر ایرانی نژاد ’’جیمز بانڈ‘‘ کے One-on-One انٹرویو کو مجبور ہوگئے۔ ٹی وی سکرینوں پررونق لگ گئی۔

رونق کے اس موسم میں مجھ جیسے گوشہ نشین صحافی نے اس کالم کے ذریعے فقط اتنا یاد دلانے کی کوشش کی کہ حکومتِ پاکستان سے 28 ملین ڈالر کی خطیر رقم بطور ’’تاوان‘‘ وصول کرلینے کے بعد مذکورہ ’’جیمز بانڈ‘‘ ہمارے دلوں میں موجود ’’بے رحم احتساب‘‘ کی خواہش کو بخوبی جانتے ہوئے اپنی کمپنی کے لئے اب ایک اور Assignment حاصل کرنے کے چکر میں ہے۔ وہ دعویٰ کر رہا ہے کہ اگست 2018 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد عمران حکومت کے نمائندوں نے ’’قوم کی لوٹی ہوئی دولت‘‘ کا سراغ لگانے کے لئے اس سے رابطے استوار کئے۔ بات مگر بنی نہیں کیونکہ چند ’’پیغامبروں‘‘ نے اپنے ’’کمیشن‘‘ کے حصول کے لئے مبینہ طور پر مذاکرات شروع کردئیے۔ جن ’’پیغامبروں‘‘ کی اس نے نشان دہی کی ان کا ذکر کرنے کی مجھ پیدائشی بزدل میں ہمت موجود نہیں۔ ہماری ’’ذہن سازی‘‘ پر  مامور ’’حق گو‘‘ بھی تاہم ایرانی نژاد ’’جیمز بانڈ‘‘ کو اب نظر انداز کرنا شروع ہوگئے ہیں۔ دریں اثناء پیٹرول کی فی لیٹر میں تین روپے 20 پیسے کا اضافہ ہوگیا اور بجلی کا فی یونٹ بھی مزید مہنگا ہوگیا ہے۔ ایرانی نژاد ’’جیمز بانڈ‘‘ کی چسکہ بھری کہانیاں سنتے ہوئے ہم مہنگائی کی نئی لہر کو یقینی بناتے ان فیصلوں پر توجہ ہی نہ دئے پائے۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت

یہ بھی پڑھیں:

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

 

About The Author