نومبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

شاعر اہلبیت محسن نقوی ۔۔۔ملک سراج احمد

پہلا شعر آٹھویں جماعت میں کہا ۔ شاعری کی طرف رحجان سے متعلق ایک بار محسن نقوی نے جواب دیا کہ’’ طبیعت بچپن سے ہی شاعرانہ تھی ۔

ملک سراج احمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سید محسن نقوی کو اگر وطن عزیز کے ادبی حلقوں میں ڈیرہ غازی خان کی پہچان اور شناخت کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا ۔ محسن محض ایک شاعر نہیں بلکہ ایک طاقتور وتوانا آواز ہے ایک ایسی آواز جس نے مظلومو ں کی حمایت میں ظالموں کو سرعام اور ہر سطح پر للکارا ۔ ببانگ دہل ظلم وجبر کے خلاف لکھا ۔ محسن نقوی کا شعری سفر ایک شعوری انداز میں منزل کی طرف گامزن رہا ۔ بندِ قبا سے لے کر فراتِ فکر تک کے فکری سفر میں محسن نے زندگی کو بہت قریب سے پرکھا ،دیکھا اور باریک بینی سے مشاہدہ کیا اور اپنے اس تجربے کو شاعری کے ذریعے لوگوں تک پہنچایا۔

ایک انٹرویو میں اپنی پیدائش سے متعلق سید محسن نقوی کچھ یوں بیان کرتے ہیں ’’ڈیرہ غازی خان کی پسماندہ سرزمین ،چھوٹا سا شہر ،شہر کا ایک چھوٹا سا بلاک یا محلہ جسے بلاک نمبر 45یا محلہ سادات کہتے ہیں اس محلے کی ایک چھوٹی سی گلی اور اس گلی میں ایک نیم تاریک مکان جہاں 5مئی 1947کی صبح کی پہلی کرن کے ساتھ دنیا کے بے شمار جانداروں میں ایک اور معمولی سی جان کا اضافہ ہوا ۔ چھوٹا سا گھر تھا حسب روایت خوشی منائی گئی دو چار لمحوں کی ،مبارک باد اور پھر سناٹا ۔ بچے کا نام گھروالوں نے غلام عباس رکھا جو آٹھویں جماعت پاس کرتے ہی غلام عباس محسن نقوی بن گیا ۔ محسن نقوی نے پرائمری تعلیم اپنے محلے کے ساتھ ہی ایک پرائمری سکول نمبر6 میں حاصل کی ،میٹرک ڈیرہ غازی خان گورنمنٹ ہائی سکول نمبر1سے فسٹ ڈویژن میں پاس کیا ۔ ایف اے اور بی اے گورنمنٹ کالج ڈیرہ غازی خان سے کیا اور ایم اے گورنمنٹ کالج بوس روڈ ملتان سے 1970 میں پاس کیا۔

اس عرصہ میں ایوب خان کی آمریت کے خلاف نظم لکھنے کے جرم میں مقدمات میں ملوث بھی ہوئے ۔ ڈیرہ غازی خان کے کالج کے مجلہ ’’الغازی‘‘کے دو مرتبہ مدیر بھی رہے ۔ ملتان میں ایم اے کے دوران ملتان کالج کے رسالہ نخلستان کے ایڈیٹر بھی رہے ۔ امروز ملتان میں مسعود اشعر کے زمانے میں کام بھی کیا ۔ محسن ان کا تخلص تھا جبکہ لفظ نقوی کو وہ تخلص کے ساتھ استعمال کرتے تھے ۔ تاہم ادب کی دنیا میں انہوں نے محسن نقوی کے نام سے شہر ت پائی اور یہی نام زبان زد عام ہوا۔

پہلا شعر آٹھویں جماعت میں کہا ۔ شاعری کی طرف رحجان سے متعلق ایک بار محسن نقوی نے جواب دیا کہ’’ طبیعت بچپن سے ہی شاعرانہ تھی ۔ آپ سے ایک بھید کہیں کہ چاندنی ہماری کمزوری ہے اور جب سے ہوش سنبھالا ہے ہر چاند کی چودہویں کو کبھی نہیں سوئے ۔ خداجانے کیا وجہ ہے عجیب وغریب کیفیت ہوتی ہے ۔ ’’گھررہیں تو ویرانی دل کو کھانے کو آوئے ‘‘والا معاملہ ہوتا ہے ،چاندنی ،سگریٹ کا دھواں اور آوارگی ہماری تین شدید کمزوریاں ہیں جواب تک پوری تابندگی سے جاری ہیں ۔ سفر،سگریٹ اور چاندنی ،تینوں بے وجہ زہن کو الجھا کر رکھ دیتے ہیں اور ہماری شاعری ان کے بغیر سانس لینا بھی گوارا نہیں کرتی ‘‘۔

انہی قلبی کیفیات میں 1969ء میں محسن نقوی کا پہلا مجموعہ کلا م بند ِ قبا منظر عام پر آیا اور اس وقت کے شعراء میں محسن نے اس کلام کی بدولت اپنی بھرپور موجودگی کا احساس دلایا ۔ محسن نقوی کو شاعر آلِ محمد ﷺ بھی کہا جانے لگا ۔محسن لاہور منتقل ہوئے اور لاہور کی ادبی محفلوں میں انہیں بے پناہ شہرت حاصل ہوئی اور اس دوران 1978ء میں محسن نقوی کی دوسری کتاب برگِ صحرا ، 1985ء میں ریزہ حرف ،1990ء میں عذابِ دیداور اس کے دوسال بعد 1992ء میں طلوع اشک ، 1994 میں رختِ شب ،1996ء میں خیمہ جاں اور اسکے بعد موجِ ادراک اور فرات ِ فکر محسن نقوی کے فکری اور علمی اثاثہ کے طورپر آج بھی تشنگان ِعلم کے لیے زادِ راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔

محسن نقوی نے محض اردو میں ہی اشعار نہیں کہے بلکہ محسن نقوی کا سرائیکی میں بھی بہت سا کلام موجود ہے اور محسن نقوی نے سرائیکی شاعری میں ڈیرہ غازی خان کے شفقت کاظمی سے رہنمائی لی۔محسن نے سرائیکی کی کافی اصناف میں طبع آزمائی کی ۔ محسن نقوی جب بھی ڈیرہ غازی خان آتے ان کی اردو کے شعر ا ء کے علاوہ سرائیکی شعراء کے ساتھ ملاقاتیں اور محفلیں عروج پر ہوتیں ۔سرائیکی غزل میں بھی محسن نے زندگی کی تلخیوں کو بہت ہی شاندار اور خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے ۔ اور سرائیکی وسیب کے ہرممکنہ استعارے اور کیفیت کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے اور اس میں محسن نقوی کامیاب بھی رہا ہے ۔محسن کی سرائیکی شاعری کو پڑھ کر جدید اور قدیم کا ایک حسین امتزاج محسوس ہوتا ہے۔

محسن نقوی کی شہرت یہ بھی ہے کہ محسن نے کربلا کو اپنا موضوع سخن بنایا اور شاعر اہلبیت کے نام سے بھی شہر ت پائی ۔ خانوادہ نبوت سے محسن کی محبت نے جنون کی شکل اختیار کرلی اور واقعات کربلا اور ذکر اہلبیت نے محسن کی شاعری کو عظمتوں سے ہمکنار کردیا ۔ محسن کے کلام میں بھی اہل بیت سے محبت کی خوشبو کو محسوس کیا جاسکتا ہے ۔ اہل بیت کی محبت اور غلامی کے طفیل روز محشر بخشش کے لیے پر امید محسن نقوی کا یہ انداز بھی ایسا ہے جیسے موتی لڑی میں پروئے ہوئے ہوں ۔یہی وجہ ہے کہ محسن نقوی کو شاعر اہلبیت کہا جانے لگا اورشائد یہی لقب محسن نقوی کی زندگی کاسب سے قیمتی اثاثہ تھا۔

محسن نقوی نے سیاست کے میدان میں بھی عملی طورپر قدم رکھا اور1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں ڈیرہ غازی خان کے صوبائی حلقہ پی پی 184سے الیکشن میں حصہ لیا تاہم کامیاب ناہوسکے ۔ 1994ء میں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی حاصل کیا ۔ 15جنوری 1996ء کو لاہور مون مارکیٹ میں ایک قاتلانہ حملے میں جان کی بازی ہار گئے اور ڈیرہ غازی خان میں کربلائے معلی میں آسودہ خاک ہیں۔

برائے رابطہ 03334429707

وٹس ایپ 03352644777

یہ بھی پڑھیے:

ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد

وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد

حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد

بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد

عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد

حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد

About The Author