نعیم مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیار تو آتا ہے اُن دوستوں پر جو کہتے ہیں کہ جمہوریت نے دیا کیا ہے لیکن جان کی امان پاتے ہوئے ان کی خدمت میں ایک معصوم سا سوال ہے کہ آمریت نے چھوڑا ہی کیا ہے؟
دوسرا سوال چونکہ ’’غیر معصوم‘‘ ہے چنانچہ اس پر سیاست و صحافت اور جمہوری صداقت کا جواب مطلوب و مقصود ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم لیگیسی یا وراثت اور میراث کے عمل کو اس قدر رگیدنے کا فیشن کیوں اپنائے ہوئے ہیں؟
وقت کسی کیلئے جتنا بھی بے رحم ہو یا جس قدر بھی مرہم ہو‘ ایک بات طے ہے کہ ہر لیگیسی، وراثت یا میراث کو ارتقاء کی پگڈنڈی سے گزرنا ہی پڑتا ہے۔ گویا ارتقا کا عمل جہاں دیگر سماجی و بائیالوجی کے معاملات کی گرفت کئے بغیر نہیں رہتا وہاں یہ عمل سیاست کیا، صحافت کو بھی نہیں چھوڑتا۔ بڑی سادہ سی بات ہے، معاملہ سیاسی ہو یا سماجی جو ڈرگیا وہ مرگیا۔
ویسے تو ابنِ خلدون نے کسی زمانے میں کہا تھا کہ تیسری نسل میں جاکر سیاست کی گرفت ڈھیلی پڑ جاتی ہے کیونکہ تیسری نسل سماجی چیلنجز سے اس قدر آشنا نہیں ہوتی جتنی پہلی دو نسلیں ہوتی ہیں، پھر تیسری نسل نظریات سے دور ہٹ کر تساہل پسند بھی ہوجاتی ہے۔ یہ معاملہ ہو سکتا ہے امریکہ میں بش، کینڈی اور روز ویلٹ خاندانوں اور بھارت میں گاندھی خاندان پر صادق بھی آتا ہو لیکن پاکستان میں بھٹو خاندان پر فی الحال تیسری و چوتھی نسل پر بھی صادق آتا دکھائی نہیں دیتا کیونکہ تیسری و چوتھی نسل بھی سیاسیات کے سبق کو سماجیات و نفسیات کی لائبریری میں بیٹھ کر یاد کر رہی ہے۔ یہ مانا کہ ابنِ خلدون کا زمانہ اور تھا، یہ زمانہ اور ہے۔ گویا اس ’’اور‘‘ میں بھی ارتقا کے مناظر ہیں اور موجودہ پارلیمانی منظر بھی ارتقاء کی شاہراہ ہی سے ہو کر ہم تک پہنچا۔
بچے بوڑھے سب جانتے ہیں کہ اَسی اور نوے کی دہائیاں ساٹھ اور ستر کی دہائیوں سے زیادہ مختلف نہیں تھیں۔ پھر پچاس کی دہائی کو ہم معافئ عام پر رکھتے ہیں کہ پاکستان کا ابتدائی عشرہ تھا لیکن 1999 تا 2008 تک جو ہوا‘ اس کے تناظر میں ہم نے روایتی مخالفین کو میثاقِ جمہوریت تراشتے دیکھا۔ جمہوری سبق آدھا ہی یاد ہوگا، 2008 تا 2013 کے درمیان میں 18 ویں ترمیم نے جنم لیا۔ گو 2008 کے دور کے ابتدا ہی تک نون لیگ اور پیپلزپارٹی محبتیں محدود رہیں مگر بعد میں بھی آئین سازی میں کم ووٹ رکھنے کے باوجود زرداری حکومت نے 18ویں ترمیم کرلی، وہ پیپلز پارٹی جسے سیاست کا شجر ممنوعہ قرار دیا جانا اور سیکورٹی رسک یا بایاں بازو گرداننا فیشن تھا اس پر اسحاق خان نے بھی کبھی اعتماد کیا، بعدازاں مقتدر کی قربتوں کے سدا بہار باسیوں چوہدری برادران نے بھی کیا۔ ارتقا کے سنگ سنگ چلنے کی ایک یادداشت یہ بھی کہ ذوالفقار علی بھٹو مزاحمت کی علامت تھے اور بےنظیر بھٹو مفاہمت کی علامت، اور بےنظیر بھٹو کی لیگیسی کو آصف علی زرداری نے دوام بخشا۔ اب ایک اور ارتقاء دیکھئے کہ 1970سے 1999 تک شریف خاندان سو فیصد مقتدر پسند ہی نہیں مقتدر پرست تھا تاہم 1999 سے 2015 تک آہستہ آہستہ سرکتا گیا، آخر ایسا سرکا کہ 2017 میں مزاحمت کی علامت بن گیا. یہاں اتنا مدنظر رکھئے گا بھٹو اور بی بی کا فلسفہ آخر سچ تھا؟ اب تک کی بےتُکی یا بےسمت ارتقاء یا ناقابلِ فہم جمہوری و سیاسی ارتقاء ہی سہی لیکن جمہوریت کی جدوجہد اور جمہوری و پارلیمانی علمبرداری کے سوا مجموعی حصول کیا تھا؟ میں تو بارہا لکھ چکا کہ نوجوان ہی ہمارا مستقبل ہیں، آج ایک سوال نوجوانوں سے بھی ہے:
کیا گارنٹی ہے کہ ہم اندھادھند پچھلی لیگیسی کو نیست و نابود کردیں گے تو نئی آمد سے اگلی نئی لیگیسی جنم نہیں لے گی اور نیچرل سلیکشن اور بقائے دوام قابلِ غور نہیں؟زمانے بھر کے ترقیاتی ممالک کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں جہاں بنیادی جمہوریت پنپی وہاں پر ہی آرٹی فیشل انٹیلی جنس سائنسز، پالیسی فارمیشن سائنسز، ایڈمنسٹریٹریٹو سائنسز اور پولیٹیکل سائنسز نے نمو اور نشوونما پائی۔ مانا کہ وقت کے ساتھ ساتھ جمہوریت کے رنگ روپ بدلتے رہے مگر ڈائریکٹ جمہوریت (Direct Democracy)، نمائندہ جمہوریت Representative Democracy))، دستوری جمہوریت (Constitutional Democracy) اور نگران جمہوریت (Monitory Democracy) جیسی شکلیں سامنے آنے کے باوجود بنیادی جمہوری حسن تار تار یا داغ دار نہیں ہوا۔ جمہوریت انسانی حقوق کے گرد ہی طواف میں رہی!
ہم کہا کرتے ہیں کہ نون لیگ ہو یا پیپلزپارٹی یا تحریک انصاف اور دیگر سیاسی جماعتیں یہ سب اپنی ہیں اور ہمارے پیارے سیاستدان انہی میں آتے جاتے رہتے ہیں اور آئندہ بھی چھوڑتے و رکھتے رہیں گے کیونکہ بات نظریہ اور دایاں یا بایاں بازو کی رہی نہیں، نہ سوشلزم و کیمونزم اور خالص اسلامی معاملات بھی سیاسی سے ہوگئے ہیں اور کم بھی جبکہ مفادات کے عناصر غالب آچکے۔
پارٹی کے لیجنڈ کا جمہوری کردار ہی نیا پاکستان، جمہوری پاکستان، اسلامی پاکستان، مستحکم پاکستان اور گرین پاکستان کی ضمانت ہے۔ لیجنڈز کو دیکھنا ہوگا کہ وہ کیا منتقل کررہے ہیں اور نوجوان دیکھیں کہ انہوں نے تاریخ و سیاسیات کو سمجھا ہے یا سطحی ہی ہیں؟ ترقی اور جمہور گہرائیوں کے نام ہیں۔ سطحی فیشنوں یا ہوا کے دوش پر پڑے نظریات اور فرمائشی پروگراموں کا نہیں۔ لیگیسی لیگیسی میں فرق جان کر جیو! عمدہ اور تجربہ کے نچوڑ والی لیگیسی اداروں کو اداروں، پارلیمان کو پارلیمان کی جگہ اور انسانی حقوق کو انسانی حقوق کی جگہ پر رکھتی ہے بشرطیکہ لیجنڈز بتا کر دم لیں اور دم دیں کہ ان کا کردار کہاں ہے!
یہ بھی پڑھیے:
محبت: جی بی کے بعد آزاد کشمیر؟۔۔۔ نعیم مسعود
اپنی اصلاحات کا موڑ کب آئے گا؟۔۔۔ نعیم مسعود
عالمی و قومی منظرنامہ اورصدر آزادکشمیر!۔۔۔ نعیم مسعود
زرداری رونمائی، مولانا اِن ایکشن، خان اِن ٹربل؟ ۔۔۔ نعیم مسعود
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر