ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“اماں، یہ میری پرسنل باؤنڈری ہے، پلیز اس میں دخل اندازی مت کیجیے”
حیدر میاں سے گرماگرم بحث میں الجھنے کے دوران جونہی یہ الفاظ سنے، ہم نہ صرف اپنی جگہ سے اچھلے بلکہ چودہ طبق بھی روشن ہو گئے۔
“کیا مطلب؟ میں ماں ہوں تمہاری” ہم نے ہکلاتے ہوئے کہا،
“بے شک! اور میں بحثیت ماں آپ سے بہت محبت کرتا ہوں اور آپ کی رائے کا احترام بھی! مجھے علم ہے کہ آپ بھی مجھ سے بہت محبت کرتی ہیں لیکن مجھے آپ سے توقع ہے کہ بحثیت فرد آپ بھی میری رائے اور خواہش کو اہم جان کر محترم جانیے”
“اف، یہ نئے ہزاریے کے بچے! کان کترتے ہیں ہمارے۔ ایسا کہاں ہوتا تھا بھلے زمانوں میں؟ کہ بچے ماں باپ کو اپنے سوال و جواب سے زچ کر کے ان کی جان کو آئیں “
ہم کتنی ہی دیر گویا اپنے آپ سے باتیں کرتے رہے۔ نہ جانے کون کون سی آوازیں لاشعور کی تاریک گلی میں گونج پیدا کرتے ہوئے معاشرے کا چلن یاد دلاتی رہیں۔
” کھلاؤ سونے کا نوالہ، دیکھو شیر کی نگاہ”
” دودھ نہیں بخشوں گی اگر کہنا نہیں مانا”
” ساری عمر محنت کر کے تجھے اس قابل بنایا، اب باپ کا کہنا ماننا تیرا فرض ہے”
“بچوں کی کیا مجال کہ وہ والدین کے حکم سے سرتابی کریں”
“میں شوہر ہوں تمہارا، مجازی خدا! میری تابعداری تم پہ فرض ہے”
“اپنی مرضی؟ ارے بی بی، چاند سے اتری ہو کیا؟ سسرال میں تو ہمارے مطابق ہی چلنا ہو گا”
خیالات کے جنگل میں بھٹکتے بھٹکتے ہم پھر وہیں جا پہنچے جہاں سے زندگی کے سب سبق سیکھے تھے۔
بچپن میں طلسم ہوشربا پڑھتے ہوئے جب بھی وہ مقام آتا جب عمرو عیار زنبیل سے چادر نکالتا، اوڑھ کے ان چاہے معاملات و واقعات سے اپنے آپ کو لاتعلق کرتا ہوا بہت سوں کی آنکھ سے اوجھل ہو جاتا، ہمیں عمرو پہ بہت رشک آتا۔ بعد کے آنے والے زمانوں میں بہت سے مقامات پہ بے اختیار دل چاہا، کہ کاش نہ ہوئی عمرو عیار کی چادر پہ دسترس کہ اوڑھ لیتے اور اس کی نرم گرم اوٹ میں زندگی سہل ہو جاتی۔
اب جب پلوں کے نیچے بہت پانی بہہ چکا، ہم زندگی کی شام کو اپنے ملگجے پن کے ساتھ اوڑھ چکے تو سمجھ میں آتا ہے کہ وہ آنکھ سے اوجھل ہونا تو ایک استعارہ تھا اپنی ذات کو مخلوق خدا کے الزام و دشنام سے محفوظ رکھنےکے لئے۔ ہم یہ بھی دیکھ اور سمجھ چکے کہ دنیا کے میلے میں بہاؤ کا حصہ بننے کے باوجود ہر ذی عقل و شعور کی خواہش اپنی ذات کے گرد ایک ایسا حفاظتی حصار کھینچنا ہوتا ہے جہاں وہ اپنی ذات کو سنگسار یا ریزہ ریزہ ہونے سے بچا سکے۔
صاحب، شخصی آزادی کی لکیر کھینچے بنا کسی فرد سے کوئی بھی رشتہ طویل مدت کے لئے قائم نہیں ہو سکتا۔ محبت، الفت اور احترام کے رنگ زندگی کو تبھی قوس قزح بنا سکتے ہیں جب ہر فرد کو نہ صرف اپنی حدود کا علم ہو بلکہ دوسروں کی حدود کی پاسداری بھی کرنا آتی ہو۔
من و تو کا فرق مٹا کے اپنی ذات کو فنا کر دینے کی کتابی باتیں سننے کی حد تک تو بہت دل نشین محسوس ہوتی ہیں۔ لیکن ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب ذات کے اندر سوال و جواب کا الاؤ جل اٹھتا ہے جو لحظہ بہ لحظہ ایک جیتے جاگتے انسان کو راکھ میں بدلتا رہتا ہے۔
جان لیجیے کہ اگر کسی کو مروت کا اظہار کرتے ہوئے “نہیں” کہنا سکھایا نہیں گیا، اگر کسی فرد کی زندگی اپنی ضروریات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دوسروں کو خوش اور مطمئن کرنے میں بسر ہوئی ہے، اگر کسی کو ہمہ وقت تنقید وطنز کی بوچھاڑ کا سامنا ہے، اگر کوئی دم گھٹ جانے والی پابندیوں کا شکار ہو کے زندہ رہنے کی امنگ سے دستبردار ہو چکا ہے تو ایسے ہر فرد کو دوسروں کی پہنائی ہوئی زنجیروں کو توڑ کے اپنے گرد اپنی ذات کے لئے حفاظتی حصار کھڑا کرنا ہے۔
چلیے جانے لیتے ہیں کچھ ایسے حصاروں کے بارے میں جو آپ کو زندگی میں سر بلند کر کے جینا سکھائیں۔
جسمانی حصار
ایک ایسی آہنی باڑ جس کا مقصد ذات، جسم کی حفاظت اور ذاتیات میں دخل اندازی کی اجازت نہ دینا ہے۔ ہاتھ ملانا، گلے لگنا، اپنے کمرے میں آنے کی اجازت، کمرہ مقفل کرنا، ہمسائے کا اونچی آواز میں بجتا میوزک، کسی سے ملنے سے انکار کرنا اس کی عام مثالیں ہیں۔
ذہنی حصار
کرہ ارض پر موجود ہر نفس جوکسی بھی رشتے میں دوسرے سے بندھا ہو، یہ حق رکھتا ہے کہ وہ اپنی انفرادیت قائم رکھتے ہوئے ذاتی پسند ناپسند پہ دوسرے فریق کو نہ تو حاوی ہونے دے اور نہ ہی خود کو مسلط کرے۔
اپنے خیالات، رائے، پسندیدہ اقدار، ایمان،اعتقاد اور یقین پر اعتماد اور دفاع اور دوسرے کا احترام اسی صورت میں کیا جا سکتا ہے جب فرد کا اپنا ذہنی حصار مضبوط ہو۔ دوسروں کی رائے کچلنے کا شوق پالنے والے آمریت پسند فرد کے ہم سفر اذیت کا شکار ہو کے ذہنی مریض بن کے زندگی کا سفر تمام کیا کرتے ہیں۔
جذباتی حصار
بال برابر یا تیز دھار سے مماثلت رکھنے والی لکیر جو فرد کے اپنے جذبات کا بچاؤ اور دوسروں کے احساسات کا لحاظ رکھے، ایک ایسا غیر مرئی ہتھیار ہے جو فرد کی طرف اچھالے جانے والے ہر جملے، چاہے مزاحیہ ہو یا استہزائیہ، تنقیدی ہو یا طنزیہ، الزام و دشنام طرازی ہو یا دوستانہ پند و نصاح کو کہنے والی کی زبان پہ ہی روک دے۔ اور ایسا ہی کنٹرول اپنی زبان کے لئے لاگو رکھے، یہ سمجھتے ہوئے کہ خیال خاطر احباب چاہیے ہر دم/ انیس ٹھیس نہ لگ جائے ان آبگینوں کو۔
اشیا کا حصار
روپے پیسے ادھار دینا ہیں یا نہیں، دوست و احباب کو گاڑی کے استعمال کی اجازت، ذاتی ملبوسات، میک اپ اور کتابوں کا مشترکہ استعمال مالک کی صوابدید پر ہونا چاہئے اور کسی بھی انکار یا ہچکچاہٹ کے بغیر انا کا مسئلہ نہ بناتے ہوئے اس اصول کا اطلاق ہر فرد کا حق ہے۔
جنسی حصار
بچوں کو اوائل عمری میں جنسی تعلق کی معلومات دینا ازحد ضروری ہیں تاکہ وہ اپنی ذات کی حفاظت کے لئے نہ صرف یہ کہ کسی بھی نقب لگانے والے کا مقابلہ بلکہ “نہیں” کہنے کی جرات پیدا کر سکیں۔ جنسی حصار کھینچے جانے کی تربیت حاصل کرنا ہی وہ ہتھیار ہے جو ہر فرد کا بنیادی حق ہے۔
ایشیائی معاشروں میں ازدواجی رشتے میں بندھے فریقین کے لئے اجازت کا تصور دیوانے کی بڑ ہی سمجھا جاتا ہے اور اس میں مذہب کا سہارا لے کر عورت کو ہی تلقین کی جاتی ہے کہ بلاوے پہ آمنا وصدقنا کہنا ہے ورنہ لعنت وملامت ہی مقدر ہو گی۔ لیکن بہت سے اور حصاروں کی طرح اس رشتے کو زنگ آلود ہونے سے بچنے کے لئے اہم ہے کہ فریقین کی مرضی کہاں، کیسے اور کب کے لئے شامل ہو۔
صاحبان دانش، پرسنل باؤنڈری یا ذاتی حصار کھینچنے میں سماجی رویے اور معاشرتی اقدار کیا اور کیسے رخنہ ڈالتی ہیں۔ اس کے لئے دیکھ لیجیے گا ہمارا اگلا مضمون!
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر