ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر وہی خبر، چند لاشیں، گریہ زاری، نوحہ، برفباری اور انصاف کے منتظر لواحقین!
سب کچھ پھر وہی!
کتنے دھماکے؟ کتنی دفعہ؟ کتنے لاشے؟ کتنے چھلنی جسم؟ کتنی نفرتیں؟ کتنی جنت کی کمائی؟ جنت کا بھاؤ تاؤ بے شمار جسموں میں سیسے کے مول؟
کوئٹہ، ہزارے اور نسل کشی۔
دیکھو، تم لوگ تاریخ تو پڑھتے ہی ہو گے!،معلوم ہے نا یہودیوں کی نسل کشی کیسے ہوئی؟ ارے نادانو، مت سمجھو کہ وہ زمانہ اور تھا۔ مرنے اور مارنے کے لئے کوئی زمانہ نہیں ہوتا۔ تاریخ سے سبق پکڑو اور جان بچانے کے لیے بھاگ جاؤ، کس سوچ میں ہو؟ چلے بھی جاؤ بھئی، ہجرت کر ڈالو۔
آخر تم روز اول سے یہاں کے باسی تو نہیں تھے، یہاں بھی تم زمانے کے کسی زبردست کے قہر سے ہی بچ کے پہنچے تھے نا اور پھر اس زمین کو اپنا مان لیا تھا۔
مگر اب تم جان لو اور سمجھ بھی لو کہ نہ یہ زمین تمہاری ہے اور نہ لوگ! دیکھا تو تھا تم نے، جب اسی لاشے شدید سردی میں سڑک پہ رکھے تھے اور تین دن تک نہ دفنایا تھا۔ کیا ملا تمہیں؟
انصاف؟ ہمدردی؟ تسلیاں؟
نہیں! کچھ بھی تو نہیں! انصاف بانٹنے والے واقف تھے کہ خون کی یہ ہولی رکنے والی نہیں!
ایک بات کہوں! مذہب کے نام پہ کاٹنا اور کٹنا، کچھ بھی تو نیا نہیں تاریخ میں۔ اختلاف رائے کی سزا صرف موت ہوا کرتی ہے۔ یا تو ہمارے رستے چلو یا مرنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔ کربلا اسی کو تو کہتے ہیں اور کربلا دہراتے دہراتے تمہیں یہ سبق تو یاد ہونا چاہئے۔
اور سنو، کیوں نہیں بدل لیتے اپنا عقیدہ۔ کیا فرق پڑتا ہے اگر منہ زبانی ہی دوسروں کے ساتھ مل جاؤ۔ جان تو بچے گی، خوف و ہراس جو زندگی کا حصہ ہے اس سے تو نکلو گے۔ اور جو مالک ہے جس نے یہاں اُتارا ہے، جو دلوں کے بھید خوب جانتا ہے اسے کیا فرق پڑتا ہے کہ تم نماز کیسے پڑھتے ہو؟ کس مسجد میں پڑھتے ہو؟ کس کے ساتھ پڑھتے ہو اور ان حالات میں تو پڑھتے بھی ہو کہ نہیں۔
اسلامی تاریخ اٹھا کے اموی اور عباسی دور دیکھ لو۔ اپنے سے مختلف نقطہ نظر کا یہی حشر ہوا کرتا تھا، تبھی لوگوں نے تقیہ کرنا سیکھا۔ اب تم بھی کچھ سبق سیکھو۔ جان بچاؤ جان۔ پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے۔
اور اگر یہ قبول نہیں تو ایک اجتماعی خود کشی ہی کا پروگرام بنا ڈالو۔ دیکھو بار بار تمہیں بھی تکلیف اور ہمیں بھی۔ سو جو کل ہونا ہے اور جس میں تمہیں باری باری مرنا ہے تو ہمت مجتمع کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا ایک ہی دفعہ خاتمہ کر ڈالو۔ یقین جانو ایک دنیا سکون کا سانس لے گی کہ ملک سے کافروں کا نام ونشان مٹا ڈالا۔
ویسے کافروں سے احتجاج کرنے میں تو ہمارا ثانی کوئی نہیں لیکن اپنے ملک میں ہم جو بھی کریں وہ تو ہمارا داخلی معاملہ ٹھہرا۔ یاد ہے جب ایک نیوزی لینڈر نے اپنے ملک میں رہنے والی اقلیت کے قتل وغارت کا بازار گرم کیا۔ ہمیں تو موقع چاہیے تھا سو ان کافروں کے ہم نے خوب لتے لئے۔ بےچاروں نے خوب معافی تلافی کی۔
مگر تم کسی خوش فہمی میں نہ رہنا! وطن عزیز میں خون کے کئی ایسے سمندر بہائے گئے جہاں نیوزی لینڈ سے کہیں زیادہ لاشے گرے مکر اپنے یہاں ایمان کو گزند ذرا مشکل سے ہی پہنچتی ہے۔ ایمان بچانے کے لئے عموماً ہم منہ دوسری طرف پھیر لیا کرتے ہیں۔
اب یہ تو ہمارا داخلی قصہ ٹھہرا نا کہ مرنے والے بھی مسلمان اور مارنے والے بھی مسلمان، یہ تو ہمیں گوارا ہے۔ پر ایک کافر ہمیں بھون ڈالے، ان احمقوں کی یہ مجال۔
اب چونکہ یہاں خون بہانے والے بھی اپنے ہی ہیں تو اتنا شور مچانے کا کیا فائدہ۔ نہ بھئی، نہ کوئی فارورڈڈ پیغام، نہ کوئی ہیش ٹیگ، نہ کوئی جلوس، نہ کوئی دھرنا، نہ کوئی سیاہ پٹیاں باندھے غم زدہ شہری۔
ملک میں پشیمانی اور غم کی لہر نہیں، کسی کے دل میں تمہارے پاس پہنچنے کی ہڑک نہیں، کسی کے پاس پیچھے رہ جانے والوں کے لئے دو بول نہیں۔ اب ہمارے دل اتنے بھی نازک نہیں کہ ہم کاروبار دنیا ہی لپیٹ دیں۔
بتایا تو ہے کہ صدیوں سے تمہارے ساتھ بسنے والے تھک چکے ہیں تمہاری رام کہانی سے۔ اب نہ اتنا وقت ہے اور نہ اتنی ہمدردی کہ تمہارے ساتھ جا کھڑے ہوں۔ دوسرے صوبوں کے لئے تم ایک خبر ہو، بس ایک معمول کی خبر۔ دھماکہ ہوا، گولی چلی، اور کچھ مر گئے۔
ہم ہر خبر کے بعد اسی تسلی سے اپنے روز و شب بسر کرتے ہیں کہ کوئی بات نہیں سب نے مرنا ہے اور شاید اسی طرح سے بڑھتی ہوئی آبادی میں کمی واقع ہو جائے۔
سو اب فیصلہ تمہارے ہاتھ! نصیحت پکڑو اور ہجرت کر ڈالو!
ہمارے بھروسے پہ مت رہنا!
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر