آصف علی بھٹی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکہ کے نئے سیاسی منظر نامے کو پاکستانی سیاسی میدان کی روایتی رسہ کشی سے تشبیہ دی جا رہی ہے جہاں طاقتور اپنی مرضی سے سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کو پروان چڑھاتے ہیں اور مقاصد کی تکمیل کے بعد انہیں راندہ درگاہ کر دیتے ہیں جبکہ صدر ٹرمپ انتخابات کوفراڈ قراردےکر نہ صرف نومنتخب صدربائیڈن کو اقتدار منتقلی سےانکاری ہیں بلکہ امریکی فوج کو بھی تنازعہ میں گھیسٹنا چاہتے ہیں،20جنوری سے پہلے کیاہونےوالا ہے؟پڑھئیے آصف علی بھٹی کا کالم؛
دنیا کی بڑی جمہوری طاقت امریکہ کی تاریخ میں پہلی بار مارشلاء کی بازگشت۔؟
دنیا کی بڑی جمہوریتوں کی بات کی جائےتو جمہوریت کے چیمپئین ہونے کے اعزاز کےساتھ امریکہ کوانسانی حقوق کے تحفظ، صنفی برابری اور آزادی اظہار راۓ کا علمبردار ملک گردانا جاتا ہے۔بچوں کو ابتدائی تعلیم سےجمہوری رویوں کی تربیت دینا بھی 50 متحدریاستوں کے دیس کا طرہ امتیاز ہے۔ دوسروں ملکوں کےلئے جمہوری نظام کی مثال طاقتور امریکا ،سیاسی تاریخ میں پہلی بار سنگین غیرجمہوری رویوں اور سوسائٹی کے عدم توازن کے نظریات کا شکار نظر آرہاہے۔جہاں 3 نومبر 2020کےصدارتی انتخابات بڑےتنازعے کی زد میں ہیں وہیں سیاسی حالات کی سنگینی اور عدم استحکام اس حد تک بڑھ چکا ہےکہ جمہوری ملک میں اچانک مارشل لاء کی آمد کے خدشات کی ہوا چل پڑی ہے۔ یہی نہیں ماورائے آئین اقدام کی پریشان کن خبریں عالمی اشاعتی اداروں کی شہ سرخیاں اور اداریوں کی زینت بن رہی ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں ان ممکنہ حالات وخدشات پر گہری نظر اور تشویش پائی جارہی ہے مگر اپنے دیس پاکستان میں جہاں ہر کچھ سال بعد جمہوری نظام کو ناکام قرار دےکر فوجی یا سول مارشل لاء کے نفاذ کو جائز حق سمجھ پر عوام پر مسلط کردیا جاتا ہے ، بدقسمتی سے آئین اور پارلےمنٹ کی بالادستی کی سعی کی بجائے ہر چند سال بعد پھر ہم اسی حادثے کاُشکار ہوجاتے ہیں ،شایدہمارے ذہنوں اور جمہوری سوچ کے دائروں کو خوفزدہ کرکے محدود کردیاگیاہے۔۔!
امریکی جمہوری تاریخ کا جائزہ لیں تو سن ۶1787 میں تیار ہونے والے پہلےآئین کی مختلف ریاستوں سے منظوری کےبعد کانگریس نےپہلی بار 7 جنوری کو صدارتی انتخاب لازمی قرار دیا، 4 فروری 1789 کو جارج واشنگٹن کےپہلے امریکی صدر منتخب ہوئے، اور 30 اپریل 1789 کو عہدہ سنبھالا، پھرہر چار سال بعد انتخابی عمل آئین کا حصہ قرار پایا،امریکی تاریخ کے مطابق حیران کن طور پر تب سے 2020 کے صدارتی انتخاب تک کسی صاحب صدر نے صدارتی انتخاب کے نتائج روکنے،مکمل متنازعہ بنانے یا نومنتخب صدر کو عہدہ سنبھالنے سےمحروم رکھنےکی کوشش نہیں کی ہے۔
امریکی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ مسند اقتدار پر بیٹھے صدر نے اپنے ملک کے جمہوری نظام اور انتخابی عمل پر نہ صرف عدم اعتماد بلکہ نتائج کو تسلیم کرنے سے ہی انکار کردیا ساتھ ہی شکست مان کرسی چھوڑنے کی بجائے سڑکوں پر مقابلہ کرنے کا اعلان کردیاہے۔
امریکی سیاسی تاریخ میں یہ بھی پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ عہدہ صدارت پر ہوتے ہوئے امریکی صدر اپنے ہی ملک کے دفاعی اداروں کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں،کووڈُ19 کےتدارک کی ویکسین تیارکرکےچھپانےکا الزام بھی عائد کررہےہیں ، امریکی صدر کی جانب سے اپنی مسلح افواج کے740 ارب ڈالر کا دفاعی بجٹ ویٹو کرنے کا واقعہ بھی پہلی مرتبہ ہوا ہے،موجودہ صدر نےانتخابات میں خاص طبقے کی خوشنودی کےلئے جنوبی امریکہ کے ملٹری بیس کے ناموں کو بھی تبدیل کیاہے، ٹرمپ 538 الیکڑول میں سے232 ووٹ لےکر ہارتو گئے مگر 306 الکٹرول ووٹ کی واضح اکثریت سے کامیاب ہونے والے نومنتخب صدر جوبائیڈن کی 20 جنوری کو ہونےوالی حلف برداری کی تقریب روکنے پر تل گئے ہیں۔۔ اطلاعات ہیں کہ امریکی صدر ٹرمپ ارادہ رکھتے ہیں کہ وہ امریکی فوج کو بطور کمانڈر انچیف حکم دیں گے کہ وہ نئے صدر کی حلف برداری کی تقریب روکنے کےلئے میدان میں اتریں۔اس اہم اور حساس معاملے پر پینٹاگون میں اعلی سطح مشاورت تو جاری ہے مگربعض سابق فوجی افسران کی رائے میں فوج کسی صورت نومنتخب صدر بائیڈن کی تقریب حلف برداری کو نہیں روکے گی کیونکہ ملک میں جمہوری و آئینی نظام کی بقا کےلئے یہی ضروری ہے تاہم اگر برعکس اقدام ہوا تو یہ مارشلاء کے مترادف ہوگا جس سے ملکی سیاست میں فوج کے براہ راست سیاسی کردار کی داغ بیل پڑ جائےگی جو سیاسی وآئینی نظام کی بقا کےلئےانتہائی خطرناک ہوسکتا ہے ادھر دائیں بازو کے ہم خیال بعض اہم طاقتورحلقے سمجھتے ہیں کہ صدر ٹرمپ اپنے اقتدار کےخاتمے کا صدمہ کسی صورت برداشت نہیں کرسکتے لہذا فوج کو مداخلت کا حکم اور اختیار دینا ان کا آئینی حق ہے یہی نہیں فوج کاانتظامات سنبھال کر تقریب حلف برداری روکنے کے احکامات کو تسلیم کرنا ضروری ہوگا ورنہ فوج نہ صرف آئین کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوگی بلکہ آئندہ کےلئے صدارتی احکامات نہ ماننے کی غیرآئینی روایت بھی پڑ جائےگی ۔
امریکی دفاعی ماہرین کےمطابق طاقتور ایوانوں میں بحث جاری ہے کہ اگر صدر ٹرمپ ایسا کوئی حکم دیتے ہیں تو کیا فوج موجودہ صدر کے احکامات کو تسلیم کرے یا عوامی ووٹوں سے نو منتخب صدر کی تقریب حلف برداری کو یقینی بنانے کے لیے اپنا جانبدارانہ کردار ادا کرے ۔۔؟
معاملہ آئندہ چند ہفتوں میں مزید گھمبیر ہوتا دکھائی دے رہا ہے مگر امریکہ کے جمہوریت پسند طبقے یقین رکھتے ہیں کہ غیر سیاسی شخصیت ہونے کے ناطے صدر ٹرمپ امریکی سیاسی تاریخ کا بطور صدر ایک ایسا حادثہ تھے جو اب گذر چکا ہے اور جلد فراموش ہونے والا ہے، امریکی اپنی جمہوری تاریخ سے نہ صرف اچھی طرح واقف ہیں بلکہ وہ اس کی پاسداری بھی کریں گے۔ تجزیہ کاروں کی نظر میں صدر ٹرمپ کاچار سالہ دور امریکیوں اور امریکی پاسپورٹ کی دنیا بھر میں بےتوقیری کاسبب بنا،امریکی ترقی میں کردار ادا کرنیوالے امیگرنٹس کوحزیمت و پابندی کا سامنا کرنا پڑا اور پہلی مرتبہ امریکی اپنا ہی ملک چھوڑنے پر مجبور ہونے لگے۔بعض طبقات سمجھتے ہیں کہ صدر ٹرمپ نے امریکیوں کو متحد کرنے کی بجائے نفرت کا شکارکرکےتقسیم کیا جس کا واضح ثبوت کسی ایک طبقے کو اپنی سخت گیر پالیسیوں سے ہم نوا بناکر ریکارڈ 7 کروڑ 40 لاکھ ووٹ حاصل کرناہے جبکہ نسلی تفاوت اور رنگ و نسل کی بنیاد پر ترجیحات نےسیاسی افق پر خلیج میں بھی اضافہ کیاہے، بعض نقاد سمجھتے ہیں کہ دائیں بازو کی رپبلکن جماعت اس حکمت عملی کو کارگر اور 2024کےصدارتی انتخاب کےلئے ڈوائیڈ اینڈ رول کےفارمولےکو کھل کر استعمال کرنےکا ارادہ رکھتی ہے جسکے باعث ڈیموکریٹس کے نومنتخب صدر کو آئندہ چار سال کے دوران اپنے اقدامات میں بہت دباؤ کا سامنا کرنا پڑےگا۔
یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پاکستان سمیت جنوبی ایشیاء بارےصدر ٹرمپ نے جس نئی خارجہ پالیسی کا آغاز کیا تھا نومنتخب صدر بائیڈن کوئی بڑی تبدیلی کئے بغیر انہی کو آگے بڑھانے کے لیے “سافٹ “طریقہ کار اختیار کریں گے۔تاہم وہ مسلمان اور دیگر اقلیتوں سمیت غیرملکی تارکین وطن اور امیگریشن قوانین کے حوالے ٹرمپ انتظامیہ کے اقدامات کو مکمل ختم نہیں تو نرم ضرور کردیں گے ۔گو امریکہ کی اس نئے سیاسی منظر نامے کو پاکستانی سیاسی میدان کی روایتی رسہ کشی سے تشبیہ دی جا رہی ہے جہاں طاقتور اپنی مرضی سے سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کو پروان چڑھاتے ہیں اور مقاصد کی تکمیل کےبعد انہیں راندےدرگاہ کردیتے ہیں،جہاں الیکشن آزادانہ ہوئے نہ ہارنےوالوں نے کبھی انتخابی نتائج تسلیم کئے بلکہ اپنی باری کےلئے عوام کی بجائے طاقتوروں کے منظورنظر اور تعابیدار بننے کو ترجیح بنایا اور یہ ریت اب بھی جاری ہے کیونکہ سب سیاسی کھلاڑی جانتے ہیں کہ گیٹ نمبر 5 میں داخلہ ،گیٹ نمبر چار پر حاضری دیئے بغیر ممکن نہیں ہے۔وطن عزیز کی تنازعات سے بھری سیاست اور اداروں کی کمزوریوں کے برعکس یہ بھی کہاجارہاہےکہ امریکی سیاست میں اقتدار کی کشمکش مارشلائی اقدام میں بدلنا اتنا آسان نہیں کیونکہ امریکا میں پارلےمنٹ آئین اور ادارے مضبوط ہیں۔ بلاشبہ امریکی عوام کاجمہوری وآئینی نظام سمیت اپنی فوج پر اعتماد اپنی جگہ مگر آنیوالے دو تین ہفتے امریکی سیاست کےلئے انتہائی چیلنجنگ اور خطرناک بھی ثابت ہوسکتےہیں۔۔! نئےسال کی مبارک کےساتھ دعا ہےکہ 2021میرے ہم وطنوں سمیت پوری دنیا کے انسانوں کےلئے امن وسلامتی ، جمہوری آزادیوں اور کرونا سےنجات کا سال ثابت ہو، آمین۔!
یہ بھی پڑھیے:
بے رحم سیاست اور کورونا کے وار(مکمل کالم)۔۔۔ آصف علی بھٹی
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ