رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارشاد بھٹی سے بائیس برس سے دوستی ہے۔ جب بھی سوشل میڈیا پر میرے خلاف نئی مہم چلتی ہے تو وہ بڑا انجوائے کرتا ہے۔ مجھے کہتا ہے: تم کس چکر میں ہو اب صلح کر لو‘ اس قوم کو وہی چورن بیچو جس کی یہ عادی ہے۔
مجھے یاد دلائے گا کہ بیس بائیس برس قبل تم ڈاکٹر ظفر الطاف کے دفتر میں ملے تھے تو اس وقت تم خبر کی تلاش میں تھے‘ آج بھی ہو۔ وہ مجھ سے پوچھتا ہے: ان بائیس برسوں میں تم نے کیا کر لیا؟ کیا تبدیلی آئی ہے‘ پچھلی اور نئی نسل میں ان برسوں میں؟ تم جن کے لیے سر کھپاتے ہو، اپنی زندگی دائو پر لگاتے ہو، روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہو، بچوں کو مسائل میں ڈالتے ہو وہی تمہارے خلاف دن رات بکواسیات کرتے ہیں۔ اس کا کہنا ہے: اگر یہ قوم آج لیٹروں کے ہاتھوں لٹنے پہ خوش ہے تو تم انہیں ان کی خوشی سے محروم کیوں کرتے ہو؟
اس قوم کو اس سے کوئی فرق پڑا کہ ملک کے صدرنے سعودی بادشاہ سے کروڑوں ڈالر بخشش لے کر لندن میں جائیداد خرید لی اور بڑے فخر سے سب کو بتایا۔ نواز شریف نے لندن فلیٹ خرید لیے اس کے باوجود کروڑ‘ سوا کروڑ ووٹ لے گئے۔ خان صاحب نے چن چن کر انہی کرپٹ لوگوں کو کابینہ میں بٹھایا جن کے خلاف انہوں نے تحریک شروع کی تھی۔ ان کی مقبولیت پر کوئی فرق پڑا؟
الٹا قوم ان پر صدقے اور قربان۔ وہ میرے وی لاگ کو دیکھ کر کہتا ہے: تم بھی دیگر وی لاگرز کی طرح لائن لے لو کہ آج خان نے اتنا بڑا بم چلا دیا، آج توپ چلا دی، آج دن میں تارے دکھا دیے، اب خان کسی کو نہیں چھوڑے گا، بڑا فیصلہ کر لیا، پھر دیکھو کیسے دھڑا دھڑ تمہارے وی لاگ بکتے ہیں۔
تم ٹھہرے وہی پینڈو اور اولڈ سکول جو ایسے کام نہیں کرتے۔ وہ مجھے دو تین لوگوں کی مثال دیتا ہے کہ وہ اس معاشرے کو درست سمجھے ہیں۔ وہ وہی چورن بیچتے ہیں جس کی مارکیٹ میں طلب ہے۔ ان کا کام بھی چل رہا ہے‘ ان سے حکومتیں، حکمران‘ سیاستدان اور ان کے فالورز بھی خوش ہیں اور ان کی جیبیں بھی بھر رہی ہیں۔ ہوا بدل جائے تو وہ بھی بدل جاتے ہیں راتوں رات۔
بھٹی نے یہ سب صلواتیں مجھے اس لئے سنائی ہیں کہ پھر سوشل میڈیا پر حکمران جماعت کے حامیوں نے آسمان سر پر اٹھایا ہوا ہے۔ میرے دو ویڈیو کلپس اٹھا کر پھیلا دیے گئے ہیں۔ ایک کلپ میں، میں کہہ رہا ہوں کہ عمران خان صاحب نے مجھے اور عامر متین کو دس دفعہ کہا کہ میرا انٹرویو کرو اور ہم نے نہیں کیا۔ دوسرے کلپ میں، میں کہہ رہا ہوں کہ خان صاحب ہمیں انٹرویو دے دیں تو مانیں۔
مطلب لوگوں کو بتایا جا رہا ہے دیکھو کتنا جھوٹا ہے کہ ایک طرف کہتا ہے‘ خان نے منتیں کیں کہ انٹرویو لے لو لیکن ہم نے نہیں لیا‘ لیکن ساتھ ہی انٹرویو مانگ رہا ہے۔ دونوں باتیں ٹھیک ہیں۔ فرق یہ ہے کہ دونوں کلپس میں چار سال کا دورانیہ ہے‘ لیکن چورن بیچنے والے کب ان باتوں کا خیال کرتے ہیں‘ لہٰذا پھیلائے جا رہے ہیں اور قوم سے زیادہ ارشاد بھٹی میری درگت بنتے دیکھ کر خوش ہے۔
کہتا ہے: اب اس قوم کے نونہالوں کو ذرا سمجھا کر دکھائو کہ دونوں کلپس کا بیک گرائونڈ مختلف ہے اور ان میں چار سال کا فرق ہے۔ میں نے کہا: بھٹی یہ قوم اتنی ہوشیار ہوتی تو اس حالت تک پہنچتی؟ یہاں فراڈیے اور بہروپیے کامیاب ہیں۔
خیر اب پوری کہانی سنیں۔ دو ہزار سولہ سترہ کی بات ہے۔ پانامہ کا مقدمہ سپریم کورٹ میں چل رہا تھا۔ عامر متین روز عدالت میں کیس کی سماعت سننے جاتے تھے۔ رات کو ہمارے پروگرام میں ساری روداد بیان کرتے تھے۔ عمران خان صاحب روزانہ عامر متین کو سپریم کورٹ میں ملتے اور ہمارے پروگرام کی تعریفوں کے پل باندھ دیتے تھے۔ انہوں نے کئی بار عامر متین‘ ارشد شریف اور میرا نام ٹی وی انٹرویوز اور جلسوں میں بھی لیا۔
اب انہوں نے عامر متین کو کہنا شروع کیا کہ میرا اپنے شو کیلئے انٹرویو کریں۔ مجھے بنی گالہ سے انکے سیکرٹری نے کئی دفعہ کال کرکے کہا کہ خان صاحب آپ لوگوں کو انٹرویو دینا چاہتے ہیں۔ ان دنوں خان صاحب روز تین چار انٹرویو دے رہے تھے۔
وہ ہر جگہ وہی باتیں دہرا تے۔ ہم نے کہا: ہمارے شو کا فارمیٹ مختلف ہے‘ لہٰذا ہم انٹرویوز نہیں کرتے۔ اصرار جاری رہا کہ آپ کا شو زیادہ دیکھا جاتا ہے‘ لہٰذا وہ اپنی بات عوام تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ ہم نے پھر معذرت کی۔ جب اصرار بڑھا تو ہم نے کہا: چلیں آپ ویڈیو لنک پر لائیو ہمارے شو میں آجائیں۔ وہ بولے: نہیں‘ آپ تینوں بنی گالہ آئیں۔ ہم نے کہا: تین لوگ کیسے آپ کا انٹرویو کریں گے؟ یوں وہ لنک پر آنے کو تیار نہ ہوئے اور ہم بنی گالہ نہ گئے۔ یہ تھی انکار کی وجہ۔
اب آتے ہیں دو ہزار بیس کے ویڈیو کلپ کی طرف۔ میں نے پچھلے ہفتے اپنے شو میں کہا: خان صاحب اب ہمیں انٹرویو دیں۔ ہمیں علم ہے‘ وہ انٹرویو نہیں دیں گے کیونکہ جب بھی وزیر اعظم کی صحافیوں سے ملاقات ہوتی اور ہم دونوں کوئی سوال کرتے تو وہ ناراض ہوتے تھے ۔ان کی کارکردگی پر بہت سے سوالات ہیں جو ہم اپنے شوز میں اٹھاتے ہیں، سکینڈلز اور سٹوریز کرتے ہیں۔ اس بات کا خان صاحب اور ان کی ٹیم کو علم ہے کہ وہ کون سے سوالات ہیں جو انہیں مشکل میں ڈال سکتے ہیں۔
شاید آپ کو علم ہو کہ اب اگر وہ انٹرویو کے لیے راضی ہوتے ہیں تو پہلے پوری تسلی کی جاتی ہے کن ایشوز پر بات ہونی ہے اور ان کی میڈیا ٹیم انٹرویو کرنے والے کو کچھ ریڈ لائن سمجھا دیتی ہے۔ مجھے اور عامر کو کبھی اس طرح کے انٹرویوز کا شوق نہیں رہا۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ جو کرتے ہیں‘ وہ اچھا نہیں کرتے‘ سب اچھا کرتے ہیں‘ اپنے اپنے حساب سے۔
ویسے خان صاحب جب وزیر اعظم بنے تھے اور ان کی صحافیوں سے پہلی ملاقات ہوئی تھی تو میرے خاور مانیکا کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر ناراض ہو گئے تھے۔ کچھ عرصہ بعد پھر ایک سوال پوچھا تو پھر ناراض ہو گئے۔ ایک دن سب صحافیوں کے سامنے خان صاحب نے کہا: رئوف کلاسرا‘ عامر میتن اور محمد مالک میری حکومت کا پوسٹ مارٹم کرنا بند کر دیں تو ملکی اکانومی ٹھیک ہوجائے گی۔ اس پر کاشف عباسی نے سب کے سامنے کہا: خان صاحب رئوف کلاسرا اور عامر متین کا شو تو بند ہو چکا محمد مالک کا بھی بند کرا دیں تاکہ ملک ٹھیک ہو جائے۔ اس پر قہقہہ پڑا تھا۔
کسی بھی وزیر اعظم کے لیے ایسے رپورٹر کو انٹرویو دینا مشکل ہوتا ہے جو اس کی حکومت اور وزیروں کے سکینڈلز فائل کرتا ہو۔ یہ سیاسی سوالات و جوابات بڑے آسان ہوتے ہیں لیکن جب پوائنٹ بلیک آپ کے ایک ایک قریبی دوست اور تگڑی پارٹیوں کا کچا چٹھا پوری قوم سامنے کھولا جا رہا ہو تو بڑے بڑے رہ جاتے ہیں۔
اس لیے اب جب ہم کہتے ہیں کہ خان صاحب ہمیں انٹرویو دیں کہ اپوزیشن میں انٹرویو دینا آسان ہوتا ہے اور وہ بھی جب آپ نے کبھی حکومت نہ کی ہو‘ لیکن حکومت میں بیٹھ کر درجن بھر سکینڈلز آنے کے بعد انٹرویو دینا کچھ اور ہوتا ہے۔ اگر آپ نے ہمارا شو کبھی دیکھا ہو تو اس میں سکینڈلز اور اندورنی خبریں زیادہ ہوتی ہیں جو کسی بھی حکومت کیلئے پشیمانی کا سبب ہوتی ہیں اور وہ بھی خان صاحب روز سنجیدہ چہرے ساتھ قوم کوجو باتیں بتاتے ہوں ان میں کچھ درست نہیں ہوتیں۔
اب ہم جان بوجھ کر اپنے ٹی وی شو میں تھوڑی سی چھیڑ خانی کرتے ہیں کہ خان صاحب اپوزیشن میں اس وقت تو آپ روز عامر متین کو کہتے تھے میرا انٹرویو کریں‘ اب آپ وزیراعظم ہیں تو ہمیں انٹرویو دیں کیونکہ پوچھنے کے لیے بہت سوالات ہیں۔ اپوزیشن میں خاک انٹرویو کا مزہ آتا ہے۔ بندہ سوالات پوچھے تو اس وقت پوچھے جب بندہ اقتدار میں ہو اور طاقتور ہو۔
اب ان دو واقعات‘ جن میں تین چار سال کا فرق ہے‘ کو جوڑ کر قوم کو چورن کھلایا جارہا ہے‘ جو بقول ارشاد بھٹی ہماری مرغوب غذا ہے۔ جو قوم جھوٹ پر پلتی ہو اسے پھر اس طرح کے ہی حکمران ملتے ہیں۔ شکوہ کیسا؟
یہ بھی پڑھیے:
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ