نومبر 14, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

یہ ریڈیو پاکستان ہے۔۔۔ نعیم مسعود

ایسے میں اگر بورڈ آف ڈائریکٹرز سات سو نوکریاں ختم کرنے کی ٹھانے، خورشید شاہ کمیٹی و کیبنٹ فیصلے کے مستقل کردہ ملازمین فارغ، نوازشریف دور کے اخباری اشتہار اور انٹرویوز کے بعد میرٹ پر آئے لوگوں کو فارغ کردے،

نعیم مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اِس کی سماعتوں سے محبت کا رشتہ پہلی محبت ہی سمجھئے۔ پیار کی کہانی اُس وقت زیادہ پُراثر ہوئی جب وسیم حسن راجہ کو ویسٹ انڈیز کی سرزمین پر دھواں دھار بلے بازی کرتے سنا، اِس زمانے میں کلائیو لارڈ کی قیادت میں کرافٹ، کلارک، گارنر، مارشل اور ہولڈنگ جیسے باؤلرز تباہی کا دوسرا نام تھے، آصف اقبال کی کپتانی کا دورہ تھا،

محمد برادران میں سے مشتاق محمد کی کرکٹ اسٹوری تمام ہوئی تھی، ظہیر عباس و ماجد خان بقا کی جنگ لڑ رہے تھے، تو دوسری جانب ہاکی کی دنیا میں شہناز شیخ و صلاح الدین و منور الزمان، اختر رسول و منظور الحسن، منظور جونئر و سلیم شیروانی اور سمیع اللہ و کلیم اللہ و حنیف خان کی دنیا میں حکومت تھی۔ ہم پرائمری و مڈل اسکول تک ان سب کو ریڈیو پاکستان کی نظر سے دیکھتے اور دل کی آنکھ میں سمیٹ لیتے تھے۔

ہماری سینئر نسل میں ریڈیو کا کمال اور جمال کس قدر دلآویز ہوگا ہم کافی حد تک سمجھ سکتے ہیں۔ ریڈیو پاکستان سے بی بی سی لندن، وائس آف امریکہ، وائس آف جرمنی اور ریڈیو ماسکو وہ نشریاتی دنیا اور اس زمانوں کا گلوبل ویلیج تھی گویا ریڈیو اس دور کے گلوبل ویلیج کا معمار تھا۔

اور ہمارے بڑے اس دنیا کے دورے پر اکثر شاموں میں روانہ ہوتے۔ لہلہاتے کھیتوں، سر سبز شاداب پہاڑوں، کچی پکی شاہراہوں، سمندروں اور ساحلوں کی ہواؤں میں ریڈیو کی نغمگی و شگفتگی، رننگ کمنٹریوں، ابلاغ و اطلاع اور فصاحت و بلاغت آج بھی کانوں میں رس گھولتے اور نظریات کو جھنجوڑنےکا سماں یاد کراتے ہیں۔

اس سے قبل کے جنگ و جدل کا نہیں معلوم مگر 1971کی جنگ اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے نوحے اور مرثیے جو احساس بڑوں کے چہروں پر نقش کرتے وہ تصاویر کسی حد تک یاد ہیں۔ وہ ایک ڈبہ گھر میں کبھی ایک یونیورسٹی ہوتا تو کبھی مکہ و مدینہ کی ہواؤں و فضاؤں کا منظر کش، کبھی سڈنی کا کرکٹ گراؤنڈ تو کبھی بارسلونا کا ہاکی اسٹیڈیم۔ کبھی کبھی میں بچوں کو مزاقاً کہتا ہوں کہ پاک ہاکی کو ریڈیو نے جوان رکھا اور ٹیلیوژن نے ہاکی بوڑھی کرکے پاک کرکٹ جوان کردی۔

تمہیں یاد ہوکہ نہ یاد ہو ؟ ریڈیو پاکستان کی پیدائش بھی 1947ہی کی ہے۔ ہمارے بڑے مصطفےٰ علی ہمدانی کا یہ اعلان سنایا کرتے تھے: ’’السلام علیکم! پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس۔ ہم لاہور سے بول رہے ہیں۔ تیرا اور چودہ اگست ، سنہ سینتالیس عیسوی کی درمیانی رات۔ بارہ بجے ہیں۔ طلوع صبح آزادی‘‘۔ آج بھی مصطفےٰ علی ہمدانی یاد آجاتے ہیں جب ان کے صاحبزادے صفدر علی ہمدانی یا ان کی بہو مہ پارہ صفدر کو سوشل میڈیا پر دیکھتا پڑھتا ہوں۔

ریڈیو پاکستان ہی ٹیلیوژن، فلم، ڈرامہ اور ہر قسم کی براڈ کاسٹنگ نرسری تھی اور وطن عزیز کا فخر اور وقار مگر آج یہ عالم ہے اس تاریخی و قومی ادارے کی وسعتوں کے بجائےخاموشیوں پر کام ہو رہا ہے۔ ہم تو سوچتے تھے کہ موٹروے و نیشنل ہائی ویز کا اپنا ریڈیو ہو جو دوران سفر تفریح بھی دے اور انفارمیشن، موسیقی کے سنگ سنگ جاتے جاتے ہی بتا دے کہ کدھر فوگ ہے اور کہاں اسموگ، کہاں رش ہے اور کہاں سڑک زیر تعمیر۔

کدھر حادثہ ہوا اور کیوں ہوا۔ ہمارا خیال تھا ریڈیو پاکستان ویب سائٹ بمعہ ویڈیو بی بی سی اردو کا مقابلہ کرے، مگر کھلا یہ راز یہاں تو کہ 10اسٹیشن اور یونٹس ہی بند کرنے کا ارادہ ہے۔ کہتے ہیں ریڈیو کو 1971والے مقام پر لاکر صرف 8اسٹیشن رکھنے ہیں اور یہ جو اس وقت 31یونٹس یا اسٹیشن موجود ہیں ان میں سے اکثریت کا گلا دبا دینا ہے۔ اجی 2020کا جدید ریڈیو ہونے کے بجائے ریڈیو پاکستان 1947کا ریڈیو بننے جارہا ہے؟ دہائی ہے بھئی دہائی!

کچھ ماہ قبل ری اسٹرکچرنگ کے نام پرساڑھے سات لوگوں کو گھر بھجوا دیا۔ یہ ان لوگوں نے گھر بھجوایا جو ایک کروڑ نوکریاں دینے کے وعدے پر آئے۔ ایک سال سے ریڈیو کو مستقل ڈی جی میسر نہیں اور ایک ایڈیشنل سیکرٹری محترمہ بطور ڈی جی کام کررہی ہیں۔ جہاں ایڈہاک ہی ایڈہاک ہوگا وہاں بناؤ نہیں بگاڑ ہی تو ہوگا۔ غور کیجئے 13اور 14اگست کی درمیانی شب وزیر موصوف اور سیکرٹری صاحب کی موجودگی میں جعلی بات سے کمال رنگ بھر دیا کہ اپنی نوکریاں آباد رہیں۔

سن 1947کا نشریاتی مذکورہ بالا اعلان یعنی 1972میں بیٹے نے جو ہمدانی صاحب کا اعلان از سر نو ریکارڈ کیا اسے سن سنتالیس کا کہہ کر سنا دیا حالانکہ سنتالیس کا کوئی ریکارڈ ہی موجود نہیں۔ تین چار روز قبل نامکمل بورڈ آف ڈائریکٹرز کا اجلاس ہوا، صرف سیکرٹری، ایکٹنگ ڈی جی، فنانس کے ایڈیشنل سیکرٹری اور فارن افیئر کے ایڈیشنل سیکرٹری آئے جو چار ڈائریکٹرز ریٹائر ہو چکے اِن کی جگہ کوئی تھا ہی نہیں۔

ارے اہلِ کرم فارن افیئرز اور فنانس والے کیا جانے ریڈیو کے بسنت بہار؟ انہیں کیا معلوم ریڈیو ایڈمنسٹریشن، پروگرامنگ، مارکیٹنگ اور انجینئرنگ کا؟ جب ان چیزوں کے ڈائریکٹرز ہی نہیں ہوں گے تو سارے عہدے رکھنے والا ڈائریکٹر فنانس کیا کرے گا جی؟

ایسے میں اگر بورڈ آف ڈائریکٹرز سات سو نوکریاں ختم کرنے کی ٹھانے، خورشید شاہ کمیٹی و کیبنٹ فیصلے کے مستقل کردہ ملازمین فارغ، نوازشریف دور کے اخباری اشتہار اور انٹرویوز کے بعد میرٹ پر آئے لوگوں کو فارغ کردے،

اس کے علاوہ ان کی بھی نہ سنی جائے جنہوں نےاسلام آباد، کراچی، بہاولپور اور پشاور سے معزز عدالتوں سے اسٹے لے رکھے ہیں ان کو نہ دیکھے، اور 31یونٹس و سٹیشنز کو 8اسٹیشنوں پر لائے گا علاوہ بریں مجموعی چار ہزار کو 1972کے دو ہزار پر لائے گا، تو یہ مسئلہ و معاملہ محترم وزیراعظم اور متحرک و معاملہ فہم وزیر شبلی فراز ہی کے سامنے رکھا جائے گا۔

جناب یہ معاملہ اس ریڈیو کا ہے جس کے متعلق چند ماہ قبل بھارتی وزیراعظم مودی نے بھری بزم میں کہا تھا کہ ریڈیو پاکستان کشمیر کاز کو نقصان پہنچا رہا ہے! دوسری جانب بھارت بارڈر اور دیگر علاقوں میں کم و بیش 60ٹرانسمیٹرز لگا چکا۔ اور ہم؟محترم وزیراعظم و وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات! یہ تاریخی و تحریکی و نظریاتی ریڈیو پاکستان ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

محبت: جی بی کے بعد آزاد کشمیر؟۔۔۔ نعیم مسعود

اپنی اصلاحات کا موڑ کب آئے گا؟۔۔۔ نعیم مسعود

عالمی و قومی منظرنامہ اورصدر آزادکشمیر!۔۔۔ نعیم مسعود

زرداری رونمائی، مولانا اِن ایکشن، خان اِن ٹربل؟ ۔۔۔ نعیم مسعود

About The Author