نومبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اِٹ کھڑکّا۔۔۔سہیل وڑائچ

تصادم ہو تو پنجابی اسے اِٹ کھڑکّا کہتے ہیں۔ ایک طرف اپوزیشن اور حکومت کا اِٹ کھڑکّا جاری ہے تو دوسری طرف اتحادیوں اور تحریک انصاف میں بھی اِٹ کھڑکے کا امکان ختم نہیں ہوا

سہیل وڑائچ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تصادم ہو تو پنجابی اسے اِٹ کھڑکّا کہتے ہیں۔ ایک طرف اپوزیشن اور حکومت کا اِٹ کھڑکّا جاری ہے تو دوسری طرف اتحادیوں اور تحریک انصاف میں بھی اِٹ کھڑکے کا امکان ختم نہیں ہوا اور تو اور وفاقی کابینہ میں پورٹ فولیوز بدلنے سے اندر کی لڑائیاں اور اِٹ کھڑکّا بڑھنے کا اندیشہ دوچندہو گیا ہے۔

وزیراعظم گزشتہ دنوں لاہور میں چودھری شجاعت حسین کی عیادت کے لئے آئے، مقصد ق لیگ اور تحریک انصاف کے درمیان اِٹ کھڑکے کو ختم کرناتھا، چودھری پرویز الٰہی اور خان کی ملاقات بڑی مفید رہی ۔ وفاقی حکومت اور ق لیگ کے درمیان بڑی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوا،مگر اس ملاقات کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب بزدار اور چودھری پرویز الٰہی میں اِٹ کھڑکے کے حالات پیدا ہوگئے۔

اس ملاقات کے بعد سپیکر چودھری، بزدار پر شدید ناراض ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ہم بزدار سے جو ملاقاتیں کرتے رہے اور جو جو باتیں کرتے رہے انہوں نے وزیراعظم کو وہ اس طرح سے نہیں بتائیں بلکہ تاثر اس کے الٹ دیا جس کی وجہ سے ق لیگ اور وزیراعظم خان کے درمیان غلط فہمیاں بڑھیں۔

بڑوں کی ملاقات میں کھل کر باتیں ہوئیں تو پتہ چلا کہ چودھریوں کا معاملہ خراب کرنے میں وزیر اعلیٰ بزدار کا ہاتھ ہے حالانکہ چودھری تو بزدار کی علانیہ حمایت کرتے رہے اور یہاں تک کہتے رہے کہ جب تک بزدار ہے ٹھیک ہے اگر بزدار کو ہٹایا گیا تو ہم یعنی چودھری خود وزارت اعلیٰ کے امیدوار ہوں گے۔ میری کل ہی وزیر اعلیٰ بزدار سے اتفاقی طور پر گورنر ہائوس لاہور میں ملاقات ہوئی،

میں نے ان کے اور چودھریوں کے درمیان پیدا ہونے والی نئی غلط فہمی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے مسکر ا کر کہا سب ٹھیک ہو جائے گا۔ چودھری پرویز الٰہی کا میرے مرحوم والد سے تعلق تھا،مجھ سے بھی ان کا خاص تعلق ہے میں جلد ہی مل کر غلط فہمی دور کر دوں گا۔

شک اور سازش۔۔۔سہیل وڑائچ

کہا جاتا ہے کہ چودھری کافی عرصے سے پریشان تھے کہ وہ تو پنجاب کے وزیر اعلیٰ سے بھرپور تعاون کر رہے ہیں مگر وزیراعظم خان ہر ملنے والے سے گلہ کرتے تھے کہ بے چارا بزدار صبح سے لے کر رات تک محنت کرتا ہے مگر 3صوبائی وزیر، گورنر اور سپیکر چودھری، بے چارے بزدار کو چلنے نہیں دے رہے۔

چودھری پریشان تھے کہ ان کے بارے میں یہ کنفیوژن کون پیدا کر رہا ہے؟کہنے والے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ خان اور چودھری ملاقات میں کہیں یہ بات بھی کھل گئی ہے کہ بزدار چودھریوں کی حمایت سے مطمئن نہیں اور وہ اس حوالے سے خان کو مسلسل آگاہ کرتے رہے ہیں۔ اس انفارمیشن پر چودھری سٹپٹا اٹھے ہیں کہ ان کی بے تحاشا اور اندھی حمایت کے باوجود بزدار نے ان کی خان سے شکایتیں کیوں کیں؟

یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ چودھری خان سے ملاقات کے بعد مطمئن ہیں ان کے خلاف نیب میں جو کارروائیاں ہورہی تھیں، ان کو رکوانے کے لئے بھی کوششیں شروع ہو چکی ہیں البتہ دیکھنا ہوگا کہ بزدار اور چودھری کے درمیان نئے اِٹ کھڑکے کا انجام کیا ہوگا؟

وفاقی کابینہ میں الٹ پھیر سے شیخ رشید کو وزیر داخلہ بنایا جانا ان کی نہ صرف صلاحیتوں کا اعتراف ہے بلکہ ان کی ترقی کے مترادف ہے۔ دوسری طرف اس فیصلے سے یہ بھی لگتا ہے کہ خان صاحب کو تحریک انصاف کے وفاقی وزرا ء میں کوئی ایسا نہیں ملا جسے وہ وزیر داخلہ کا عہدے دے سکیں۔ وفاقی دارالحکومت میں کافی عرصے سے یہ سرگوشی جاری تھی کہ وزیر داخلہ اعجاز شاہ بیمار ہیں اس لئے ان کی جگہ کوئی متحرک وفاقی وزیر داخلہ لایا جائے

انہی سرگوشیوں کے مطابق فرینڈلی حلقے نے وزیراعظم خان کو پرویز خٹک اور چودھری فواد حسین کے نام تجویز کئے تھے، تاہم وزیراعظم نے اپنی جماعت کے ان لوگوں کے حوالے سے سفارشات کو رد کرتے ہوئے شیخ رشید کو یہ عہدہ دیا ہے، ظاہر ہے اس فیصلے کے بعد پارٹی کے اندر کھینچا تانی اور اِٹ کھڑکا اور بڑھے گا۔

اصلی اور وڈاّ اِٹّ کھڑکاّ تو بہرحال اپوزیشن اور حکومت میں جاری ہے۔ مریم نواز کی بھرپور ریلیوں کے بعد اب حکومت دبائو میں آگئی ہے اور موقر اطلاع کے مطابق دو وفاقی وزیروں نے اپوزیشن لیڈرز کو فون کرکے مذاکرات کا کہا ہے اور یہ پیغام بھی دیا ہے کہ اجتماعی استعفے نہ دیئے جائیں۔ دوسری طرف اپوزیشن نے یہ صاف جواب دیا ہے کہ وزیر اعظم تو مذاکرات کے لئے تیار نہیں بلکہ وہ تو اپوزیشن کے خلاف بیان دے رہے ہیں، اس لئے مذاکرات بے سود ہوں گے۔

لاہور کا جلسہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کے لئے فیصلہ کن ہوگا مریم نواز نے ریلیاں کرکے کارکنوں کو متحرک کردیا ہے مگر کیا اس روز عام لاہوری بھی باہر نکلے گا؟ مسلم لیگ ن لاہور سے بھاری اکثریت سے جیتتی ہے مگر اس کا لاہور میں بڑا جلسہ کرنے کا ریکارڈ کوئی شاندار نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ن لیگ کا ووٹر بزنس مڈل کلاس سے تعلق رکھتا ہے جو جلسے جلوس میں جانے کی تکلیف برداشت نہیں کرنا چاہتا۔

وہ پارٹی سے اپنا تعلق یہی سمجھتا ہے کہ الیکشن والے دن جاکر چپ چاپ ن لیگ کو ووٹ دیدے۔ن لیگ لاہور کے جلسے میں اپنی اس روایت کو بدلنا چاہتی ہے مگر مینار پاکستان بھرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے پانچ لاکھ افراد آئیں تو تب کہیں مینار پاکستان کچھ بھرا ہوا لگے گا بہتر یہی ہوگا کہ ن لیگ ناصر باغ یا مال روڈ پر اپنا جلسہ کرے نہ مینار پاکستان کے پھول اور پودے خراب ہوں اور نہ ن لیگ کے لئے بہت بڑا سیاسی چیلنج بنے۔

جوں جوں لانگ مارچ کے دن قریب آ رہے ہیں تصادم اور اِٹّ کھڑے کا اندیشہ بڑھتا جا رہا ہے۔ بہتر ہو کہ حکومت اور اپوزیشن سیاسی حوالے سے لانگ مارچ سے پہلے ہی مذاکرات شروع کردیں اگر ان مذاکرات میں دیر ہوئی تو پھر اپوزیشن لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائے گی ،ایسی صورت میں مذاکرات پھر حکومت سے نہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ہوں گے۔

یاد رہے کہ عدلیہ والے لانگ مارچ میں بھی تیسرے فریق نےمداخلت کی تھی، جنرل کیانی نے خود اعتزاز احسن کو فون کرکے عدلیہ کی بحالی کا یقین دلایا تھا اور لانگ مارچ ختم کروایا تھا۔ خادم حسین رضوی کی جماعت تحریک لبیک سے بھی مذاکرات اسٹیبلشمنٹ کو کرنے پڑے تھے اور تو اور خود عمران خان نے دھرنے کے دوران جنرل راحیل شریف سے مذاکرات کئے تھے۔

حکومت کو چاہیے کہ معاملہ ایسی صورت حال تک پہنچنے سے پہلے ہی اپوزیشن کو مذاکرات کے لئے بلا ئے،لیکن ظاہر ہے کہ اس کے لئے اعتماد سازی کے اقدامات کرنے ہوں گے اگر حکومت اپنی ضد پر اڑی رہی، اپوزیشن کو رعایت نہ دی تو معاملہ تیزی سے اِٹّ کھڑکے کی طرف بڑھے گا۔ پہلے سیاسی اور پھر معاشی استحکام خراب ہوگا حتمی نقصان ریاست اور عوام ہی کا ہوگا…..

یہ بھی پڑھیں:عام انسان اور ترجمان۔۔۔سہیل وڑائچ

About The Author