عمار مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کا الیکٹرانک میڈیا کچھ بھی شعبدہ دکھا سکتا ہے۔ یہ چاہے تو دن کو رات اور رات کو دن بتا سکتا ہے۔ زہر کو تریاق اور تریاق کو زہر بنا سکتا ہے۔ دوست کو دشمن اور دشمن کو دوست بنا سکتا ہے۔ آج کل ایک ایسا تماشا ہے جو ہر روز ہمارے سامنے ہوتا ہے۔ کچھ تجزیہ کار اور زہریلے سرکاری ترجمان سارا دن مل کر سکرینوں پر ایسی دھماچوکڑی مچاتے ہیں کہ سچ خاک میں مل جاتا ہے اور روز جھوٹ کا اقبال بلند ہوتا ہے۔
پرنٹ میڈیا ہمیشہ کی طرح سب سے پہلے ہتھیار پھینک چکا ہے۔ سوشل میڈیا ہر شخص کی دسترس میں اب تک نہیں۔ معلومات کی سہل رسائی کا واحد ذریعہ اب بھی الیکٹرانک میڈیا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا پر بولے جانے والے لفظ کو ہی لوگ سچ سمجھتے ہیں۔
’عدالت دیکھے گی بی آر ٹی میں مفادات کا ٹکراؤ تو نہیں؟‘
’کسی نے سٹریس دیکھنا ہو تو اسحاق ڈار کا چہرہ دیکھ لے‘
مثال کے طور پرایک خاص طرح سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھائی گئی کہ نواز شریف کے لندن میں چار فلیٹ ہونے کی وجہ سے پاکستان 70 سال سے ترقی نہیں کر سکا۔ یہ بات اس تسلسل سے کی گئی کہ بہت سے پاکستانی اس بات کو سچ سمجھتے ہیں۔ ان کو کبھی یہ نہیں پتہ چلے گا کہ لندن میں نواز شریف کے علاوہ کس کس کی اس سے بھی زیادہ عالیشان رہائش گاہیں ہیں۔ امریکہ میں کس کس کے اربوں کھربوں کے کاروبار ہیں۔ فلیٹ تو چھوٹی سی چیز ہے لوگوں نے تو دساور میں جزیرے تک خرید لیے۔ ہر بات کا جواب یہی ہے نواز شریف کے لندن میں چار فلیٹ ۔۔۔
نواز شریف کی والدہ کے انتقال کے بعد تین دفعہ کے وزیراعظم کی والدہ کے انتقال پر ایک وزیر نے پوری پریس کانفرنس کی کہ والدہ کو پارسل میں بھیج دیا ۔ شریف خاندان نے پیسے بچا لیے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ابھی نواز شریف کی والدہ کا جنازہ بھی نہیں پڑھا گیا تھا۔
ہمارے معاشرے میں تو لوگ ایسے موقعوں پر گلے شکوے بھول جاتے ہیں۔ داد رسی کرتے ہیں غم گساری کرتے ہیں۔ کچھ لوگ ان سب سماجی قوانین سے ماروا نظر آتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر بھی ٹھٹھے لگانے سے باز نہیں آتے۔
اس طرح تقریر اور تصویر دکھانے کی ممانعت کے باوجود اسحاق ڈار کے بی بی سی ہارڈ ٹاک پر انٹرویو کا ایک مخصوص حصہ نجی چینلز پر عوام کو بار بار دکھایا گیا۔ یوں لگتا تھا اسحاق ڈار اپنی کرپشن کا اقرار کر رہے ہیں یا جائیدادیں چھپا رہے ہیں۔ اس حکمت عملی سے پاکستانیوں کی اکثریت کو بس اتنی ہی خبر ملی کہ کچھ گڑ بڑ ہے۔ کم ہی لوگوں نے شاید پورا انٹرویو دیکھا ہو۔
ٹی وی کی سکرینوں پر اب بھی یہی کہا جا رہا ہے کہ عمران خان کی ٹیم اچھی نہیں مگر خان خود کرپٹ نہیں ہے۔
کوئی یہ سوال نہیں کرتا کہ جس دور میں چینی کی قیمت میں پاکستانیوں کو اربوں روپے کا ٹیکہ لگا۔ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے چند لوگ کیسے راتوں رات کھرب پتی ہوئے؟ آٹے کے بحران سے کس کس کو فائدہ پہنچایا گیا؟ ادویات سکینڈل میں سے کس کو کیا ملا؟ بی آر ٹی میں کس کس کی مل سے سریا خریدنے کی اجازت دی گئی؟ پٹرول کا مصنوعی بحران پیدا کس کی خاطر پیدا کیا گیا؟ بلین ٹری سونامی میں قوم کا کتنا پیسہ کہاں گیا؟ کھالیں جمع کر کے کس نے پیسہ کمایا؟ گھوم پھر کر یہی بات ہو گی کہ چلیں کارکردگی ناقص ہے، معشیت کا برا حال ہے۔ لوگ بھوکے مر رہے ہیں۔ کاروبار کرنے والے خود کشیاں کر رہے ہیں۔ نوکریاں کرنے والے ڈگریوں کو آگ لگا رہے ہیں۔ لیکن خان بندہ ایمان دار ہے۔
ایمان داری کا سبق ہمیں روز ازبر کروایا جا رہا ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر