نومبر 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

انور عزیز چودھری کی وفات…اور غیر محفوظ موٹروے ۔۔۔نصرت جاوید

مئی 2019 سے میرا اپنے گھر سے باہر نکلنے کو بھی جی نہیں چاہتا۔ کسی اور شہر کا سفر کرنے سے کمر کی تکلیف کے خوف کی بنا پر گھبرائے رہتا ہوں۔

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مئی 2019 سے میرا اپنے گھر سے باہر نکلنے کو بھی جی نہیں چاہتا۔ کسی اور شہر کا سفر کرنے سے کمر کی تکلیف کے خوف کی بنا پر گھبرائے رہتا ہوں۔ چودھری انور عزیز صاحب کی وفات کی خبر سن کر مگر شکرگڑھ جائے بغیر دل کو تسلی نہیں مل سکتی تھی۔ میری بیوی کو بھی ان کی قبر پر حاضری دئیے بغیر چین نصیب نہیں ہونا تھا۔

چودھری صاحب کی 90 ویں اور آخری سالگرہ ہم نے اسلام آباد میں ان کے ساتھ منائی تھی۔ جبلی خوش دلی سے وہ اصرار کرتے رہے کہ اسلام آباد سے شکر گڑھ کا سفر اب بہت ’’آرام دہ‘‘ ہوگیا ہے۔ اسلام آباد-لاہور- موٹروے پر چلتے ہوئے کالاشاہ کاکو سے باہر نکلو تو رنگ روڈ سرعت سے لاہور-سیالکوٹ ایکسپریس وے پر لے جاتا ہے۔ وہاں سے نارووال -مرید کے والی سڑک سیدھا شکرگڑھ لے جاتی ہے۔ چودھری صاحب خطرناک حد تک تیز رفتار سفر کے عادی تھے۔ اپنی سالگرہ کے دن دعویٰ کرتے رہے کہ محض چار گھنٹوں میں وہ شکرگڑھ سے اسلام آباد آجاتے ہیں۔ میری بیوی کو ان پر اندھا اعتماد تھا۔ میں اگرچہ اسے احتیاطاََ متنبہ کرتا رہا کہ ’’ایڈونچر‘‘ کے عادی رہے چودھری صاحب پرانے جی ٹی روڈ سے بھی ساڑھے تین گھنٹوں میں لاہور سے اسلام آباد آتے رہے ہیں۔ ان کے ہمراہ تین بار سفر کرنے کے بعد میں نے عہد باندھ لیا تھا کہ ان کی ’’ڈرائیوری‘‘ سے گریز لازمی ہے۔ اس عہد پر20 سے زیادہ برس ڈھٹائی سے قائم رہا۔ چودھری صاحب کی بتائی کہانی کو ذہن میں رکھتے ہوئے میری بیوی البتہ بضد رہی کہ ہم دونوں منگل کی صبح گھر سے روانہ ہوکر بآسانی زیادہ سے زیادہ رات کے ساڑھے نو بجے گھر واپس لوٹ سکتے ہیں۔ میرے اطمینان اور سہولت کے لئے اس نے کرائے کی ایک گاڑی کا بندوبست بھی کرلیا جس کا ڈرائیور گلگت -بلتستان کے سفر کا ’’چمپئن‘‘ گردانا جاتا ہے۔ ذات کا رپورٹر ہوتے ہوئے سفر کے دوران میرے مشاہدے کی حس بہت تیز ہوجاتی ہے۔ شکرگڑھ جاتے ہوئے لیکن میں چودھری صاحب سے وابستہ یادوں میں گم رہا۔ شام ڈھلتے ہی واپسی کا سفر شروع ہوا تو میرے اندر کا رپورٹر جاگ اُٹھا۔ نوجوانی سے مجھے دور دراز،اجنبی اور بسا اوقات جنگ یا فسادات کی زد میں آئے علاقوں میں سفر کی علت لاحق رہی۔ شکرگڑھ سے لوٹتے ہوئے میری بیوی مصر رہی کہ ’’پرانے زمانے‘ ‘ کے لوگوں کی طرح مجھے ہر چوک میں گاڑی سے اُتر کر لوگوں سے لاہور- اسلام آباد موٹروے تک پہنچانے والا راستہ پوچھنے سے گریز کرنا چاہیے۔ اس کے موبائل میں گوگل کی Navigation والی App موجود ہے۔ گاڑی میں بھی GPS لگا ہوا تھا۔فون اور گاڑی میں جو Apps میسر تھیں وہ مگر ایسے راستوں کی جانب دھکیل رہی تھیں جو ہمیں ’’جلد ازجلد‘‘ اسلام آباد پہنچا سکتی تھیں۔ نارووال کے بازار سے گزرتے ہوئے مگر میں نے تکرار شروع کردی کہ ہم اس راستے سے واپس نہیں لوٹ رہے جس نے ہمیں بآسانی شکرگڑھ پہنچایا تھا۔ ’’جدید ترین‘‘ Appsکے ’’ناکارہ‘‘ ہونے کی حقیقت کو بالآخر ڈرائیور اور میری بیوی تسلیم کرنے کو مجبور ہوگئے۔ مجھے ’’اجازت‘‘ مل گئی کہ مختلف مقامات پر گاڑی سے نیچے اُترکر لوگوں سے لاہور- اسلام آباد موٹروے تک پہنچانے کا ’’’درست‘‘ راستہ پوچھتا رہوں۔ اس مشقت سے گزرتے ہوئے یاد آیا کہ 1990 کی دہائی کے آخری ایام تک کم از کم پنجاب کے ہر قصبے میں پرانے سنگ میل کے علاوہ بلندی پر لگائے بل بورڈ نظر آیا کرتے تھے۔ تیروں کی مدد سے یہ آپ کو منزل کی جانب ’’گائیڈ‘‘ کرتے۔ دورِ حاضر میں غالباََ فرض کرلیا گیا ہے کہ ہر گاڑی میں GPS کا نظام موجود ہے۔ موبائل فونز میں گوگل Maps اور راستہ بتانے والی گائیڈ خاتون کی آواز بھی میسر ہے۔ سنگِ میل اور بلندی پر لگائے بل بورڈز کی لہٰذا ضرورت نہیں رہی۔ نارووال سے کالا شاہ کاکو تک آتے ہوئے دو ایسے مقامات پر ٹال ٹیکس بھی ادا کرنا پڑا جس کا سڑک کی حالت دیکھتے ہوئے کوئی جواز نظر نہیں آرہا تھا۔ نسبتاَََ ویران اور اندھیری سڑکوں پر پولیس پیٹرولنگ بھی مفقودنظر آئی۔ اس نے عدم تحفظ کا احساس اُجاگر کیا۔ بالآخر کالا شاہ کاکو کا انٹرچینج آگیا۔ وہاں سے اسلام آباد لے جانے والے موٹروے تک پہنچتے ہوئے میں نے دریافت کرلیا کہ حال ہی میں لاہور- سیالکوٹ ایکسپریس وے پر سفر کرنے والی خاتون درندگی کا نشانہ کیوں بنی تھی۔ مذکورہ سانحہ رونما ہونے کے بعد لازمی تھا کہ رنگ روڈ کے اس حصے پر مسافروں میں تحفظ کا احساس اجاگر کرتے کسی بندوبست کا اہتمام ہو۔ ہمارے ’’مالکوں‘‘ نے مگر اس جانب توجہ ہی نہیں دی۔ سفاکانہ بے حسی اختیار ہوئی نظر آرہی ہے۔ دل دہلا دینے والی حقیقت مگر یہ ہے کہ میرے مشاہدے کے مطابق اب لاہور- اسلام آباد موٹروے کا سفر ’’محفوظ‘‘ نہیں رہا۔ 2018تک یہاں جس انداز میں ٹریفک کو ضوابط کے تحت رواں رکھنے کے عمل کی نگہبانی ہواکرتی تھی خوفناک حد تک عنقا ہوچکی ہے۔ سیٹھوں کی جانب سے جو دیوہیکل بسیں متعارف ہوئی ہیں وہ ’’ہیوی ٹریفک‘‘ کے لئے مختص ہوئی Lane تک محدود نہیں رہتیں۔ نظر بظاہر اوورٹیک کو واجب ٹھہراتی کسی ضرورت کے بغیر یہ تیز رفتار بسیں مسلسل دائیں ہاتھ کا Indicator Flash کرتے ہوئے درمیانی Lane سے دندناتی ہوئی دائیں ہاتھ کی Fast لین میں در آتی ہیں۔ ’’فاسٹ‘‘ اور ’’درمیانی‘‘ Lane کے حقدار ڈرائیوروں کو بتیاں تیز کرتے اور ہارن بجاتے ہوئے اپنا ’’حق‘‘ یاد دلانا پڑتا ہے۔ بالآخر سڑک کا’’مالک‘‘ ہوئے غنڈوں کی طرح دیوہیکل بس کا ڈرائیور کافی دیر کے بعد درمیانی لین میں داخل ہوکر ہیوی ٹریفک کے لئے مختص لین میں آپ پر گویا احسان کرتے ہوئے داخل ہوتا ہے۔ آپ گزرجاتے ہیں تو وہ دوبارہ درمیانی لین سے فاسٹ لین میں داخل ہونے کی ضد اختیار کرلیتا ہے۔

لاہور- اسلام آباد موٹروے پر یکے بعد دیگرے وہ بل بورڈ چمک رہے ہوتے ہیں جو آپ کو متنبہ کرتے ہیں کہ رواں ٹریفک کی کیمروں کے ذریعے کڑی نگرانی ہورہی ہے۔ ضوابط کے احترام کو لہٰذا ہر صورت ملحوظِ خاطر رکھا جائے۔ اسلام آباد لوٹتے ہوئے میں نے کم از کم دس بسوں کو مسلسل دندناتے ہوئے ہیوی ٹریفک کے لئے مختص لین سے درمیانی اور فاسٹ لین میں گھستے دیکھا۔ کسی ایک مقام پر لیکن ان میں سے ایک بس بھی موٹروے کی پولیس کی جانب سے جرمانے وغیرہ کے لئے رکی نظر نہیں آئی۔ ثابت ہوگیا کہ کسی زمانے میں ’’مثالی‘‘ اور دنیا کے جدید ترین نظام ٹریفک کے معیار پر ہر صورت پورا اترتا نظام اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے۔ لاہور- اسلام آباد موٹروے پر ہوا سفر بھی اس وحشیانہ ہڑبونگ کی زد میں آچکا ہے جو پاکستان کی دیگر شاہراہوں پر نظر آتی ہے۔ عمران خان صاحب کے ایک بہت ہی چہیتے وزیر جناب مراد سعید صاحب ان دنوں موٹرویز کے حتمی مدارالمہام ہیں۔ موصوف انتہائی رعونت سے قومی اسمبلی میں ’’پرچی کی مدد سے بنے‘‘ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ’’کلاس‘‘ لیتے ہیں۔ شریف خاندان کو حقارت سے ’’بھگوڑے اوربدعنوان‘‘ پکارتے ہیں۔ تحریک انصاف کی ٹکٹ پر فیصل آباد سے منتخب ہوئے رکن قومی اسمبلی راجہ ریاض صاحب نے اکثر ایوان میں کھڑے ہوکر مراد سعید صاحب کو لاہور اور فیصل آباد کو ملتان سے ملانے والی موٹروے کی حالت زار کا ذکر کرتے ہوئے پنجابی محاورے کے مطابق ’’اپنی چارپائی کے نیچے لاٹھی گھمانے‘‘ کا مشورہ دیا۔ وزیر اعظم کے ’’لاڈلے‘‘ وزیر مگر ٹس سے مس نہ ہوئے۔ کہانی اب یہ گردش میں ہے کہ حال ہی میں ہوئے کابینہ کے اجلاس میں ندیم افضل چن نے پنڈی بھٹیاں والے ٹال پلازہ پر مسافروں پر نازل ہوئی اذیتوں کا ذکر کیا تو مراد سعید صاحب بھڑک اُٹھے۔ ’’سب اچھا‘‘پر مصر رہے۔ مراد سعیدجو بھی دعویٰ کرتے رہیں منگل کی رات ایک طریل عرصے کے بعد لاہور-اسلام آباد موٹروے پر سفر کی بدولت گھر لوٹنے کے بعد میں آپ سے دست بستہ عرض کرنے کومجبور ہوں کہ مذکورہ موٹروے پر خاص طور پر شام ڈھلنے کے بعد سفر کرتے ہوئے ’’مراد سعید تے نہ رہناں‘‘۔ صدقہ دینے کے بعد اس سڑک پر سفر کریں اور بحفاظت گھر لوٹنے کے بعد شکرانے کے نوافل ادا کریں۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت

About The Author