نذیر ڈھوکی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بالکپن سے سنتے آئے ہیں کہ ملک نازک دور سے گذر رہا ہے مگر سچ یہ ہے کہ ملک ہی نہیں قوم بھی آج واقعی نازک دور سے گذر رہی ہے، جو بخوبی جانتی ہے قصور سلیکٹڈ کا نہیں سلیکٹرز کا جنہوں نے نالائق لاڈلے کو کھیلنے کے ملک دیدیا ہے۔
ویسے تو جمہوریت کی بساط لپیٹا، عوام کے مینڈیٹ کو چرانا اسٹیبلشمنٹ کی علت رہی ہے، قوم کی مقبول سیاسی قیادت کے کردار کو داغدار کرنا، اسے سیاسی منظر سے غائب کرنا بھی اسٹیبلشمنٹ کا وطیرہ رہا ہے، جمہوریت بار بار مست ہاتھی کے بھاری بوجھ سے گھائل ہوتی رہی ہے, مگر اب زمانہ بدل چکا پے جب آلو 100 روپیہ کلو بکنے لگیں، سبزیوں کے مول عام آدمی کیلئے قوت خرید سے باہر ہو جائیں، پاپڑ جیسی روٹی 15 روپے ملے تو گالیاں اور بد دعائیں سلیکٹڈ کے ساتھ سلیکٹرز کو بھی پڑتی ہیں.
ایسے میں خلق خدا یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہے کہ بنگلادیش کی معیشت ہم سے کیوں بہتر ہے ؟
آج ہی کی خبر ہے کہ لاڈلے کی حکومت نے ایل این جی کی خریداری میں مقروض ملک کو 120 ارب روپے کا نقصان پہنچایا ہے، جی ہاں قوم کو یاد ہے کہ صدر آصف علی زرداری نے پاکستان اور ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی بنیاد رکھی تھی اس منصوبے سے ملک اور قوم کی نہ صرف اربوں ڈالر کی بچت ہوتی بلکہ ضرورت کے مطابق گیس بھی دستیاب ہوتی۔
رہی بات سی پیک کی تو یہ منصوبہ برگر کی طرح بن چکا ہے جو بلوچستان، کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام کیلئے نا آشنا ہے، خلق خدا اب اس قدر باشعور ہو چکی ہے کہ کٹھپتلی کو حرکت میں لانے والی ڈوریوں کے آخری چھیڑے
میں بندھی انگلیوں کو بھی دیکھ چکی ہے۔
تب ہی تو خلق خدا کی شکایات کٹھپتلی کی بجائے اس کو حرکت میں لانے والوں سے ہے.
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ