نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ دو ہفتوں کے دوران راولپنڈی اور اسلام آباد کے اہم ترین پالیسی ساز اداروں میں ایک بار پھر یہ سوال زیر غور رہا کہ وطن عزیز کے صحافیوں کو ’’قومی بیانیہ‘‘ فروغ دینے کے قابل کیسے بنایا جائے۔ اس ضمن میں ایک کورس کا اہتمام ہوا۔ چند بریفنگ بھی ہوئیں جہاں ریاستی قوت کے حوالے سے ’’مقتدر‘‘ افراد نے کھلی ڈلی باتوں سے شرکاء کو خوش گوار حیرت میں مبتلا کردیا۔
عملی صحافت سے عرصہ ہوا ریٹائر ہوچکا ہوں۔ گوشہ نشین ہوا اس کالم کے ذریعے فقط لکھنے کی علت کو تسکین فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ مجھے یہ گماں کبھی نہیں رہا کہ میری تحریر ’’ذہن سازی‘‘ کے کام آتی ہے۔ ویسے بھی دورِ حاضر میں ہمارے ہاں یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ Long Form والی پرنٹ صحافت کا دور ختم ہوچکا ہے۔ ’’رائے عامہ‘‘ ان دنوں ٹی وی سکرینوں پر نمودار ہونے والے دانشور ہی بناتے ہیں۔ اس کے علاوہ یوٹیوب ہے۔ اس کے ذریعے تنخواہ اور لفافے کی ہوس سے آزاد ہوئے حق گو لوگوں کو حقائق برجستہ جرأت کے ساتھ بتادیتے ہیں۔ ذہن سازی کے حوالے سے حتمی Influence پر اب ان کا اجارہ ہے۔ ہزاروں افراد یوٹیوب پر ان کی گفتگو کو بہت چائو سے Follow کرتے ہیں۔ ان کے ہوتے ہوئے اخبارات کے لئے اگر مگر کے ساتھ لکھنے والے ڈنگ ٹپائو کالم نگاروں کے بے اثر خیالات پر توجہ دینے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہی۔
ہائی سکول کے زمانے ہی سے مجھے صحافت کو بطور پیشہ اختیار کرنے کا خبط لاحق ہوگیا تھا۔ لکھنے اور بولنے کے علاوہ رزق کمانے کے کسی اور طریقے سے لہٰذا آشنا ہی نہیں ہوسکا۔ عمر کے آخری حصے میں داخل ہوکر مگر دریافت ہوا ہے کہ میں ابلاغ کے ہنر سے یکسر محروم ہوں۔ ساری عمر ’’لفافے‘‘ لے کر جھوٹ پھیلانے میں صرف کردی۔ ہمارے ہاں اگر دیانت دارانہ صحافت ہو رہی ہوتی تو سیاست دانوں کا روپ دھارے مبینہ طورپر ’’چور اور لٹیرے‘‘ آصف زرداری اور نواز شریف جیسے ’’منی لانڈر‘‘ اقتدار میں باریاں نہ لے رہے ہوتے۔ کرکٹ سے نام کمانے والے ایک ’’ہیرو‘‘ عمران خان صاحب کو تن تنہا ان افراد کے خلاف 22 سالہ جدوجہد میں دن رات ایک کر دینے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی۔ پاکستان کی تاہم خوش نصیبی ہے کہ بالآخر اگست 2018 میں وہ ہمارے وزیر اعظم منتخب ہوگئے۔ اپنا منصب سنبھالنے کے بعد وہ ثابت قدمی سے 70 سالوں سے جمع ہوا گند صاف کرنے میں مصروف ہیں۔ ملکی سیاست اب راہِ راست پر آنا شروع ہوگئی ہے۔ حرام خوری کے عادی ’’مافیا‘‘ سے اگرچہ جند چھڑانے کے لئے ’’فقط چند روز اور …‘‘ گھبرائے بغیر صبر سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ ابلاغ کے حوالے سے مشکل مگر یہ درپیش ہے کہ دُنیا اب تک یہ تسلیم کرتی نظر نہیں آرہی کہ پاکستان ’’بدل‘‘ چکا ہے۔ پاکستانی صحافیوں کے لئے لہٰذا یہ لازمی ٹھہرایا جارہا ہے کہ اپنے ہنر کو ’’تبدیلی‘‘ والی حقیقت اجاگر کرنے کے لئے استعمال کریں۔ مجھے کامل یقین ہے کہ علم ابلاغ کی مبادیات وحرکیات کو مجھ سے کہیں بہتر سمجھنے والے میرے سینئر اور جونیئر ساتھی اس ضمن میں قوم کو مایوس نہیں کریں گے۔
جس ہنر کی چاہت ہو وہ قابو میں نہ آئے تو مجھ جیسے ناکام افراد جھکی ہو جاتے ہیں۔ سوکنوں کی طرح ہذیاتی سوالات اٹھاتے ہیں۔ دوسروں کے ہر کام میں کیڑے نکالتے ہوئے لوگوں کے دلوں کو اُمید سے محروم کردیتے ہیں۔ منگل کی رات سے میں ایسے ہی سوالات کی زد میں ہوں۔ ان کے جوابات ڈھونڈ نہیں پایا۔ شاید یہ کالم چند افراد کو مجھے تسلی بخش جوابات دینے کو اُکسائے۔
دورِ حاضر میں دُنیا کی واحد سپرطاقت شمار ہوتا ایک ملک ہے -امریکہ- بارک حسین اوبامہ نام کے ایک سیاہ فام نے 2008 کا صدارتی انتخاب جیت کر اس ملک کی تاریخ بنائی تھی۔ اس کے بعدو ہ آٹھ برس تک ایک طاقت ور ترین صدر رہا۔ 2016 میں وائٹ ہائوس چھوڑنے سے قبل مگر اس نے امریکی پارلیمان سے الوادعی خطاب کرتے ہوئے واضح الفاظ میں اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ ’’آنے والی کئی دہائیوں تک‘‘ ہمارا خطہ یعنی جنوبی ایشیاء جس میں پاکستان،بھارت اور افغانستان جیسے ملک بھی شامل ہیں سیاسی عدم استحکام اور خلفشار کا شکار رہے گا۔
اوبامہ کے مذکورہ خطاب کے بعد میں بارہا اس کالم کے ذریعے فریاد کرتا رہا کہ وائٹ ہائوس سے رخصت ہونے سے قبل اوبامہ نے فقط جنوبی ایشیاء ہی کی بابت پریشان کن گفتگو کیوں کی۔ اس نے افریقہ یا لاطینی امریکہ کا ذکر کیوں نہیں کیا۔ غریب ممالک دُنیا کے ہر خطے میں ہزاروں مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔ نام نہاد ’’مہذب‘‘ یورپ بھی لیکن اب وحشیانہ نسل پرستی کی زد میں ہے۔ برطانیہ اپنی ’’شناخت‘‘ برقرار رکھنے کی ضد میں یورپی یونین سے الگ ہوچکا ہے۔ جرمنی میں بے پناہ افراد کو ہٹلر کی یاد ستانا شروع ہوگئی ہے۔ فرانس کا صدر جنونی ہوکر اسلام کے خلاف اعلانِ جنگ کرچکا ہے۔ پولینڈ اور ہنگری میں آمرانہ نظام اپنے عروج پر ہے۔ سابقہ سوویت یونین سے جدا ہوکر ایک ملک -بیلارس- گزشتہ تین مہینوں سے عوامی احتجاج کی لپیٹ میں ہے۔ وہاں کے عوام حال ہی میں ہوئے صدارتی انتخاب کے نتائج تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ حالات بدلنے کی کوئی صورت مگر انہیں نظر نہیں آرہی۔
سیاسی معاملات سے قطع نظر کرونا بھی ہے جس نے 2020 کو عالمی تاریخ کا ہولناک سال بنادیا ہے جو دنیا بھر میں کئی صدیوں سے موجود ریاستی اور انتظامی ڈھانچوں کی بقاء کی بابت ہزارہا سوالات اٹھانے کا باعث ہوا۔ وائٹ ہائوس سے رخصت ہوتے ہوئے صدراوبامہ ان تمام حقائق کی نشاندہی نہ کرسکا۔ اس کی سوئی جنوبی ایشیاء پر ہی اٹکی رہی۔ میں اس کی ’’دانشوری‘‘ کو سنجیدگی سے لینے میں وقت ضائع کیوں کروں۔ منگل کی رات مگر دریافت یہ ہوا کہ اوبامہ کے خیالات کو اس کے ملک ہی میں نہیں بلکہ دنیا بھر کے بے تحاشہ پڑھے لکھے افراد اب بھی بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ اقتدار سے فراغت کے بعد اس نے ساڑھے تین برس لگاتے ہوئے ایک کتاب لکھی ہے۔ A Promised Land اس کا عنوان ہے۔ منگل کی رات اس کتاب کی رونمائی ہوئی ہے۔
اس کتاب کے بازار میں آنے سے قبل ہی مگر ڈیڑھ لاکھ افراد نے اسے خریدنے کا آرڈر دیا تھا۔ اس تعداد کو ذہن میں رکھتے ہوئے مذکورہ کتاب کے پبلشر نے فیصلہ کیا کہ ابتداء میں اس کی 32 لاکھ جلدیں شائع کی جائیں۔ اسے خریدنے کی خواہش کا اظہار کرنے والوں کی تعداد میں لیکن حیران کن اضافہ ہوتا رہا۔ پبلشر نے بالآخر متوقع طلب کی تسکین کے لئے جرمنی کے ایک پریس سے دس لاکھ اضافی جلدوں کی تیاری کے لئے رجوع کیا۔ منگل کی رات اس کتاب کی 50 لاکھ جلدیں مارکیٹ میں پہنچادی گئی ہیں۔
ساڑھے سات سو سے زیادہ صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت 45 ڈالر ہے۔ پچاس لاکھ افراد مگر اسے خرید کر پڑھیں گے۔ اس کتاب میں اسامہ بن لادن کے خلاف ہوئے مئی 2011 کے آپریشن کا ذکربھی ہے۔ اس حوالے سے اوبامہ کی بیان کردہ کہانی کو 50 لاکھ قاری بہت سنجیدگی سے لیں گے۔ شنید ہے کہ اوبامہ نے اپنی کتاب میں وہ گفتگو بھی تفصیلات سمیت لکھ ڈالی ہے جو اسامہ کے خلاف ہوئے آپریشن کے بعد پاکستان کے صدر اور ان دنوں کے آرمی چیف کے ساتھ ہوئی تھی۔ اوبامہ پر اعتبار کریں تو ہمارے حکمرانوں کو مذکورہ آپریشن مکمل ہونے کے بعد فقط اس کی ’’اطلاع‘‘ دی گئی تھی۔ ہمارے ’’مائی باپ‘‘ اس سے ’’معاملہ سنبھالنے‘‘ کا تقاضہ کرتے رہے۔ اللہ اللہ خیر صلیٰ۔
اوبامہ کی تازہ ترین کتاب اسامہ بن لادن کے حوالے سے پاکستان کے بارے میں جس تاثر کو فروغ دے گی اسے نیویارک ٹائمز اور CNN جیسے ادارے نمک مرچ لگا کر اچھالیں گے۔ بھارتی میڈیا کو بھی اس کی بدولت پاکستان کے خلاف زہر افشانی کے لئے وافر مواد میسر ہوجائے گا۔ سوال اٹھتا ہے کہ 50 لاکھ لوگوں کی جانب سے پڑھی ایک کتاب پاکستان کے بارے میں جو تاثر پھیلائے گی اس کا توڑ میرے بہت ہی ہنر مند ساتھی اپنے یوٹیوب چینلوں کے ذریعے کیسے تشکیل دے پائیں گے۔ جو پچاس لاکھ قاری اوبامہ کی کتاب 45 ڈالر خرچ کرکے پڑھیں گے ان میں سے شاید ایک شخص بھی اُردو زبان پڑھ نہیں سکتا۔ یوٹیوب پر اس زبان میں بیان ہوئے قصے بھی ان تک پہنچ نہیں پائیں گے۔ اسامہ بن لادن کے حوالے سے لہٰذا بات وہی مستند تصور ہوگی جو امریکہ کے آٹھ سال برسر اقتدار رہے ’’تاریخ ساز سیاہ فام‘‘ صدر اوبامہ نے بیان کی ہوگی۔
اسامہ آپریشن کے بعد ہمارے ہاں جاوید اقبال صاحب کی سربراہی میں حقائق کی تلاش کے لئے ایک اعلیٰ سطحی کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ ’’سب پر بالادست‘‘ ہونے کی دعوے دار پاکستان کی ’’منتخب‘‘ پارلیمان نے ایک متفقہ قرار داد کے ذریعے اس کمیشن کے قیام کی منظوری دی تھی۔ مذکورہ قرار داد نے یہ ’’حکم‘‘ بھی صادر فرمایا تھا کہ کمیشن کی رپورٹ مکمل ہوجانے کے بعد منظرِ عام پر لائی جائے گی۔ 2013 کے آغاز میں مطلوب رپورٹ تیار ہوگئی۔ اس کے بعد سے ابھی تک مگر وزیر اعظم کے دفتر میں موجود کسی الماری میں بند ہے۔ وہ رپورٹ ہمارے علم میں لائی جاتی تو اس کی بنیاد پر اوبامہ کی اسامہ آپریشن کی بابت کہانی پر سوالات یقینا اٹھائے جاسکتے تھے۔ اس کے بغیر تو ’’مستند ہے اوبامہ کا فرمایا ہوا‘‘ والا معاملہ ہی رہے گا۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر