گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اپنے ایک ڈاکٹر دوست کے تھیسس کے سلسلے میں بہاولپور شھر سے یزمان پہنچا اور پھر چولستان کے کھلے صحرا میں داخل ہو گیا۔ یہ سخت گرمیوں کا موسم تھا جب چولستان کے صحرا کے ٹیلوں سے گرم لُو ٹکراتی ہے اور چولستانی باشندے سارا دن منہ کو لپیٹے ان لُو کے تھپیڑوں کو سہتے مال مویشی چراتے رہتے ہیں۔ ڈیرہ کے ممتاز شاعر غلام محمد قاصر مرحوم نے کہا تھا؎
سرد ہواوں سے تو تھے ساحل کی ریت سے یارانے۔۔۔
لُو کے تپھیڑے سہنے والے صحراٶں کے ٹیلے تھے۔
چولستان صحرا کی زندگی مال مویشی اور اونٹوں کے ارد گرد گھومتی ہے۔ جس طرح ہمارے ڈیرہ کے دامان کے لوگ بارش کا پانی ایک بڑے تالاب میں جمع کر لیتے ہیں اور اسی پر گزارا کرتے ہیں اسی طرح چولستان کے لوگ بارش کے جمع شدہ پانی کے تالاب کے اردگرد بسیرا کر لیتے ہیں۔وہ اس تالاب کو ٹوبہ کہتے ہیں۔ ادھر دامانی لوگ جب رودکوہی سیلاب کے پانی سے اپنی زمین کا ٹکڑا سیراب کرتے ہیں تو اسے بندڑا کہتے ہیں کیونکہ یہ زمین بھی چاروں طرف لٹھ بنا کر تالاب کی شکل میں ہوتی ہے۔ چولستانیوں کا یہ مسئلہ ہے کہ جب ٹوبہ خشک ہونے لگتا ہے تو وہ کسی نئیے ٹوبے کی تلاش میں ہجرت کر لیتے ہیں اور اس جگہ پڑاو ڈالتے ہیں جہاں قریب پانی مل جائے ۔ چولستان کی زندگی کسی ایک جگہ قیام نہیں کرتی بلکہ صحرا میں گھومتی پھرتی رہتی ہے۔اسی طرح ہمارے شیر دریا سندھ کے کنارے آباد کیہل لوگ بھی دریا میں جگہ جگہ تمبو اور قلقیاں لگا کر گھومتے رہتے ہیں۔کیہل برادری پر ایک سرائیکی شاعر عصمت نے کمال کی شاعری کی ہے ۔اس نے جب کیہل سے پوچھا تم اب تبدیل ہو جاو دنیا کہاں پہنچ گئی مگر تم نہیں بدلے تو کیہل نے شاعر کو جو جواب دیا وہ سرائیکی شاعری میں سننے سے تعلق رکھتا ہے ؎
؎ ساکوں حال آپنڑے دے وچ رہنڑ ڈے سئیں ۔توں ایھ گاہل نہ پچھ کہ کیوں نے بدلدے۔تیڈے بنگلے کوٹھیاں عداوت توں پُر ہن۔ میڈے پاڑیاں قلقیاں دے وچ پیار پلدے ۔تیڈے گیٹ تے گاڈ ڈینھ رات ھودن ۔میڈا پندا ہویا نہ کوئی بال گلدے۔فجر نال کشکول خالی کوں چینا۔ ولا شامیں کشکول پُر تھی کے ولدے۔ ساڈا ہر دی تونڑ دے وچ ہے مقدر۔ اساں شہنشاہ در دے پکے گدا ہیں ۔ ساڈا سارا وسبا بھراویں دے وانگوں ۔اساں سارے وسبے دے سکے بھرا ہیں۔ تہاکو انا ایڈا مغرور کیتے جو بھراواں توں کھاندے ہو روٹی لُکا کے۔اساں آپڑیں رسماں دے مخلص ودے ہیں۔ اساں اج وی پندوں محلے ونڈا کے۔ جے کر اے یقین ہی کہ دنیا ہے فانی۔ ولا کیا کریسیں اے بنگلے بنڑا کے۔تو چا کُوڑیاں قسماں روزی کمانیں ۔اساں رزق گھندے ہیں ڈِگڑی وگا کے۔ساڈیاں آپڑیاں رسماں ۔ساڈیاں آپڑیاں ریتاں۔اساں زندگی دے جنون اچ ودے ہیں۔سچی گال جے کر تو پچھدا ہیں عصمت ۔اساں ڈھیر سارے سکون اچ ودے ہیں۔۔پھر واپس چولستان چلتے ہیں ایک ٹوبہ مکمل خشک ہو چکا تھا تو میں نے چولستانی سے پوچھا یہ کتنے دن میں خشک ہو گیا تو اس نے سورج کی طرف اشارہ کر کے کہا اس ظالم نے جلد خشک کر دیا۔میں نے کہا سورج تو بہت اچھا ہوتا ہے یہ ہماری دھرتی کو روشن کرتا ہے۔ اس نے کہا سورج ایک نہیں دو ہیں ۔ایک اچھا ایک ظالم۔جو اچھا سورج ہے وہ سردیوں میں نکلتا ہے وہ مہربان سورج ہے جو غصیلا اور ظالم ہے وہ گرمیوں میں نکلتا ہے وہ ہمارے ٹوبے خشک کر دیتا ہے اور ہم کوچ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر