نومبر 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

’’جیہڑا جتّے، اوہدے نال‘‘ کی برقرار عادت۔۔۔ نصرت جاوید

دورِ حاضر میں روزمرہّ زندگی کے لئے ’’بنیادی‘‘ ہوئی اس سہولت سے محرومی کی جو وجہ ہے اسے ’’فسادِ خلق‘‘ کو ’’بھڑکانے‘‘ کے الزام سے بچنے کے لئے زیر بحث نہیں لاسکتا۔

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ کالم لکھنے کے لئے پیر کی صبح 10:52پر قلم اٹھایا ہے۔ میرے موبائل کی سکرین پر No Service آرہا ہے۔ اتوار کا سارا دن بھی اس ’’سروس‘‘ سے محروم رہا۔ موبائل فون کے ذریعے گھر سے رابطہ برقرار رکھنے والے اطمینان کی عدم دستیابی کے سبب باہر نکلنے سے خوف آتا رہا۔ دورِ حاضر میں روزمرہّ زندگی کے لئے ’’بنیادی‘‘ ہوئی اس سہولت سے محرومی کی جو وجہ ہے اسے ’’فسادِ خلق‘‘ کو ’’بھڑکانے‘‘ کے الزام سے بچنے کے لئے زیر بحث نہیں لاسکتا۔ اتوار ہی کے دن آج سے چند سال قبل تک ’’قبائلی علاقے‘‘ کہلوانے والے ایک مقام پر حاضرین کی تعداد کے اعتبار سے ایک متاثر کن جلسہ بھی ہوا ہے۔

مجھے ہرگز خبر نہیں کہ ’’ذمہ دار صحافت‘‘ کے موجودہ موسم میں اسے زیر بحث لایا جاسکتا ہے یا نہیں۔ روایتی میڈیا کی سکرینوں پر گلگت-بلتستان میں ہوئے انتخاب کے نتائج نے البتہ رونق لگارکھی ہے۔ تحریک انصاف اور اس کے بہی خواہ اب تک سنائے گئے نتائج کی بابت بہت شاداں ہیں۔ سینہ پھلا کہ اصرار کررہے ہیں کہ گلگت-بلتستان کے عوام نے PDM میں شامل جماعتوں کے ’’وطن دشمن‘‘ بیانے کو اپنے ووٹ کے ذریعے دریا برد کردیا ہے۔

یہ دعویٰ کرتے ہوئے اس حقیقت کو ڈھٹائی سے نظرانداز کیا جارہا ہے کہ آزادکشمیر اور گلگت-بلتستان میں جب بھی انتخاب ہوئے رائے دہندگان کی اکثریت نے عموماََ موقعہ پرستی نہیں بلکہ موقعہ شناسی کو بروئے کار لاتے ہوئے ہمیشہ اس جماعت کی حمایت میں ووٹ ڈالنے کو ترجیح دی جو اسلام آباد میں ’’وفاقی حکومت‘‘ کہلاتی ہے۔

مذکورہ روایت اتوار کے دن ہوئے انتخاب میں اپنی قوت کھوتی نظر آئی۔ تحریک انصاف یہ کالم لکھنے تک محض ’’واحد اکثریتی جماعت‘‘ کی صورت ابھرتی نظر آئی۔ دوسرے نمبر پر کوئی اور سیاسی جماعت نہیں بلکہ ’’آزاد امیدوار‘‘ اپنی اہمیت اجاگر کر رہے تھے۔ برسوں سے قائم یہ مفروضہ بھی لہٰذا دریا برد ہوا کہ وفاقی حکومت چلاتی سیاسی جماعت ہی گلگت-بلتستان کا انتخاب بآسانی جیت جاتی ہے۔

1984 سے عام انتخاب سے متعلق حرکیات Dynamics کو برسرِ زمین جاکر گرفت میں لانے کی عادت اپنائی تھی۔ عملی صحافت سے عرصہ ہوا اب ریٹائرہوچکا ہوں۔ کئی انتخابات کے قریبی مشاہدے کی بدولت اگرچہ یہ نتیجہ اخذ کرچکا ہوں کہ عام انتخابات دُنیا کے کسی بھی مقام پر ہوں ہمیشہ نئی حرکیات اور حقائق کو اجاگر کرتے ہیں۔

روایات کی بنیاد پر مفروضوں کو بروئے کار لاتے ہوئے لہٰذا انتخابی نتائج کے بارے میں عقل کل بنے تجزیہ کاروں کی طرح پیش گوئیوں سے اجتناب برتنا چاہیے۔رائے عامہ کے سروے کو باقاعدہ علم کی صورت مثال کے طور پر امریکہ نے دنیا بھر میں متعارف کروایا تھا۔

2016 میں ہوئے امریکی صدارتی انتخاب کے حوالے سے ایسے سروے مگر شرمناک حد تک غلط ثابت ہوئے تھے۔ 2020 کے صدارتی انتخاب میں بھی بائیڈن کی جیت کا اعلان کرتے سروے اندازہ ہی نہ لگا پائے کہ بائیڈن کی جیت ری پبلکن پارٹی کا صفایا نہیں کرے گی۔

ٹرمپ کو 2016 کی نسبت 2020 میں کہیں زیادہ تعداد میں پاپولر ووٹ ملیں گے۔ سینٹ میں اس کی جماعت اپنی قوت برقرار رکھے گی۔ وہاں کے ایوانِ زیریں میں بھی مزید نشستیں حاصل کرلے گی۔ انتخابی پیش گوئی کرنے والے سروے حال ہی میں بھارت کے تیسرے بڑے صوبے -بہار- کے ٹھوس حقائق دیکھنے کی سکت سے بھی یکسر محروم محسوس ہوئے ۔

’’تجزیہ کاروں‘‘ کو مگر اپنی ’’عقل‘‘ پربہت ناز ہوتا ہے۔ مفروضے گھڑ لیتے ہیں اور احمقانہ خود اعتمادی سے اسے دہرائے چلے جاتے ہیں۔ گلگت-بلتستان کے انتخابی عمل کا ’’جائزہ‘‘ لیتے ہوئے بھی ایسا ایک مفروضہ شد و مد سے پھیلایا گیا۔ ’’خبر‘‘ ہمیں یہ دی گئی کہ نواز شریف کے ’’غدار‘‘ بیانیے پر سوال اٹھانے کی بدولت پیپلز پارٹی کے جواں سال چیئرمین بلاول بھٹو زرداری’’مقتدرحلقوں‘‘ کے ’’نئے لاڈلے‘‘ کی صورت ابھر رہے ہیں۔

اسی بنیاد پر جو ’’سروے‘‘ ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ گلگت-بلتستان میں تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے مابین Neck to Neck مقابلہ ہوگا۔ پیپلزپارٹی اس کی وجہ سے ’’واحد اکثریتی جماعت‘‘ بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ ’’آزاد‘‘ امیدواروں کی قوت نے مگر اس مفروضے کو بالآخر دریا برد کر دیا ہے۔

بلاول بھٹو زرداری کو ’’نیا لاڈلا‘‘ بتاتے ہوئے یہ حقیقت فراموش کردی گئی تھی کہ موصوف 2018 سے مسلسل گلگت-بلتستان کے دورے کررہے تھے۔ قومی سطح کے وہ واحد رہ نما ہیں جو 15 نومبرکے انتخاب سے کئی ہفتے قبل گلگت-بلتستان چلے گئے۔ وہاں کے ہر حلقے کے کئی علاقوں کے انہوں نے بارہا دورے کئے۔ ان کی محنت اور لگن اگرچہ پیپلز پارٹی کے لئے گلگت-بلتستان میں کوئی Winning لہر یا Wave برپا نہ کرسکی۔ یہ حقیقت البتہ اجاگر ہوگئی کہ ان کی جماعت کا اس خطے میں ایک متحرک اور جاندار سیاسی قوت کی صورت تقریباََ احیا ہوگیا ہے۔

تحریک انصاف اور اس کے بہی خواہ بنیادی طور پر شاداں اس لئے محسوس کررہے ہیں نظر بظاہر حاضرین کی تعداد کے اعتبار سے متاثر کن جلسوں سے خطاب کے باوجود نواز شریف کی دختر اور سیاسی وارث انتخابی معرکے میں اپنا اثر دکھانے میں ناکام رہیں۔ مریم نواز شریف صاحبہ کی اس ’’ناکامی‘‘ کو نوازشریف کے ’’وطن دشمن‘‘ بیانیے کی عدم پذیرائی ٹھہرایا جا رہا ہے۔

سیاسی حقائق کو وطنِ عزیز میں اگر کوئی شخص واقعتا سنجیدگی سے زیر بحث لانا چاہتا ہے تو گلگت-بلتستان میں ’’آزاد‘‘ امیدواروں کی اہمیت اس کے لئے پریشان کن ہونا چاہیے۔ ’’آزاد‘‘ امیدواروں کی حیران کن تعداد میں کامیابی واضح طور پر یہ پیغام دے رہی ہے کہ رائے عامہ کی اکثریت تحریک انصاف سمیت کسی بھی سیاسی جماعت کے بیانیے کو جذباتی انداز میں نہیں اپنا رہی۔ مقامی طور پر با اثر تصور ہوتے افراد ہی سے امید باندھے ہوئے ہے کہ وہ ’’مقامی‘‘ مسائل کے حل کے لئے ’’جو بھی جیتے‘‘ اس کے کیمپ میں شامل ہوکر ’’ترقیاتی منصوبوں‘‘ کے لئے ریاستی رقوم حاصل کریں۔

برطانوی سامراج نے ہمارے خطے میں ’’بندوبستِ دوامی‘‘ کے بعد ایسا ہی نظام متعارف کروایا تھا۔نئی دلی میں براجمان ’’وائسرائے‘‘ کی سرپرستی میں ’’مقامی‘‘ شرفا اور معززین کی ایک کھیپ تیار ہوئی۔ یہ افراد ’’’سرکار‘‘ کو ’’مائی باپ‘‘‘ تسلیم کرتے اور اپنے علاقوں میں ’’ترقیاتی کاموں‘‘ کے لئے اس کی ’’شفقت‘‘ کے طلب گار رہتے۔ سیاسی اعتبار سے جسے Big Picture کہا جاتا ہے اس کی بابت کوئی سوال نہ اٹھاتے۔

اقبالؔ نے اس رویے کو ’’خوئے غلامی‘‘ ٹھہرایا تھا۔ 1946تک متحدہ پنجاب میں مسلسل برسراقتدار رہی ’’یونینسٹ پارٹی‘‘ اس رویے کی بھرپور نمائندہ تھی۔ 14اگست 1947سے چند ہی ماہ قبل مگر اس جماعت کو ’’تازہ خبر‘‘ یہ ملی کہ ’’خضر ساڈا بھائی‘‘ہوگیا۔ نسلوں سے ’’مائی باپ‘‘ کے وفادار رہے ’’یونینسٹ‘‘ اس کے بعد ’’مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ‘‘ والے نعرے پر لبیک کہنا شروع ہوگئے۔ ’’جیہڑاجتے اودھے نال‘‘ والی یہ عادت ہمارے وطن میں آج تک جاری ہے۔

گلگت-بلتستان کے حالیہ انتخاب نے ’’آزاد‘‘ امیدواروں کے ذریعے اس روایت کو ’’گج وج‘‘ کر بحال کیا ہے۔ پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں 2020 میں کرونا کی بدولت جو سوالات اٹھائے ہیں وہ اگرچہ مذکورہ ماڈل کی شکست و ریخت کو یقینی بنانے کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ یہ ’’ماڈل‘‘ کارآمد ہوتا تو اتوار کا سارا دن میرا موبائل فون بند نہ رہتا۔ پاکستان کے دیگر شہروں میں آباد میرے ہم وطنوں کو بخوبی علم ہوتا کہ راولپنڈی کو اسلام آباد سے ملانے والے مری روڈ پر درحقیقت کیا ہورہا ہے۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت

About The Author