اسلم اعوان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکی عوام نے پیچیدہ انتخابی معرکے کے ذریعے 78سالہ مسٹر جوبائیڈن کو امریکا کا چھیالیسواں صدر چن لیا ہے، ڈیموکریٹ امیدوارکی کامیابی کو دنیا بھر میں محدود ہوتی بنیادی آزادیوں اور تیزی سے پسپا ہوتے جمہوری تمدن کی تجدیدِ نو کی علامت طور پر لیا گیا ہے لیکن خود امریکا کے اندر اس ایشو پہ ایسا سنجیدہ اختلافِ رائے نشو و نما پاتا رہے گا جسے نمٹانا دشوار ہو گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ نومنتخب صدر کا امریکا سمیت دنیا بھر میں جمہوری آزادیوں کی تجدید کا عزم خود ریاست ہائے متحدہ امریکا کے ادارہ جاتی ڈھانچے کو اُن مہلک جھٹکوں سے بچانے کی تدابیر کا حصہ ہو جو سرمایہ دارانہ نظام اور جمہوری کلچر سے نجات کی کوششوں کے وبال کی صورت میں مملکت کو نقصان پہنچا سکتے تھے۔
بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ جس طرح صدر ٹرمپ نے انسانی اقدار کو پس پشت ڈال کے بلاجھجک نیشنل ازم اور استبدادیت کی جانب دو قدم آگے بڑھائے‘ اسی طرح جوبائیدن ایک قدم پیچھے ہٹ کے اُس ذہنی ہجرت کے مضمرات کو سنبھالنے کی کوشش کریں گے جس سے عالمی سطح پر طاقت کے توازن میں غیر معمولی تبدیلیاں رونما ہو سکتی تھیں؛ تاہم نومنتخب امریکی صدر کیلئے اس وسیع اور ہمہ گیر پیشقدمی کو پوری طرح لپیٹ لینا آسان نہیں ہو گا جسے امریکی مقتدرہ نے خود پچھلے چار سالوں کے دوران نہایت بے رحمی کے ساتھ فروغ دیا اور جسے نو منتخب صدر جو بائیڈن نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں یوں بیان کیا ”جنوری 2021ء کے صدر کو بکھرے ہوئے جمہوری تمدن کی کرچیاں چن کے دوبار جوڑنا پڑیں گی‘‘۔
عہدِ جدید کا فنِ حکمرانی‘ جو متضاد قوتوں کے تال میل اورفکر و خیال کے متنوع دھاروں میں ارتقائی توازن قائم رکھنے کا آرٹ سمجھا جاتاتھا‘ اب بدلتے ہوئے حالات اور پیراڈائم شفٹ کے دوران اپنے ناکافی مفاہیم کیلئے نئے معنی اور نئی اصطلاحات کا متلاشی دکھائی دیتا ہے۔ اس حقیقت سے اغماض ممکن نہیں کہ خود مغربی دنیا کیلئے بوجوہ سرمایہ دارانہ نظام کی افادیت بتدریج کم ہوئی اور اِس پھلتے پھولتے جمہوری تمدن میں اب اہلِ یورپ کیلئے کوئی کشش باقی نہیں رہی جو بلادِ مغرب میں سیاہ فام اور رنگدار لوگوں کا استقبال کرتا دکھائی دیتا ہے۔
اس وقت امریکا سمیت پوری مغربی دنیا میں ایشیائی لوگوں کی پھیلتی ہوئی آبادیاں سفید فام نسلوں کو تیزی سے مٹ جانے کے خوف میں مبتلا کر رہی ہیں۔ اہلِ مغرب سمجھتے ہیں اگر یہاں پاپولر جمہوریت اور اوپن مارکیٹ اکانومی کے نظام کو مزید پچاس سالوں تک قائم رکھا گیا تو بہت جلد دوسرے براعظموں سے نقل مکانی کر کے آنے والے باشندے مملکت کے اقتدارِ اعلیٰ پہ فائز اور ملٹی نیشنل کمپنیاں یورپ و امریکا کے قومی وسائل پر کامل تسلط پا کر ان کی تہذیبی اور سیاسی برتری کا خاتمہ کر دیں گی۔
کچھ عرصہ قبل سیاہ فام صدر براک اوباما اور اب انڈین اوریجن کی کملا ہیرس کی بطورِ نائب صدر کامیابی اسی رجحان کی غمازی کرتی ہے۔ 55 سالہ کملا ہیرس کی ماں ہندو تھی اور والد پروٹسٹنٹ عیسائی ہیں اور خود کملا نے 2014ء میں ایک یہودی سے شادی کی تھی۔ فطرت کے ہاتھوں مٹ جانے کے خوف نے امریکی مقتدرہ کے اندر جمہوری آزادیوں، بنیادی انسانی حقوق اور مارکیٹ اکانومی سسٹم سے نجات کی جس سوچ کو پروان چڑھایا، پچھلے چار سالوں میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسی سوچ کی ترجمانی کرتے دکھائی دیے۔ امریکا‘ جسے دنیا پہ حکمرانی کا موقع ملا‘ خود کو عقلی قومیت کا نقیب اورگلوبل ہیومین سوسائٹی کے قیام کا علمبردار سمجھتا تھا، اسے حالات کے جبر نے انسانیت کی حامل ہمہ گیر گلوبل سوچ کو ترک کر کے امریکی نیشنل ازم کے تنگ دائروں، نسل پرستی کے عمیق تعصب اوراستبدادی طرزِ حکمرانی کی حرکیات میں پناہ تلاش کرنے پہ مجبور کر دیا ہے۔ اسی مقصد کے حصول کی خاطر صدرٹرمپ دنیا کے سرمائے اور ذرائع ابلاغ پر کامل تصرف رکھنے والے یہودیوں کی مدد حاصل کرنے کی خاطر اسرائیلی مفادات کو آگے بڑھانے کیلئے کھلے عام مسلمانوں کی حق تلفی پہ اتر آئے تھے۔
تاریخ میں پہلی بار کسی امریکی صدر نے غیرجانبداری کو پسِ پشت ڈال کے مظلوم فلسطینیوں کے ”دو ریاستی نظریے‘‘ کو پامال کرتے ہوئے امریکی سفارتخانہ یروشلم منتقل کر کے عیسائیت، یہودیت اور اسلام کی مشترکہ میراث کو اسرائیل کی جھولی میں ڈال دیا۔ اسی صدر ٹرمپ نے دبائو ڈال کے عرب ممالک سے اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرانے کے علاوہ لیڈنگ مسلم مملکتوں اور صہیونی ریاست کے مابین غیر معمولی قربتوں کی راہ ہموار کی۔ گزشتہ دس سالوں کے دوران امریکی دانشوروں کے ذریعے جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام سے نجات کی خاطر مغربی معاشروں میں چین کے نظام کو مخصوص پیرائے میں آئیڈیلائز بنانے کی مہم شروع کرائی گئی، جس سے دنیا بھر کی استبدادی حکومتوں کو توانائی ملی۔ صدر ٹرمپ کی اِسی پالیسی کی بدولت ہر جگہ گروہی کشمکش کی شدت بڑھنے لگی۔
امریکا کے نومنتخب صدر جوبائیڈن نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں کہا ”آج جمہوریت 1930ء کی دہائی کے مقابلے میں زیادہ دباؤ میں ہے‘‘۔ فریڈم ہاؤس کی رپوٹ کے مطابق 1985ء سے 2005ء تک مستقل طور پر ”آزاد‘‘ درجہ بندی کرنے والے 41 ممالک میں سے 22 ملکوں میں گزشتہ پانچ سالوں کے دوران سیاسی آزادی میں کمی ریکارڈ کی گئی۔ ہانگ کانگ سے لے کر سوڈان تک اور چلی سے لے کر لبنان تک‘ شہری ایک بار پھر ایماندارانہ طرزِ حکمرانی کے فروغ اور بدعنوانی سے نجات کی مشترکہ تڑپ کی یاددہانی کرا رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا ”پہلے سال کے دوران‘ ریاستہائے متحدہ اپنی میزبانی میں دنیا کی آزاد اقوام کے جذبے اور مشترکہ مقصد کی تجدید کیلئے عالمی سمٹ برائے ڈیموکریسی کا انعقاد کرائے گی جس کے ذریعے اپنے جمہوری اداروں کو مضبوط بنانے کے علاوہ ایمانداری سے پسماندگی کی شکار اقوام کو مدد دینے کے مشترکہ ایجنڈے کی تشکیل کیلئے دنیا بھر کی جمہوری قوتوں کو اکٹھا کیا جائے گا، مریکا تین شعبوں کی تعمیرِ نو کو اپنی اولین ترجیح بنائے گا جن میں بدعنوانی کے خلاف جنگ، آمریت کے خلاف جمہوری آزادیوں کا دفاع اور اقوام میں انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا شامل ہو گا اور میں عالمی مالیاتی نظام میں شفافیت لانے کیلئے بین الاقوامی سطح پر کوششوں کی رہنمائی کے علاوہ ناجائز ٹیکس کے خاتمے اور پناہ گزینوں کے حقوق کی خود پیروی کروں گا‘‘۔
انہوں نے یہ بھی کہا ”جمہوریت کے فروغ کیلئے ہونے والے اجلاسوں میں دنیا بھر سے سول سوسائٹی کی تنظیمیں بھی شامل ہوں گی جو جمہوریت کے دفاع میں ہر محاذ پر کھڑی نظر آتی ہیں، سمٹ کے ممبران نجی شعبے کی ٹیکنالوجی اورسوشل میڈیا کی اُن کمپنیوں کو ریگولیٹ کرنے پہ بحث کریں گے‘ جن کو جمہوری معاشروں میں آزادیٔ اظہار کے تحفظ کی خاطر اپنی دلچسپی اور ذمہ داریوں کو قبول کرنا چاہئے تاکہ کوئی بدنیتی پر مبنی جھوٹ کو پھیلانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ ان کمپنیوں کو یہ یقینی بنانا ہو گا کہ ان کے ٹولز اور پلیٹ فارمز شہریوں کی نگرانی کیلئے ریاست کے ہتھیار اورشخصی رازداری کو متاثر تو نہیں کر رہے؟نفرت اور غلط اطلاع پھیلانے والے لوگوں کو تشدد کی طرف راغب تو نہیں کررہے۔
امریکا کی جمہوری بنیاد کو تقویت پہنچانے کیلئے ان ضروری اقدامات کے بعد میں دنیا بھر کے اپنے ساتھی جمہوری رہنماؤں کو جمہوریت کی مضبوطی کو عالمی ایجنڈے میں شامل کرنے کی دعوت دوں گا‘‘۔نو منتخب صدر جوبائیڈن کے ان خوبصورت ارشادات کے باوجود کسی جوہری تبدیلی کے آثار دکھائی نہیں دیتے کیونکہ جس طرح 2016ء میں ڈونلڈ ٹرمپ کو کامیاب کرانے کیلئے روسی مداخلت کے الزامات سامنے آئے تھے‘ بالکل اسی طرح دنیا کی مثالی جمہوریت میں ہارنے والے صدر ٹرمپ نے انتخابی عمل پہ نہیں بلکہ پہلی بار ملکی اسٹیبلشمنٹ پہ روس اور چین کے ساتھ مل کر انہیں شکست سے دوچار کرانے کے الزامات لگاکے جمہوریت کی ساکھ کو تباہ کر ڈالا ہے۔ پاکستان جیسے ممالک‘ جہاں ہر الیکشن میں دھاندلی کی گونج سنائی دیتی ہے‘ وہاں بھی ہارنے والی پارٹی نے کبھی دشمن ملکوں سے مل کر انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد نہیں کیے لیکن امریکا میں اب مقتدرہ پر دشمن ممالک سے سازباز اور الیکشن میں دھاندلی کے الزامات کو نہایت سنجیدگی سے لیا جائے گا۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ