رانامحبوب اختر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو بائیڈن معمولی نظر آنے والے ایک غیر معمولی انسان ہیں۔وہ امریکہ کے پہلے کالے صدر کے گورے نائب صدر تھے اور پہلی کالی خاتون نائب صدر کے گورے صدر ہوں گے۔ وہ 1970میں کونسلر منتخب ہوئے۔ 1973سے 2009تک سینٹر رہے اور 2009 سے 2017تک امریکہ کے نائب صدر تھے۔2020 کے امریکی انتخابات میں وہ ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست دے کر امریکہ کے چھیالیسویں صدر منتخب ہوئے ہیں۔کملا دیوی ہیرس ان کی نائب صدر ہیں۔کملا کی والدہ شمالہ گوپلان چنائی، تامل ناڈو سے تھیں اور ان کے والد ڈونلڈ جے ہیرس جمیکا سے امریکہ آئے۔وہ امریکہ کی پہلی انڈین امریکن، پہلی افریقن امریکن اور پہلی خاتون نائب صدر ہیں۔اس لحاظ سے یہ تاریخی الیکشن تھا جس میں پہلی بار ایک 78 سالہ شخص صدر بنے ہیں۔جیت کے بعد جو بائیڈن کی ٹیم کو سفید نسل پرستی اور کووڈ 19 جیسے چیلنجز کا سامنا ہوگا۔ ان امراض کے مارے عوام نے ٹرمپ کو شکست دی ہے۔ان کی حد سے بڑھی نرگسیت نے بھی کردار ادا کیا ہے۔ ایک لحاظ سے صدر ٹرمپ کا دور یادگار رہے گا کہ ان کے چار سالہ دورِصدارت میں امریکہ نے کسی دوسرے ملک پر حملہ نہیں کیا۔امید ہے صدر بائیڈن بھی بیرونی اقوام پر حملہ نہ کرنے کی پالیسی جاری رکھیں گے اور ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس سے مجبور ہو کر نئے وار تھیٹر نہیں کھولیں گے ۔ ان کی وکٹری سپیچ امید افزا تھی۔صدر ٹرمپ نے اپنی شکست تسلیم نہیں کی ہے۔امید ہے کہ بالآخر بہتر احساس غالب آئے گا۔امریکی عوام نئے دور کی شروعات کریں گے اور کووڈ کے عذاب سے بھی نجات پائیں گے!
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ دنیا کے عوام کو جن بڑے عالمی مسائل کا سامنا ہے، ان سے نمٹنے کی صلاحیت گلوبل مقتدرہ میں عنقا ہے۔ریاستیں عوام کی اکثریت کی بجائے مفاد پرست kleptocracyکو تحفظ دینے پر لگی ہیں۔کارپوریٹ میڈیا، سوشل میڈیا اور سیاست کاروں کی اکثریت نے مکالمے کو trivializeکر دیا ہے۔صدر ٹرمپ، بورس جانسن، ہنگری کے اربان، ترکی کے اردوان، نریندرا مودی اور برازیل کے بولسینارو جیسوں نے سیاست کو رجعت آشنا کیا ہے۔وہ کم بختوں کے مسیحا ہیں۔ترقی پسند بیانیہ حاشیے پر چلا گیا ہے۔حیرت کی بات ہے کہ امریکہ کے محروم لوگ صدر ٹرمپ کو مسیحا سمجھتے ہیں اور اب بھی بڑی تعداد میں ان کو ووٹ دیا ہے۔کہ ڈیموکریٹک پارٹی کارپوریٹ مفادات کی پارٹی بن گئی تھی اور 2016 میں صدر ٹرمپ کی جیت ڈیموکریٹک پارٹی کی پالیسیوں کا منطقی نتیجہ تھی!
نوح ہراری کے مطابق ہمارے گولے کو ایٹمی جنگ، ماحولیاتی آفات ، مصنوعی ذہانت سے پیدا ہونے والی بے روزگاری اور ڈیجیٹل کیپیٹل ازم جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔ان سے نمٹنے کے لئے روایتی اشرافیہ کی صلاحیت اور نیت مشکوک ہے۔نطشے نے مہابیانیے کی موت کے بعد نئی اخلاقیات کی بات کی تھی۔ پھر دو عالمی جنگیں ہوئیں کہ دنیا کے پاس قبضے اور دولت کے حصول کے علاوہ کوئی برتر اخلاقی بیانیہ نہ تھا۔عورت کے ہونٹوں پر سرخی سے سیخ پا ہونے والے ہٹلر نے دنیا کو خون کے لال رنگ میں نہلا دیا تھا اور خود ایک عورت کی گود میں سسکیاں لیتے مر گیا تھا۔دنیا کو آج نئی بین لاقوامی اخلاقیات کی ضرورت ہے۔مذہب، سوشلزم ، رجعت پسندی ، لبرل ازم اور جمہوریت پر کھلا مکالمہ درکار ہے۔مذہب اور سوشل ازم دونوں انسانوں کے لئے بہتر مستقبل کا خواب دیکھتے ہیں۔دونوں میں فرق یہ ہے کہ مذہب ایک اور دنیا اور سوشل ازم اسی دنیا میں رحمتوں کا نزول چاہتا ہے۔مگر دونوں ہی اجتماعیت کی قربان گاہ پر فرد کو بَلی چڑھاتے ہیں۔اور انسانیت طاقتور کے گھٹنے کے نیچے جارج فلائیڈ کی طرح سسکتی ہے۔آکسیجن کی کمی سے مر سکتی ہے۔ایٹمی جنگ کے دھویں میں تحلیل ہو سکتی ہے۔روبوٹس اور ڈیٹا کمپنیوں کی غلام بن سکتی ہے۔انسان کو ڈیجیٹل آمریتوں سے بچانے کوئی مسیحا نہیں آئے گا۔فلسفیوں، دانشوروں اور ریاست دانوں کو یہ کام کرنا ہے۔مگر جب تک عوام روشن خیال بیانیے کی طاقت سے سیاسی رہنماؤں کو مجبور نہیں کرتے کسی با معنی تبدیلی کا خواب دیکھنا عبث ہے۔ دانشوروں ، ریاستدانوں اور عوام کے مابین عالمی مکالمے کو اہمیت اور مرکزیت دینا ضروری ہے۔اورمکالمے کی جدلیات میں پرائم ٹائم پروگرامز اور کالموں سے زیادہ کتاب اور روشن خیال سنجیدہ فکر کو بڑھاوا دینا اہم ہے۔ مگر یہ مشکل کام ہے!پروفیسر ناصر عباس نیر پوسٹ ماڈرن دنیا کے ایک روشن دماغ دانشور اور نقاد ہیں۔ان کے ایک مضمون ” دانشور اور سماجی تبدیلی ” سے ایک اقتباس دیکھئے:
‘عوامی منطقہ سماجی زندگی کا وہ علاقہ ہے ،جہاں مشترکہ دل چسپی کے موضوعات پر گفتگوئیں ہوتی ہیں؛بحث ومکالمہ ہوتا ہے؛متضاد ومتصادم نظریات پر تبادلہ خیال ہوتا ہے۔دانش وری کا عمل خیالات کی تخلیق سے شروع ہوتا ہے،، ترسیل کے جدید ذرائع سے ہوتا ہوا عوامی منطقے تک پہنچتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سماجی تبدیلیوں کی آماج گاہ یہی عوامی منطقہ ہے۔ جن خیالات ،یا جس طبقے کے خیالات کو عوامی منطقے تک جتنی آسان اور مئوثر رسائی حاصل ہوتی ہے ،وہی تبدیلیاں لاتے ہیں۔
عوامی منطقہ ایک ایسا میدان ثابت ہوا ہے جہاں ہر وقت خیالات، نظریات اور تصورات کا حشر برپا ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب اصل جنگیں اسی منطقے میں لڑی جاتی ہیں۔ اس پر قبضے ، اجارے کی کوشش ہوتی ہے۔اس اجارے کے ذریعے ایک طرف معلومات وخیالات پر قابو رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے،اور دوسری طرف واقعات کی نمائندگی کے طریقوں پر حاوی ہونے کی سعی کی جاتی ہے۔ آج کے عوامی اور غیر وابستہ دانش وروں کے سامنے دو بڑے مسائل ہیں۔ پہلا مسئلہ عوامی منطقے تک رسائی ہے۔ اس وقت اس منطقے پر برقی میڈیا اور اخباری کالم نگاروں کا اجارہ ہے۔کتاب اس منطقے سے تقریبا غائب ہے……۔شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے یہاں دانش وری کا دوسرا مطلب دانش ورانہ مؤقف لیا گیا ہے۔چناں چہ یہ لوگ مسائل اور واقعات کے سلسلے میں ایک واضح ،روشن خیالی و عقلیت پسندی پر مبنی مئوقف تو اختیار کرتے ہیں،مگر روشن خیالی و عقلیت پسندی جس نئے علم کی تخلیق کا تقاضا کرتی ہے، وہ نظر نہیں آتا۔ یہ علم ذمہ دار مگر غیر وابستہ دانش وروں کی کتابوں میں ضرور موجود ہے، مگر وہ سماجی تبدیلی کے کسی عمل میں اس لیے شریک نظر نہیں آتیں کہ کتاب عوامی منطقے کے حاشیے پر ہے۔
عوامی اور غیر وابستہ دانش وروں کو دوسرا اہم مسئلہ جو درپیش ہے،وہ زبان سے تعلق رکھتا ہے۔سب جانتے ہیں کہ زبان ایک غیر جانب دار ذریعہ ابلاغ ہوتی ہے ؛وہ ہر قبیل کے آدمی کو ہر طرح کی بات ظاہر کرنے کی سہولت بہم پہنچاتی ہے؛زبان کے لیے کوئی کافر ہے نہ مسلمان،مگرنو آبادیاتی عہد میں زبانوں کی مذہبی و قومی شناختیں کیا قائم ہوئیں کہ ان میں ہر قبیل کے آدمی کو ہر بات کہنے کا حوصلہ نہیں رہا۔اس امر کا احساس اس وقت شدید ہوتا ہے جب ہم انگریزی اور اردو کے عوامی منطقوں میں مقابلہ کرتے ہیں؛دونوں میں قطبین کا بعد ہے۔ انگریزی میں روشن خیال،آزادانہ فکر بڑی حد تک کسی خوف کے بغیر ظاہر کی جاسکتی ہے،مگر اردو میں روشن خیالی،تکثیریت،سیکولر فکر،مابعد جدیدیت جیسے الفاظ گالی کا درجہ اختیار کرتے جارہے ہیں۔اردو کے روشن خیال مصنفوں کو لکھتے ہوئے ،اس قدر احتیاط سے کام لینا پڑتا ہے کہ بعض اوقات ان کی تحریر ابہام کا شکار ہوکر مضحکہ خیز ہوجاتی ہے۔اکثر اوقات اردو مصنفین خوفِ فسادِ خلق کے پیشِ نظر اپنی دانش ورانہ تحریروں کو اشعار سے مزین کرتے ہیں یا شاعرانہ پیرایہ اختیار کرتے ہیں تاکہ بالواسطہ اپنی بات پہنچا سکیں ”
یہ اقتباس پاکستان یا ہندوستان کی طرح امریکہ میں "روایتی دانش” کے دیوالیہ پن اور مکالمے کی پست صورت ِحال پر بھی صادق آتا ہے۔فرید ذکریا نے illiberal democracy کی ٹرم وضع کی تھی۔جس کا مطلب یہ ہے کہ کس طرح ایک بہ ظاہر جمہوری حکومت آزادانہ اور عوام دوست فکر کا گلا گھونٹتی ہے۔صدر ٹرمپ میڈیا کو فیک کہتے اور نسل پرستی کا دفاع کرتے تھے۔کورونا فراریت ،خلطِ مبحث اور بیس ہزار سے زیادہ جھوٹ امریکہ کو فکری رہنما سے ٹیک لیڈر کی سطح پر لے آئے ہیں۔1801 میں جان ایڈمز کے بعد صدر ٹرمپ امریکہ کے دوسرے صدر ہیں جو انتخابات کے نتائج قبول کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔ایسے میں مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو دیکھنے کی ضرورت ہے ۔جبکہ صدر بائیڈن کے لئے غریب اور محروم عوام کی حمایت، تکثیریت، متوازن قوم پرستی اور باہمی احترام پر مبنی بین الاقوامیت کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے۔ورنہ 2024 میں 78 سالہ ٹرمپ امریکہ میں تہلکہ مچا دیں گے!امریکی دوستوں کو جو بائیڈن کی صدارت مبارک ہو!!
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ