رؤف لُنڈ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صوفی تاج گوپانگ
جو نثر ، شاعری ، محفلوں ، میلوں، مجلسوں ، سیاسی جلسوں ، احتجاجی پروگراموں ، اقوال، مثالوں اور قہقہوں میں زندہ رہا اور ان سب کیفیتوں کو زندگی بخشتا رہا۔ زندہ رہنے کی ڈگر پر چلتے صوفی تاج گوپانگ کا راستہ کوئی نہ روک سکا تو ایسی بیماری نے آن لیا جس نے صوفی تاج گوپانگ کا زیورِ گویائی چھین لیا۔
صوفی تاج گوپانگ نے ہار نہیں مانی وہ گونگی زبان کی للکار بنا رہا۔ بولنے سے عاری زبان والے کا دماغ اور ہاتھوں کی صلاحیت میں نکھار آگیا۔ اور وہ اپنی باتیں سوشل میڈیا کے ذریعے تاریخ کے حوالے کرتا رہا ۔ بیماری نے اور تیزی دکھائی کہ چلنے پھرنے کی طاقت پر حملہ آور ہوئی۔ مگر صوفی تاج گوپانگ نے ہار نہیں مانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جن دوستوں کا سہارا بنا وھی اس کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر اس کا سہارا بنتے اور صوفی تاج گوپانگ ہر شادی غمی میں پہنچ جاتا ۔ اس سرمایہ دارانہ طبقاتی نظام کی خباثت کی اور کیا مثال ہو کہ ایک اشرف مخلوق ، ایک انسان سے قابلِ علاج بیماری جیت جائے۔ صوفی تاج گوپانگ مرتے دم تک جینا چاہتا تھا مگر بیماری نے مفلوج کردیا۔
بے کار کردیا۔ ہر عمل سے عاری کردیا۔ ہر محفل سے جدا کرلیا۔ صوفی تاج گوپانگ نے ایسی حالت میں سانس لینے کو اپنی توہین سمجھا اور ہمیشہ کیلئے چلا گیا۔۔۔۔۔۔ آج کے دن اس کو اپنی مٹی کے حوالے کردیا جائیگا مگر وہ اپنوں میں زندہ رہیگا۔ اکھانڑوں (اقوال ) کی شکل میں، دانش کی شکل میں اور قہقہوں کی شکل میں ۔۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ