آفتاب احمد گورائیہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موجودہ حکومت جب سے برسرِ اقتدار آئی ہے مسلسل بحرانوں کی زد میں ہے۔ کبھی مُلک میں پٹرول کا بحران تو کبھی آٹے کا، کبھی چینی کی قلت ہو جاتی ہے تو کبھی گندم کی۰ حکومت کو ڈھائی سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ معاملات کو کیسے چلایا جائے۔ ہر بحران کے بعد کچھ افسروں کا تبادلہ ہوتا ہے یا وزیروں کے محکمے بدل دئیے جاتے ہیں اور نااہل وزیر ایک محکمے کا خانہ خراب کر کے دوسرے محکمے میں چلے جاتے ہیں۔ لگتا ہے کہ موجودہ حکومت کو اصل بحران اہلیت کا درپیش ہے جس کی وجہ سے موجودہ حکومت بُری طرح بیڈگورننس کا شکار ہے۔ کبھی ضرورت کے مطابق پٹرول درآمد کرنا بھول جاتے ہیں، کبھی گندم کی پیداوار اور ذخیرے کا درست تخمینہ لگانے میں ناکام رہتے ہیں اور کبھی گندم اور چینی زیادہ برآمد کر دیتے ہیں جس سے ملک میں گندم اور چینی کی قلت ہو جاتی ہے۔ حکومت ان سب بحرانوں کا ذمہ دار مافیاز کو ٹھہرا کر بری الذمہ ہو جاتی ہے۔ موجودہ حکومت مافیاز کا نام تو بہت لیتی ہے لیکن مافیاز پر قابو پانے میں مکمل طور پر ناکام نظر آتی ہے کیونکہ سارے مافیاز تو حکومت کے دائیں بائیں بیٹھے نظر آتے ہیں۔
ابھی حال ہی میں مُلک میں گندم اور آٹے کی قلت پیدا ہو گئی تھی جس پر قابو پانے کے لئے حکومت کو باہر سے گندم منگوانا کرنا پڑی ہے۔ مہنگی گندم درآمد کرنے کی وجہ سے آٹے کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے اور پہلے سے مہنگائی کے ہاتھوں نڈھال عوام کے لئے دو وقت کی روٹی کھانا بھی مشکل ہو چکا ہے۰ پاکستان بنیادی طور پر زرعی ملک ہے جبکہ گندم کی پیداوار میں پاکستان دنیا بھر میں آٹھویں نمبر پر آتا ہے اس کے باوجود اگر ہمیں گندم باہر سے منگوانا پڑے تو یہ اربابِ اختیار و اقتدار کے لئے یقیناً لمحہ فکریہ ہے۔ اس سال گندم کی پیداوار اور ذخیرے کا درست تخمینہ نہ لگایا جا سکا جس کی وجہ سے ملک میں گندم کا بحران پیدا ہوا۔ سب سے زیادہ گندم پیدا کرنے والے صوبہ پنجاب میں گندم کی پیداوار اور خریداری کا ہدف پورا نہ ہو سکا۰حکومت نے کسانوں سے زبردستی چودہ سو روپے فی من پر گندم خریدی جو بعد میں پچیس سو سے ستائس سو روپے فی من تک منڈیوں میں فروخت ہوتی رہی۰ حکومتی سطح پر لاعلمی اور نااہلی کا یہ عالم ہے کہ بجائے گندم درآمد کرنے کی نوبت آنے پر شرمندگی کا اظہار کیا جاتا، وزیر بحری امور اس بات کا کریڈٹ لینے کی کوشش کرتا رہا کہ ہم نے گندم درآمد کر لی ہے اور گندم لے کر آنے والے جہاز برتھوں پر لگ گئے ہیں اس لئے ملک میں جلد ہی گندم کی قلت کا خاتمہ ہو جائے گا۰
اس سال تو باہر سے مہنگے داموں گندم منگوا کر وقتی طور پر گندم کی قلت کو دور کر لیا گیا لیکن اس کا سارا بوجھ غریب عوام پر لاد دیا گیا ہے جو پچھتر روپے فی کلو آٹا خرید کر کھانے پر مجبور ہے۰ اگلے سال بھی گندم کا بحران شدید ہونے کا امکان ہے کیونکہ حکومت کی طرف سے گندم کی قلت سے بچنے کے لئے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جا رہا۰ صوبہ پنجاب سب سے زیادہ گندم پیدا کرتا ہے لیکن پنجاب حکومت نے اگلے سال کے لئے گندم کی امدادی قیمت سولہ سو روپے فی من مقرر کی ہے جو گندم کے کاشتکاروں کے لئے قابلِ قبول نہیں۰ کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ کھاد اور زرعی ادویات کی قیمتوں میں بے پناہ اضافے کی بنا پر فصل کی لاگت بہت بڑھ چکی ہے اور اس قیمت سے گندم کی پیداواری لاگت بھی پوری نہیں ہوتی۰ گندم کی فصل بہت سے کسانوں کے لئے مرکزی فصل کی حیثیت رکھتی ہے اور گندم کی فصل سے حاصل ہونے والی رقم سے ہی کسان کا گھر بار اور سارے کام چلتے ہیں۰ اگر کسان گندم کی پیداواری لاگت ہی پوری نہیں کر پائے گا تو اپنا گھر بار کیسے چلائے گا اور اگلی فصل کی کاشت کے لئے رقم کہاں سے لائے گا۰
پیپلزپارٹی کے پچھلے دورِ حکومت کے آغاز پر سال دو ہزار آٹھ میں بھی ملک میں گندم کی کمی تھی لیکن پیپلزپارٹی کی حکومت نے گندم کی امدادی قیمت چھ سو پچیس روپے فی من سے بڑھا کر نو سو پچاس روپے فی من مقرر کر دی جس کے نتیجے میں گندم کی پیداوار میں ریکارڈ اضافہ ہوا، گودام بھر گئےاور گندم کی قلت کا خاتمہ ہو گیا۰ اب بھی سندھ حکومت نے اگلے سال کے لئے گندم کی امدادی قیمت دو ہزار روپے فی من مقرر کر کے نہ صرف کسان دوستی کا ثبوت دیا ہے بلکہ کسانوں کے لئے زیادہ گندم کاشت کرنے کی ترغیب بھی پیدا کر دی ہے۰ یاد رہے سندھ گندم پیدا کرنے والا دوسرا بڑا صوبہ ہے۰ اس کے علاوہ سندھ وہ واحد صوبہ ہے جِس نے اس سال بھی گندم کی پیداوار اور خریداری کا ہدف حاصل کیا ہے۔
غریب کسان جو پہلے ہی پیداواری لاگت میں ہوشربا اضافے اور جنس کی قیمت نہ بڑھنے کی وجہ سے معاشی بدحالی کا شکار ہے اور قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے اسے وفاقی اور پنجاب حکومت کی جانب سے گندم کی امدادی قیمت میں نہ ہونے کے برابر اضافے نے احتجاج پر مجبور کر دیا ہے۔
پچھلے کئی روز سے پنجاب کے کسان لاہور میں دھرنا دئیے ہوئے ہیں لیکن حکومت کی طرف سے کسی نے بھی کسانوں کے مطالبات پر بات کرنے کی زحمت تک گوارا نہیں کی۰ الٹا دھرنے میں شریک کسانوں کو منتشر کرنے کے لئے پولیس نے کسانوں پر بدترین تشدد کیا ہے اور کیمیکل ملا پانی پھینکا ہے جس سے ایک کسان جان بحق ہو گیا ہے۰ اس کسان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ گندم کی امدادی قیمت میں اضافے پر احتجاج کر رہا تھا تاکہ وہ اپنی فصل کی لاگت پورا کر سکے۰ لیکن انصاف والوں کی حکومت میں یہ ناقابل معافی جرم ٹھہرا۰ تادمِ تحریر پولیس تشدد سے ہلاک ہونے والے کسان کے قتل کا مقدمہ بھی درج نہیں ہو سکا اور ایسا اس تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں ہو رہا ہے جو ماضی میں اپنے اپوزیشن کے دنوں میں ہر ہفتے جلسہ جلوس کیا کرتی تھی اور جس نے امپائر کے اشارے پر ایک سو چھبیس دن دھرنا دئیے رکھا، پارلیمنٹ کے جنگلے اکھاڑے، پی ٹی وی کی عمارت پر قبضہ کیا، سپریم کورٹ کی دیواروں پر شلواریں لٹکائیں لیکن آج وہی تحریک انصاف حکومت میں آنے کے بعد کسی کو احتجاج کی اجازت دینے سے گریزاں نظر آتی ہے۰ پورے مُلک کے لئے اناج پیدا کرنے والے پُر امن کسانوں پر بدترین تشدد اور ایک کسان کی ہلاکت تحریک انصاف کی حکومت کے دامن پر وہ سیاہ دھبہ ہے جس سے تحریک انصاف کبھی بھی دامن نہیں چھڑا سکے گی۰ تحریک انصاف کی بظاہر ایک جمہوری حکومت نے اپنی فسطائیت سے آمرانہ دورِ حکومت کا ریکارڈ بھی توڑ دیا ہے۔
اگلے سال بھی گندم کی کمی سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ کسانوں کی معاونت کی جائے اور گندم کی امدادی قیمت میں اضافے کے جائز مطالبے پر غور کیا جائے کیونکہ آنے والے سیزن میں گندم کی زیادہ مقدار میں کاشت کے لیے اس کی امدادی قیمت میں اضافہ ناگزیر ہے۰ حکومت اگر باہر سے دو ہزار روپے فی من سے بھی زیادہ قیمت پر گندم منگوا سکتی ہے تو یہی دو ہزار روپے فی من قیمت اپنے مقامی کسان کو کیوں نہیں دے سکتی اس سے کسان بھی خوشحال ہو گا اور گندم باہر سے منگوانے پر خرچ ہونے والے کثیر زرِمبادلہ کی بھی بچت ہو گی جس کے معیشت پر بھی اچھے اثرات مرتب ہوں گے۰ سندھ حکومت پہلے ہی گندم کی امدادی قیمت دو ہزار روپے فی من مقرر کرکے وفاقی حکومت اور دوسرے صوبوں کے لئے مثال قائم کر چکی ہے۔
پاکستان کہنے کو ایک زرعی ملک ہے لیکن حکومت کا رویہ زراعت اور کسان کے لئے سوتیلی ماں جیسا ہے۰ پاکستان کا موسم اور سونا اُگلتی زمین ہر قسم کی فصل اور پھلوں کی کاشت کے لئے نہایت موزوں ہے لیکن پاکستان کا کسان دن بدن معاشی بدحالی کا شکار ہوتا جا رہا ہے جس کی بنیادی وجہ اس کو اپنی پیداوار کی اچھی قیمت نہ ملنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسان بددل ہو کر دوسرے کام دھندے کی طرف متوجہ ہو رہا ہے جس سے نہ صرف شہروں کی طرف ہجرت کا رحجان بڑھ رہا ہے اور شہروں پر آبادی کا دباو بڑھ رہا ہے بلکہ عالمی منڈیوں میں زرِ کثیر کمانے والی اجناس کی پیداوار میں بھی مسلسل کمی کا رحجان دیکھنے میں آ رہا ہے جس سے مُلکی معیشت پر بھی بُرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۰ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی سطح پر ایک جامع زرعی پالیسی مرتب کی جائے جس سے نہ صرف کسان کو اس کی فصل کا مناسب معاوضہ مل سکے بلکہ فی ایکڑ پیداوار میں بھی عالمی معیار کے مطابق اضافہ ہو سکے، اس کے ساتھ ساتھ زرعی ادویات اور کھاد وغیرہ کی قیمتوں پر بھی مناسب چیک رکھا جائے تاکہ پیداواری لاگت بھی کنٹرول میں رہے۔ ہمیں پہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ کِسان کی خوشحالی میں ہی مُلک کی خوشحالی ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر