نومبر 8, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کیا اچھی بیوی بننا عورت کی توہین ہے؟ ۔۔محمد عامر خاکوانی

سوشل میڈیا کے منفی پہلو بہت سے ہیں، اتنے کہ خاکسار کئی کالموں کی سیریز لکھ سکتا ہے۔ مثبت پہلو بھی مگر کم نہیں

محمد عامر خاکوانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 کسی اور موضوع پر کالم لکھنے کا ارادہ تھا، مگر پھر اپنی عادت کے مطابق مختلف ویب سائٹس وزٹ کرتے ہوئے ایک معروف عالمی خبر رساں ایجنسی کی سائٹ پر سٹوری نے چونکایا۔ سید قاسم علی معروف موٹیویشنل سپیکر، ٹرینر اور مصنف ہیں۔ سائٹ کے فرنٹ پیج پر قاسم علی شاہ کی تصویر کے نیچے دو سطریں لکھی تھیں، ’’کیا عورت کو بس ماں، بیوی ہی بننا ہوتا ہے، ان کی اپنی کوئی زندگی نہیں۔‘‘
پہلے تو میں نے سوچا کہ شائداس ویب سائٹ نے قاسم علی شاہ کا کالم شروع کر دیا۔اس پر کچھ حیرت بھی ہوئی کیونکہ جو شخص اللہ رسول ﷺ کا نام لیتا ہو،واصف علی واصف، اشفاق احمدجیسے صوفی لکھاریوں کا حوالہ دیتا ہو، جو سرفراز شاہ صاحب جیسے صاحب عرفان بزرگوں سے طالب علمانہ تعلق پر فخر کرتا ہو، ایسے افراد غیر ملکی نیوز ویب سائٹس یا جرائد کے لئے شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ایک آدھ ہی ایسی ویب سائٹ ہوگی ، جس میںاتنی کشادگی اور ظرف ہو کہ وہ ہر نقطہ نظر کو شائع کرے ۔ نیوزفیچر کو پڑھا تو پہلے اطمینان کا سانس لیا کہ اندازہ غلط نہیں ہوا۔
پتہ چلا کہ سید قاسم علی شاہ کے کسی لیکچر کے ویڈیو کلپ پر ہنگامہ برپا ہے۔ ویڈیو کلپ میں کہاگیا تھا،’’اچھی بیوی کیسے بننا ہے، یہ کہیں نہیں پڑھایا جاتا۔آپ کسی سکول میں چلے جائیں، میٹر ک کی ڈگری تک ، دس برسوں میں یہ نہیں سکھایا جاتا۔حالانکہ ایک عورت کی زندگی میں ان دو کرداروں کی بڑی اہمیت ہے، ان میں سے ایک کرداراچھی بیوی کا ہے اور دوسرا اچھی ماں کا۔ یہ سکول میں نہیں پڑھایا جاتا، کالج میں نہیں پڑھایا جاتا، یونیورسٹی میں نہیں پڑھایا جاتا۔جو ذریعہ رہ گیا کہ اچھی ماں اور اچھی بیوی کیسی ہوتی ہے، وہ ٹریننگ کا ذریعہ ہے گھر ۔
یعنی بچی اپنی ماں کو دیکھے اور سیکھے۔ ‘‘ دلچسپ بات یہ ہے کہ ویڈیو کلپ سال ڈیڑھ سال پرانا ہے، ایک ملین سے زیادہ لوگ اسے دیکھ چکے ہیں، اب کہیں جا کر وہ پھر سے وائرل ہوا اور اس بار یہ ہمارے لبرلز کے ہتھے چڑھ گیا۔ فارسی کے ایک ممتاز شاعر کی نظم پر بعض مولوی صاحبان نے اعتراض کیا تو وہ جھنجھلا کر بولا، پہلے کوئی مجھے یہ بتائے کہ میرے شعروں کو مدرسے میں کون لے گیا؟قاسم علی شاہ بھی یہ شکوہ کر سکتے ہیں کہ میرے لیکچر معقول لوگوں کے لئے ہوتے ہیں، مذہب سے محبت کرنے والوں کے لئے، اپنی اخلاقی قدروں، دیسی کلچر کو عزیز رکھنے والوں کے لئے۔ ان لیکچرز کو’’ علاقہ غیر ‘‘تک کس نے پہنچا دیا؟ اسی نیوز فیچررپورٹ کے مطابق کلپ پر سوشل میڈیا میں ہنگامہ برپا ہے۔ دو تین اعتراضات نقل بھی کئے گئے۔
ایک خاتون نے کہا،’’ ہم اس بارے میں کبھی بات نہیں کرتے کہ کیا ملازم پیشہ مرد اچھے شوہر بن سکتے ہیں؟‘‘بعض ٹوئٹر صارفین نے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا لڑکیا ں دنیا میں صرف بیوی بننے اور بچے پیدا کرنے آئی ہے،ان کی زندگی کا اور کوئی مقصد نہیں؟ ایک پرجوش خاتون نے سیدھا لڑکیوں کو شادی نہ کرنے کا مشورہ دے ڈالا، ان کا فرمانا تھا،’’شادی سے اجتناب کریں۔ یہ(یعنی شادی)پچھلی صدی کی بات ہے۔
ان مردوں کویہ یقین دلانے کا موقعہ نہ دیں کہ شادی ہی واحد یا حتمی چیز ہے جس کی آپ کو خواہش کرنی چاہیے،یہ کائنات بہت بڑی ہے اوربہت کچھ کرنا اور دیکھنا ابھی باقی ہے۔‘‘انہی خاتون نے معروف پاکستانی نژادپارسی سائنس دان نرگس ماولوالا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ لاکھوں نوری سال کے فاصلے پر کشش ثقل کا پتہ چلانے میں لگی ہے۔فٹ بال ، کرکٹ ، آرٹ ،فوٹو گرافی، میوزک آپ کچھ بھی کر سکتی ہیں، جو کرنا چاہتی ہیں کریں اورلطف اٹھائیں۔
اگر آپ کسی پاکستانی مرد سے شادی شدہ ہیں تو ایسا کچھ نہیں کر سکتیں، پاکستانی مرد آپ کو باندھ دے گا، آپ کے پروں کو کاٹ دے گا،کھانے پکانے، صفائی ستھرائی ، کپڑے دھونے اور لنگوٹ تبدیل کرنے میں لگا دے گااور آ پ کے لئے وقت نہیں بچے گا۔‘‘یہ عفیفہ شائد ایک بات بتاتے بتاتے رک گئیں کہ سائنس دان بی بی نرگس ماولوالا تو ہم جنس پرست ہیں اور ایک اور عورت کے ساتھ بطور خاوند زندگی بسر کرتی ہیں۔
ایک دلچسپ ٹوئٹ معروف سیاستدان جہانگیر ترین کے اکلوتے صاحبزادے علی ترین نے بھی کیا، موصوف لودھراں سے قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن ہارنے کے بعد سیاست سے توبہ تائب ہوگئے، آج کل کرکٹ بگاڑنے میں منہمک ہیں۔علی ترین لکھتے ہیں:’’کوئی معاشرہ کیسے ترقی کر سکتا ہے،اگر اس میں خواتین کی کامیابی کا معیار اچھی بیوی بننا ہے؟اس میں ان کا قصور نہیں، جس معاشرے میں ہم بڑے ہو رہے ہیں، وہ معاشرہ ہی ایسا ہے۔ ‘‘علی ترین نے قاسم علی شاہ کو اپنا ذہن کھولنے اور معروف مغربی کلچرل انتھروپولوجسٹ مارگریٹ میڈ کی کتابیں پڑھنے کا مشورہ دیا۔یہ خاکسار بھی ان بدقسمتوں میں شامل ہے جس نے مارگریٹ میڈ کی کتابیں نہیں پڑھ رکھیں۔ سنا ہے کہ مارگریٹ میڈ کو مغرب کے روایتی ثقافتی سیکس ٹرینڈز کو بدلنے اور وسیع کرنے کا ’’شرف ‘‘حاصل ہے۔ جس بندے کا ویڈیو کلپ ہے، اس سے ویب سائٹ نے دو سطری موقف لینے کی بھی زحمت نہیں کی کہ کہیں ان کے نقطہ نظر کے حق میں دلائل نہ چھاپنے پڑ جائیں۔
یہ صحافتی اینگلنگ کا مخصوص طریقہ ہے ۔ اب آتے ہیںکلپ میں بیان کردہ اصل نکتے کی جانب۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ عورت کی زندگی کے دو اہم ترین کردار بیوی اور ماں بننا ہیں اور اس حوالے سے کسی تعلیمی ادارے، اکیڈمی ، ٹریننگ سینٹر میں کچھ بھی نہیں سکھایا جاتا۔ مجھے اس اعتراض کی سمجھ نہیں آئی کہ اچھی بیوی بننے کی بات کیو ں کی جا رہی ہے؟ تو اور کیا بری بیوی، گندی بیوی ، بری ماں بننے کی بات کی جائے؟ رہی یہ بات کہ اچھی بیوی کی تربیت کی بات ہو رہی ہے تو اچھا خاوند بننے کی بات کیوں نہیں کی جاتی؟ بھئی اس بات کو بھی ایجنڈے میں شامل کر لیں۔
اچھا خاوند بننا بھی سکھا دیں، کس نے روکا ہے؟ یہ بات عرصے سے ذہن میں تھی کہ آخر ہمارے ہاں کسی بھی جگہ پر ایسی کوئی تربیتی ورکشاپ نہیں ہوتی جہاں دولہا ، دلہن بننے سے پہلے لڑکے اور لڑکی کو جاکر کچھ بنیادی چیزیں سیکھنی چاہئیں۔ ظاہر ہے میں الگ الگ ورکشاپ کی بات کر رہا ہوں۔ میرا اشارہ سیکس ایجوکیشن کی طرف نہیں، ویسے اگر کہیں پر سلیقے سے اس بارے میں بھی آگہی دے دی جائے توکیا برائی ہے؟بہت سے لڑکے اپنے خواہ مخواہ کے واہموں کے باعث عطائیوں، نام نہاد حکیموں کے پاس جاتے اور کشتے کھا کر اپنے گردے تباہ کر بیٹھتے ہیں، خیر سردست یہ ہمارا موضوع نہیں۔ میرا تو کہنا ہے کہ ایک نئے رشتے میں جڑنے والوں کو اس رشتے کے تقاضے،آنے والی ذمہ داریوں، انہیں نبھانے کے ڈھنگ سکھانے چاہئیں۔
دراصل ایک بنیادی فرق کا ادراک اعتراض کرنے والوں نے نہیں کیا کہ اچھے خاوند اور اچھی بیوی کے چیلنجزمختلف نوعیت کے ہیں۔ مرد شادی کے بعد اسی گھر، اسی کمرے میں رہے گا، وہی ملازمت کرے گا، اس کے ماحول میں جوہری تبدیلی نہیں آئے گی۔ اسے زیادہ ذمہ دار ہونے کی ضرورت ہے۔یہ سیکھنا چاہیے کہ نئی دلہن کا کس طرح دل جیتنا ہے، اس کی ضرورتوں کا خیال رکھنا، ایڈجسٹمنٹ میں مدد فراہم کرنا ہے۔ لڑکی کے چیلنجز زیادہ بڑے ہیں۔ اسے اپنا گھر چھوڑ کر نئے گھراور بیشتر کیسز میں اجنبی خاندان میں آنا پڑتا ہے۔ اس کی زندگی کا پیٹرن بالکل بدل جائے گا، ملبوسات ، جیولری، میک اپ کے انداز تک مختلف ہوجائیں گے۔سسرالی فیملی کے ساتھ ڈیلنگ سیکھنا پڑے گی۔ خانہ داری اگر نہیں آتی تو مشکل بڑھ جائے گی۔
چاہے وہ جتنی بڑی پروفیشنل ہو، اس سے توقع کی جائے گی کہ کبھی نہ کبھی تو کچھ کوکنگ کرے۔ زندگی میں پہلی بار اسے باقاعدہ میزبان بن کر مہمان داری کرنا ہوگی۔ سسرال کی خوشی ، غمی میں خاندان کی نمائندہ کے طور پر جانا ہوگا، جہاںکوئی مرد نہیں بلکہ اس کی اپنی صنف کی خواتین ہی اسے ججمنٹ کا نشانہ بنائیں گی۔اس کی ڈریس سینس،میک اپ، بات چیت کا طریقہ، اخلاق وغیرہ زیر بحث آئے گا۔ اسے اپنے سونے اٹھنے کے معمولات بدلنے ہوں گے۔ ایک اجنبی مرد کے ساتھ اسے اپنا بستر ، باتھ روم، کمرہ شیئر کرنا پڑے گا۔ یہ سب بالکل نیا اور چیلنجنگ ہے۔ اس کے لئے تربیت دینے میں کیا حرج ہے؟
یہ چیزیں ایک آدھ ورکشاپ سے نہیں آ سکتیں۔ مردوں کے لئے ورکشاپ سے کام چل جائے گا، لڑکیوں کو صرف کوکنگ سکھانے میں کئی ہفتوں کے کورسز درکار ہیں۔ تھوڑی بہت سلائی کڑھائی، گھر داری، بجٹ مینجمنٹ، سسرال والوں کے ساتھ ہینڈلنگ وغیرہ … اگر اس کے لئے گرلز سکولوں، کالجز میں ایک الگ سے مضمون پڑھایا جائے تو کتنا فائدہ ہوسکتا ہے؟ ماں بننا ایک بالکل ہی الگ مرحلہ ہے۔ بچے کو پالنا، اس کی پرورش کرنا، تربیت کرنا سب سے بڑا چیلنج ہے، اس کے لئے الگ سے کورسز کرائے جانے چاہئیں۔ ایک لڑکی خواہ کتنی اچھی ڈاکٹر، انجینئر، بینکر، وکیل، اداکارہ، ٹیچر یا کھلاڑی ہو ، آخر کار بیوی بننا اور پھر خوش قسمتی سے ماں کا درجہ لینا اس کی زندگی کے اہم ترین موڑ ہیں۔ سوائے کمپلیکس زدہ ہم جنس پرست خواتین کے، ہر ایک کو ان مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔نئی نسل کو سنوارنے والوں کی اپنی تعلیم اور تربیت کی بات کرنے پر اعتراض کیوں ؟ کیا ہمارے لبرلز ہماری مذہبی روایات اور اخلاقی قدروں کے ساتھ اب خاندان اور گھر کے ادارے کو بھی تباہ کرنا چاہتے ہیں؟

About The Author