اشفاق نمیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنازے میں بمشکل پچاس لوگ ہوں گے تھے جنازے کے بعد لوگوں نے تعزیت کرنا چاہی لیکن تلاش کے باوجود وہاں لواحقین موجود نہ تھے مرنے والے کا ایک بیٹا تھا جو لندن میں تھا اور والد کی آخری رسومات میں وقت کی کمی کے باعث شرکت نہ کر سکا بیٹے کے علاوہ کوئی دوسرا ایسا شخص موجود نہیں تھا جس سے تعزیت کی جا سکتی لہذا لوگوں نے کچھ دیر ادھر ادھر دیکھنے کے بعد جانا شروع کر دیا
جب تدفین کرنے لگے تو اس وقت قبرستان میں چھ لوگ تھے جن میں مستنصر حسین تارڑ جو ان مرحوم کے عزیز ترین دوست تھے دوسرا آدمی مرحوم کا پبلشر تھا باقی چار لوگ گھریلو ملازم تھے جو آخری وقت تک صاحب کا ساتھ دینا چاہتے تھے میت کو قبر میں رکھا گیا مٹی ڈال دی گئی تازہ مٹی پر پھول نہ ہونے کی وجہ سے درخت کی سبز شاخ لگا دی گئی گورکن نے قبر پر چھڑکاؤ کیا اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے، تدفین میں مصروف لوگوں بھی دعا میں شامل ہو گئے اور اس طرح ملک کے سب سے بڑے ادیب، بڑے ناول نگار منوں مٹی تلے ہمیشہ کی نیند سو گئے یہ ایک داستان تھی جو 4 جولائی 2015ء کو ڈی ایچ اے لاہور کے قبرستان میں ہمیشہ کے لیے دفن ہو گئی
یہ مشہور ادیب ناول نگار ” عبداللہ حسین ” تھے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ پاکستان نے 68 سالوں میں بین الاقوامی سطح کا صرف ایک ناول نگار پیدا کیا ہے اور وہ ناول نگار عبداللہ حسین تھے عبداللہ حسین 14 اگست 1931ء میں راولپنڈی میں پیدا ہوئے ان کا اصل نام محمد خان تھا وہ سولہ سال کے تھے جب ہندوستان تقسیم ہوا قیام پاکستان کے دوران انسان کے روپ سے اتنا متنفر ہوۓ کہ وہ مذہب اور انسانیت دونوں کے باغی ہو گئے تقسیم کے واقعات نے عبداللہ حسین کے ذہن پر انمٹ خوفناک اثرات چھوڑے، وہ 1952ء میں داؤدخیل کی سیمنٹ فیکٹری میں بطور انجینئر کام کرتے تھے، انھوں نے وہاں قلم اٹھایا اور ’’اداس نسلوں‘‘ کے نام سے اردو زبان کا عظیم شاہکار تخلیق کیا اس ناول میں ان نسلوں کا نوحہ تھا جنھوں نے تقسیم ہند کے دوران پرورش پائی اور یہ کندھوں پر اداسی کی صلیب اٹھا کر زندگی گزارنے پر مجبور ہوئیں یہ ناول عبداللہ حسین نے 32 سال کی عمر میں لکھا صدر پاکستان ایوب خان نے انھیں 34 سال کی عمر میں ادب کا سب سے بڑا اعزاز ’’آدم جی ایوارڈ‘‘ دیا
عبداللہ حسین برطانیہ شفٹ ہو گئے اور 40 سال تک برطانیہ میں رہے برطانیہ میں قیام کے دوران انہوں نے دو ناول اور لکھے دو ناولٹ بھی لکھے اوردرجن بھر افسانے بھی لکھے عبداللہ حسین نے ایک ناول انگریزی زبان میں بھی لکھا عبداللہ حسین کا سارا ادبی کام اردو ادب کا سرمایہ ہے
عبداللہ حسین خون کے سرطان میں مبتلا تھے وہ اس بیماری سے لڑتے رہے اور آخر کار 4 جولائی 2015ء کو 84 سال کی عمر میں لاہور میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے
عبداللہ حسین کے اپنی بیگم کے ساتھ تعلقات ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے وہ ان کے ساتھ پاکستان نہ آئیں اور وہ برطانیہ میں ہی رہ گئیں بیٹا بھی لندن میں رہتا تھا وہ بھی جنازے پر نہ آ سکا عبداالہ حسین کی وفات کی اطلاع عطاء الحق قاسمی نے دی اور اس طرح کوئی پچاس لوگ ملک کے عظیم ادیب کی آخری رسومات میں شامل ہوئے
ہم لوگ کام، شہرت اور دولت کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں اور اس دوڑ میں اپنے پیاروں کو اور خاندان کو بہت پیچھے چھوڑ دیتے ہیں ہمیں اس بات کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب زندگی کی شام ہونے والی ہوتی ہے لیکن تب بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے ہمارے اردگرد ایسے بے شمار لوگ ہوں جو اپنے بچوں کے بچپن کو اس لیے وقت نہیں دے سکتے کہ یہ بچوں کے اعلیٰ مستقبل کے لیے دولت جمع کر رہے ہوتے ہیں جب بچے بڑے ہوئے تو انھوں نے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے باہر بھجوا دیا اور بچے وہیں کے ہو کر رہ گئے اور یوں ان کو ان کے ملازمین نے دفن کیا ہمارے ارد گرد ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو زندگی میں دولت اور شہرت کے غرور کے نشے میں رہتے ہیں لیکن جب یہ مرتے ہیں تو کوئی ان کی قبر پر فاتحہ تک کے لیے نہیں آتا
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ