نومبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نئے امکانات، نئی امیدیں۔۔محمد عامر خاکوانی

سوشل میڈیا کے منفی پہلو بہت سے ہیں، اتنے کہ خاکسار کئی کالموں کی سیریز لکھ سکتا ہے۔ مثبت پہلو بھی مگر کم نہیں

محمد عامر خاکوانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سوشل میڈیا کے منفی پہلو بہت سے ہیں، اتنے کہ خاکسار کئی کالموں کی سیریز لکھ سکتا ہے۔ مثبت پہلو بھی مگر کم نہیں۔ سوشل میڈیا ایک وسیع اصطلاح ہے۔عام طور پر فیس بک اور ٹوئٹرکا ذکر مقصود ہوتا ہے۔ فیس بک کو ایک ایڈوانٹیج ہے کہ واٹس ایپ جیسی بڑی میسجنگ سائٹ کی ملکیت اس کے پاس ہے، انسٹا گرام بھی فیس بک گروپ کا حصہ ہے۔ ٹوئٹر نے تن تنہا اپنی اہمیت اور قوت منوائی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں اہم شخصیات اور سماج کے فعال طبقات ٹوئٹر زیادہ استعمال کرتے ہیں۔پاکستان میں بھی ٹوئٹر ٹرینڈز اور ٹوئٹس کی خاص اہمیت ہے۔ فیس بک کا مزاج نسبتاً زیادہ عوامی ہے۔فیس بک مڈل کلاس کی سوچ کو زیادہ بہتر طریقے سے بیان کرتی ہے ۔ یاد رہے کہ کسی بھی سماج کا سب سے اہم اور سوچنے، سمجھنے، لکھنے والا طبقہ مڈل کلاس سے نکلتا ہے۔ سیاسی ، نظریاتی، ادبی، علمی تحریکیں یہیں سے جنم لیتی ہیں ۔ لوئر کلاس اور اپر کلاس کے دیگر مسائل بہت سے ہیں۔ ان میں سے کچھ ایسی تحریکوں میں ضرور شامل ہوتے ہیں،مگران کی تعداد چند فیصد سے زیادہ نہیں۔ لکھنے لکھانے کے خواہش مندوں کے لئے فیس بک ہی مناسب فورم ہے کہ ٹوئٹر پر تحریر کی ایک حد مقرر ہے۔ 140الفاظ سے زیادہ الفاظ پر مشتمل ٹوئٹ کرنا ممکن نہیں۔ فیس بک پر آپ دو ڈھائی ہزار الفاظ یا اس سے زیادہ طویل پوسٹ بھی کر سکتے ہیں۔مجھے ذاتی طور پر فیس بک زیادہ پسند ہے۔ اگرچہ ٹوئٹر کی طرح فیس بک پر بھی سیاسی جماعتو ں کے حامی جتھوں کی شکل میں حملہ آور ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ کسی سیاسی لیڈر کے خلاف سٹیٹس لکھا جائے، فوری اس کے حامیوں کی یلغار ہوجائے گی، نہایت بدتمیزی اور بے شرمی سے وہ گھٹیا ذاتی حملے کریں گے، دشنام طرازی کی انتہا کر دی جائے گی۔ اسی طوفان بدتمیزی کی وجہ سے کئی سینئر صحافی اور کالم نگار فیس بک چھوڑ چکے ہیں۔ یہ مسائل اپنی جگہ، ان کے حل کا طریقہ نکالنا پڑے گا، مگر سوشل میڈیا پر موجودگی تجزیہ کاروں ، لکھاریوں کے لئے ضروری ہو گئی ہے۔ اپنی تحریروں پر فوری فیڈ بیک حاصل کرنے کا اور کوئی طریقہ نہیں۔ کبھی خط لکھے جاتے تھے، پھر ای میلز کا رجحان ہوا ، ٹیکسٹ میسجز نے ای میلز کا خاتمہ کیا اور اب فیس بک نے ان سب کی جگہ لے لی۔ ٹوئٹر زیادہ ترلوگ فوری خبر حاصل کرنے یا مختلف ایشوز، خبروں پر اپنا ردعمل دینے جاتے ہیں۔ ٹوئٹر پر مختلف ٹرینڈز چلتے رہتے ہیں، ہر ایک اپنی دلچسپی کے مطابق ٹرینڈ میں شامل ہو کر اپنا کمنٹ داغ دیتا ہے۔ فیس بک پرٹوئٹر کی طرح کے منضبط ٹرینڈ نہیں، مگر یہاں پر بھی بیشتر اوقات لہر سی آتی ہے۔ کسی اہم واقعے پر درجنوں بلکہ سینکڑوں پوسٹیں لکھ دی جاتی ہیں۔فیس بک پر سیاست کے علاوہ شعر وادب ، موسم، ماحول اور زندگی کے تہہ در تہہ پہلوئوں پر بہت سی خوبصورت تحریریں مل جاتی ہیں۔ فیس بک پر خواتین کی بڑی تعداد موجود ہے۔ ایسی گھریلو خواتین جن کا باہر کی دنیا سے کوئی خاص رابطہ نہیں، وہ بھی فیس بک کے آئینے سے باہر جھانک لیتی ہیں۔کل بہاولپور میں مقیم اپنی بڑی بہن سے بات ہو رہی تھیں۔ باجی زیادہ سوشل نہیں ، گھر پر وقت گزرتا ہے۔ ڈائجسٹ بڑے شوق سے پڑھتی تھیں، چار رسالے گھر آتے تھے۔ بتانے لگیں کہ اب ان کی تعداد نصف کر دی ہے کہ خاصاوقت فیس بک کے دلچسپ سٹیٹس پڑھنے میں گزر جاتا ہے۔مزے کی بات ہے کہ ٹیکنالوجی سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں، فیس بک آئی ڈی بھی بچوں نے بنا دی ہوگی۔ فیس بک پر بے شمار گروپ ہیں، ادبی، سیاسی، مسلکی،نظریاتی بحثیں وہاں چلتی رہتی ہیں۔ بہت سے گروپ صرف گپ شپ کے لئے بنائے گئے۔میری اہلیہ نے کچھ عرصہ پہلے بتایا کہ انکے حلقہ کی کچھ خواتین نے ایک گروپ ’’میری سلطنت ‘‘کے نام سے بنایا، جس میں بڑی چھان بین کے بعد صرف خواتین کو ممبر بنایا جاتا ہے۔ اب تو شائد یہ گروپ ڈھائی تین ہزار ممبران تک پھیل گیا ہے۔ صرف خواتین کا گروپ ہونے کا فائدہ یہ ہے کہ بہت سی نئی شادی شدہ لڑکیاں یا دیگر گھریلو خواتین اپنے عملی مسائل ڈسکس کر لیتی ہیں۔ کوئی خاص ڈش درست نہیں پک رہی، اس پر مشورہ لے لیا۔ بچوں کے مسائل،ساس بہو کے دیرینہ تنازعات سلجھانے کا طریقہ ،اپنی بنائی ڈشز کی شیئرنگ اور جی چاہا تو کسی بھی ہلکے پھلکے موضوع پر لکھ ڈالا۔ یہ سب سن کر بہت اچھا لگا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے توسط سے خیالات، تصورات اور مسئلے مسائل کی شیئرنگ کس قدر آسان ہوگئی ہے۔ارد و ٹائپ کرنے کی دقت اب ختم ہوگئی ۔ موبائل پر مفت میں ایسے کی بورڈ انسٹال کئے جا سکتے ہیں جو رومن میں لکھے کا اردو میں ترجمہ کر دیتے ہیں۔صرف بول کر بھی جملے ٹائپ ہوسکتے ہیں۔ اردو کو ٹیکنالوجی نے یہ غیر متوقع فائدہ پہنچایا۔ فیس بک کے توسط ہی سے اردو پڑھنے اور لکھنے والوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ ایک بڑی کھیپ نئے لکھنے والوں کی سامنے آئی ہے۔ پچھلے چند برسوں میں کئی بہت عمدہ لکھنے والے سامنے آئے ہیں۔ کئی اعلیٰ درجے کی لکھاری خواتین نے اپنی تحریروں سے خود کو منوایا ہے، زارا مظہر، رابعہ خرم درانی،نیئر تاباں، راحیلہ ساجد، ربیعہ بخاری، جویریہ ساجد،جویریہ سعید وغیرہ کی تحریر یں کسی بھی پروفیشنل لکھاری سے کم نہیں۔ان خواتین کا ادبی ، علمی ذوق پہلے سے تھا، مطالعہ کے شغف نے زبان اور لفظوں پر کنٹرول عطا کر دیا۔ جب لکھنا شروع کیا تو نمایاں ہوگئیں۔ اردو کے مستقبل کے حوالے سے خدشات ظاہر کئے جاتے رہے ہیں۔ جون ایلیا مرحوم تو تیس سال کی مدت دیتے تھے جس کے بعد اردو دم توڑ دے گی۔ میرے خیال میں فیس بک نے پورا منظرنامہ بدل دیا ہے۔ اب سینکڑوں ، ہزاروں لکھنے والوں کی نئی کھیپ آ چکی ہے۔ تازہ ذہن اور گہرے مشاہدے کے ساتھ یہ لوگ بغیر کسی مصلحت کے لکھ رہے ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں اردو کے نئے قارئین پیدا ہوچکے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اردو ادب کی پوری تاریخ میں اتنے قارئین موجود نہیں تھے، جتنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی بدولت مل گئے ۔ ماضی کے بڑے مشہور ادبی رسالے بھی چند سو یا چند ہزار سے زیادہ شائع نہیں ہوتے تھے۔آج فیس بک کی بدولت بالکل نئے لکھنے والے کی کوئی تحریر ہزاروں لاکھوں لوگوں تک پہنچ جاتی ہے، اس کا کو ئی ٹکڑا واٹس ایپ میسج کے ذریعے ارد ودنیا کے کونے کونے تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ بالکل نیا منظر ہے، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ قارئین کے معیار پر سوال اٹھایا جا سکتا ہے، ان کا ایکسپوژر اور وسعت مطالعہ زیادہ نہیں۔ایک دقت یہ بھی ہے کہ نوے فیصد سے زیادہ لوگ موبائل پر فیس بک پڑھتے ہیں، جہاں طویل تحریر پڑھنا مشکل ہے۔اس لئے مختصر سٹیٹس زیادہ مقبول ہوجاتے ہیں۔ ایک خطرہ یہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ مختصر سٹیٹس کتاب کلچر کو نقصان پہنچائیں گے، لوگوں کا سٹیمنا کم ہوجائے گا۔ یہ مسئلہ ہے، مگرکتابیں چھاپنے والے پبلشرز کو سوشل میڈیا مارکیٹنگ کی وجہ سے بڑا فائدہ ہوا ۔ اچھے پبلشر سلیقے سے فیس بک، واٹس ایپ پر مارکیٹ کر کے چند ہفتوں یا دو تین ماہ میں پہلا ایڈیشن فروخت کر دیتے ہیں۔آن لائن فروخت سے بک سٹور والے درمیان سے نکل گئے ہیں، کتاب براہ راست قاری کے گھر پہنچ جاتی ہے۔بک سٹور والے پبلشرز کا باقاعدہ استحصال کرتے تھے، پچاس فیصد پر کتاب لی اور اسے بیچنے کے سال بعد پیسے دئیے ، وہ بھی ترسا ترسا کر۔ آن لائن فروخت اور کیش آن ڈیلیوری کی سروس نے یہ ٹنٹا ہی ختم کر دیا۔ ٹیلی گرام ایک ایسی ایپ ہے، جس پر ماضی میںہمارے ہاںپابندی تھی، اب عام استعمال ہو رہی ہے۔ ٹیلی گرام کے چینل(گروپ)کے ذریعے کئی نایاب کتب تک رسائی ہوئی، جبکہ بہت سی فلموں ، سیزن کو ڈائون لوڈ کرنے کا موقعہ مل سکا۔ ٹیلی گرام پر کئی دوستوں نے درس قرآن اور قرآن فہمی کا سلسلہ جاری کر رکھا ہے۔ فیس بک پر بھی بے شمار ایسے گروپ ہیں، جہاں اللہ ، رسول ﷺ کی ، خیر کی باتیں ہوتی ہیں۔ یہ سب اپنی بات کہنے، آگے بڑھانے کے نئے امکانات ہیں۔ ہم سارا دن منفی باتیں کرتے، مایوسیوں کا زہر ایک دوسرے کے کانوں میں انڈیلتے ہیں۔ سوشل میڈیا کو گٹر میڈیا اور نجانے کیا کیا کہتے رہتے ہیں،کیا ہی اچھا ہو کہ کبھی چند لمحوں کے لئے رک کر ان مثبت نکات پر بھی نظر ڈال لیں۔ سب کچھ غلط اور منفی نہیں ہو رہا۔ ٹیکنالوجی کا مثبت استعمال بھی ہو رہا ہے۔ ہمیں صرف اپنا حصہ ڈالنے کی ضرورت ہے۔

About The Author