ملک سراج احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی اور شائد بات بہت دور تک نکل گئی ہے۔ملک کی سیاسی اشرافیہ کی غیر محتاط بیان بازی نے سیاسی بساط کو الجھا کر رکھ دیا ہے۔آئے روز ایک نیا بیان نئی سیاسی بحث کوجنم دیتا ہے۔ابھی یہ بحث ختم نہیں ہوئی ہوتی کہ ایک اور بیان سامنے آجاتا ہے۔ایک غیر اہم اور لاحاصل سیاسی جگالی نے ملک کے سیاسی ماحول میں تناو سا پیدا کردیا ہے ۔پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ن لیگ کے رہنما میاں نواز شریف کی گوجرانوالہ اور کوئٹہ کے جلسوں میں کی گئی تقاریر نے نا صرف ان کے ناقدین بلکہ ان کے حمایتیوں اور خیر خواہوں کو بھی ششدر کرکے رکھ دیا۔میاں نوازشریف نے اپنی پہلی تقریر میں اعلان جنگ کردیا جبکہ دوسری تقریر میں گویا اس عزم کا اعادہ کیا کہ ناں کھیڈاں گے ناں کھیڈن دیاں گے ۔میاں نوازشریف کے بعد ان کی صاحبزادی مریم نوازصاحبہ کی تقاریر نے اس بات پر مہر ثبت کردی کہ ان کے نزدیک یہ فیصلہ کن معرکہ ہے اور اب اس جنگ میں یا تخت یا پھر تختہ اور وہ دونوں نتائج کے لیے تیار ہیں۔
علاج کی غرض سے لندن میں مقیم میاں نوازشریف کا بیانیہ اس قدر بھاری تھا کہ سوال پیدا ہوگیا کہ کیا ن لیگ اس بیانیے کا بوجھ اٹھا سکے گی ؟ اس کے جواب میں مختلف آرا سامنے آئیں۔لیکن جیسے جیسے وقت گذرتا جارہا ہے جہاں میاں نوازشریف کے موقف میں سختی بڑھتی جارہی ہے ویسے ویسے ن لیگ میں دراڑیں پڑنا شروع ہوگئی ہیں ۔ن لیگ شائد اپنے قائد کے بیانات کا بوجھ اٹھانے کو تیار نظر نہیں آتی ۔اطلاعات کے مطابق ن لیگ کے معتدل مزاج رہنما اپنے قائد کے موقف پر پریشان نظر آتے ہیں اور وہ اس حد تک جانے کو تیار نہیں کہ جہاں سے واپسی کا راستہ نا رہے ۔سیاست دان ہمیشہ مذاکرات کا راستہ کھلا رکھتے ہیں تاہم ان کو لگتا ہے کہ ان کے قائد کے بیانات نے واپسی کی تمام راہیں مسدود کردی ہیں۔سیاست میں حکومتی پالیسیوں پر تنقید اور ایشوز پر اختلاف رائے معمول کی بات سمجھی جاتی ہے اور اس کا حل مذاکرات ہی ہوتے ہیں۔تاہم اس وقت جو صورتحال ہے اس میں فریقین کے موقف کی سختی کے سبب مذاکرات کے امکانات آئے روز کم ہوتے جارہے ہیں
ابھی میاں نواز شریف کے بیانات کی بازگشت ختم نہیں ہوئی تھی کہ بدھ کے روز قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوے ن لیگ کے رہنما وسابق اسپیکرایاز صادق کا بیان گویا اونٹ پر آخری تنکا ثابت ہوا۔ایاز صادق نے کہا کہ پاکستان کو انڈیا کی جانب سے حملے کا ڈر تھا اور اسی لیئے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے انڈین پائیلٹ ابھینندن کی رہائی کے لیے گھٹنے ٹیک دئیے۔اس بیان نے گویا جلتی پر تیل کا کام کیا۔ایک تو اس بیان پر انڈین میڈیا نے آسمان سر پر اٹھا لیا دوسرے پاکستان میں بھی اس بیان کو عوامی سطح پر سخت ناپسند کیا گیا۔اس بیان پر عوامی ردعمل اتنا شدید تھا کہ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل افتخار بابرنے ایک پریس کانفرنس میں بظاہر اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوے کہا کہ انڈیا کو منہ کی کھانا پڑی اور یہ بات انہیں اب تک تکلیف میں مبتلا کیے ہوے ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک ایسا بیان دیا گیا جس کے ذریعے قومی سلامتی سے منسلک ملکی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی۔
اس کے بعد ن لیگی رہنما ایاز صادق کے بیان کی ہرسطح پر مذمت شروع ہوگئی اور یہ اتنی شدید ہوئی کہ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو اظہار یکجہتی کے لیے ایاز صادق کی رہائش گاہ پر آنا پڑا۔اس ضمن میں اس سے قبل ایاز صادق نے ایک وضاحتی بیان بھی جاری کیا مگر شائد دیر ہوچکی تھی۔اس بیان کے بعد فرنٹ فٹ پر کھیلتی ہوی ن لیگ کو دفاعی انداز اپنانا پڑگیا۔ ن لیگ کے اندر موجود پارٹی ورکرز اور قائدین کی ایک بڑی تعداد نے اس بیان کو پسند نہیں کیا اور ایاز صادق کی وضاحت سے مطمئن نہیں ہوئے اور ن لیگ کے راہنماوں کی طرف سے اس بیان سے لاتعلقی کے اعلانات سامنے آنا شروع ہوگیا۔لگتا یہی ہے کہ موجودہ صورتحال میں ن لیگ کے اندر بھی میاں نوازشریف اور ایاز صادق کے بیانات کو ممکنہ حمایت نہیں مل رہی ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ بلوچستان سے مسلم لیگ ن کے صوبائی صدرریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل عبدالقادر بلوچ نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔گوکہ اس کی وجہ کوئٹہ جلسہ میں ثنا اللہ زہری کو مدعو ناکرنا بتایا گیا مگر مستعفیٰ ہونے کا وقت قابل غور ہے
بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ ن لیگ کے اندر اپنے قائد کے بیانیے سے انحراف کا عمل شروع ہوچکا ہے اور عبدالقادر بلوچ شائد بارش کا پہلا قطرہ بنے ہیں ۔اطلاعات مل رہی ہیں کہ موجودہ صورتحال میں ن لیگ کے موقف کی وجہ سے بہت سے لوگ شائد پارٹی چھوڑ جائیں گے۔ان کی تعداد کتنی ہوگی اور اس میں کون کون سی اہم شخصیات شامل ہوں گی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ تاہم ان مصدقہ اطلاعات کے مطابق یہ تو طے ہے کہ ن لیگ میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو گیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ بظاہر ن لیگ کی اس ڈوبتی کشی سے پہلے کون چھلانگ لگاتاہے۔اس ضمن میں آئندہ چند روز انتہائی اہم ہیں۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا میاں نواز شریف کے بیانیے میں کوئی تبدیلی آئے گی یا نہیں۔سوال یہ ہے کہ ن لیگ مزید کتنی دیر اپنے قائد کے بیان کا بوجھ اٹھا سکے گی۔سوال یہ ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتیں مزید کتنی دیر اس بیانیے کا ساتھ دیں گی۔سوال یہ ہے کہ کیا ن لیگ اس لڑائی کو فیصلہ کن بنائے گی یا کہیں پر مذاکرات کی گنجائش موجود ہے۔ان سوالات کے جواب تو میاں نوازشریف دے سکتے ہیں۔ تا ہم موجودہ حالات کے تناظر میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر ن لیگ کی قیادت نے اپنے بیانیے پر نظر ثانی نا کی تو ن کے لیے مشکلات بڑھیں گی اور شائد ن لیگ کے دیرینہ ساتھی ہی اپنی سیاسی راہیں الگ کرلیں۔سلسلہ شروع ہو گیا ہے اب فیصلہ میاں نواز شریف پرہے کہ وہ کس حد تک جاتے ہیں۔فی الحال تو ن لیگ تیزی سے انا للہ و انا الیہ راجعون کی جانب بڑھ رہی ہے۔
تحریر: ملک سراج احمد
براے رابطہ 03334429707
وٹس ایپ 03352644777
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ