عمران بھٹی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیرہ غازی خان اور انڈین پنجاب کےسلطانی ھندو
انڈین پنجاب میں ڈیرہ سخی سرور کی یادگار یں
ڈیرہ میں رام گنگا ندی اور ڈوور کی زیارت گاہ
زیارت پر پابندی یا 100 روپے فیس جرمانہ
مقبرہ بنانے والے۔مسلم اورھندو کے نام
سکھ کے نزدیک مقام۔ڈیرہ کی اہمیت
زیارت کےلیے علاقے اور دنوں کی تقسیم
(گل بہار گہنورآنی سخی سرور) ۔ ضلع جالندھر کے گزٹیئر انگریزوں کے مطابق
” اجمالی طور پر ہندو آبادی دو حصوں میں تقسیم ہو سکتی ہے۔ گرو کے سکھ یعنی🔹 سکھ اور سلطانی جو ڈیرہ غازی خان کے ایک مسلمان پیر کے جسے🔺 سخی سلطان یا لکھ داتا بھی کہتے ہیں، پیرو ہیں۔ ۔ ۔ ۔ زراعت پیشہ ہندوؤں میں سلطانیوں کی اکثریت ہے۔ ۔
…….. سخی سرور کی یادگار یں
۔ ۔ ان کے دیہاتوں کے باہر سلطان کی زیارتیں (مصنوعی مقبرہ) ہوتی ہیں۔ ، وہاں رات کو چراغ جلائے جاتے ہیں۔ جمعرات کو اس زیارات کا نگہبان جو مسلمان ہوتا ہے اور شام کو ڈھول لے کر جاتا ہے اور نیاز اکٹھی کرتا ہے۔ “
ضلع لدھیانہ کے گزئیٹر میں بھی
۔ سلطانیوں کی سب سے بڑی رسم سخی سلطان کے مزار کی زیارت ہے، جو وسط فروری میں شروع ہوتی ہے اور بھرائی اپنے اپنے علاقوں سے قافلوں کی صورت میں ڈیرہ غازی خان کی صرف نکلتے ہیں،
……….رام۔گنگا ندی اور ڈیرہ غازیخان.
اور نیچے سخی سرور سے کچھ فاصلے پر رام گنگا نامی ایک بارہما ندی تھی۔
ہندوؤں نے بیساکھی کے دن اس ندی میں مقدس غسل کیا کرتے تھے …….عمران بھٹی پوسٹ
…………ڈوور کی زیارت……….
۔ بیساکھی میلے سے سخی سرور سے واپسی۔پر ، عقیدت مندوں کی ایک بڑی تعداد نے سخی سرور اور ڈی جی خان کے مابین وڈور میں چند گھنٹوں کے لئے رکنا۔ ڈی جی خان شہر سے 10 کلومیٹر دور وڈور میں سخی سرور کے بھائی خان ڈوڈا کا ایک مزار تھا۔
……….زیارت پر پابندی
سکھوں کے عہد حکومت میں ملتان کے سکھ دیوان ساون مل نے اس زیارت پر پابندی لگانے کی کوشش کی اور تمام ہندوشں پر فی کس سو روپے جرمانہ نافذ کیا، لیکھ انیسویں صدی کے بعد ان سلطانیوں کی تعداد میں مسلسل کمی ہونا شروع ہو گئی ہے جو زیادہ تر سکھ ہو گئے ہیں۔
……….وفات ترميم
سخی سلطان 22رجب المرجب 577ھ (1181ء) کو تریپن سال کی عمر میں شہید ہوئے۔ آپ مزار مقام ڈیرہ غازی خان کے علاقہ "سخی سرورشہر”، پنجاب پاکستان میں ہے۔گل بہار گہنورآنی[4]
……..مقبرہ کی تعمیر
۔ آپؒ کا ابتدائی مقبرہ عیسیٰ خان نے بنایا۔ اس کے بعد دو ہندو بھائیوں لکھپت اور چسپت نے آپؒ کا مزار تعمیر کرایا لیکن موجودہ دربار اور مسجد کی تعمیر کا سہرا مغل بادشاہ بابر کو جاتا ہے
………سکھوں کے لیے
مزار کی عمارتیں ط میں سخی سرور کی مقبرہ اور مشرق میں ایک ٹھاکردوارہ پر مشتمل ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ بابا نانک بھی اس جگہ تشریف لائے ہیں۔سخی کے شمال مشرق میں بابا نانک کا کی یادگار تھی۔ سکھوں کے نزدیک۔ اہم جگہ تھی
…….سنگھ میلہ
، مارچ اور اپریل کے دوران ویساکھی میلہ ہے ، ۔ یہ تہوار ہندو اور مسلمان خصوصا wheat گندم کی کٹائی کے وقت مناتے ہیں۔ کچھ جگہوں پر یہ بسنت کے نام سے جانا جاتا ہے۔ پوری تاریخ میں ، مختلف مذاہب سے آنے والے پیروکاروں کی ایک بڑی تعداد سخی سرور کے پیروکار بن گئی۔
پنجاب میں مقرر نوآبادیاتی دفتر میکس آرتھر میکالف نے 1875 میں مشاہدہ کیا کہ نہ صرف مسلمان بلکہ ہندوؤں نے بھی [عرس] کے دوران مزارات کا دورہ کیا۔ ہندوستان کی 1911 کی مردم شماری میں ، 79،085 سکھوں نے سخی سرور کے پیروکار ہونے کی اطلاع دی۔ …….عمران بھٹی پوسٹ
……. عروس اور دنوں کی تقسیم
۔ ا ۔ عرس کے دوران تین بڑی جمعراتیں لگتی ہیں جن کو چنہاں، دوآبہ ، اور بیساکھی والی جمعراتیں کہا جاتاہے۔ ۔
میلے کے پہلے حصے میں فیصل آباد ، لاہور ،سرگودھا اور گوجرانوالہ ڈویژن کے لوگ شامل ہوتے ہیں ۔
اس کے بعد پورا صوبہ سندھ کے لوگ آتے ہیں ۔ بیساکھی والی جمعرات سرائیکی بیلٹ کے لوگوں کی ہوتی ہے اور آخری جمعرات میں بلوچستان کے لوگ آتے ہیں اور روحانی سکون حاصل کرتے ہیں۔…
اے وی پڑھو
چوکیل بانڈہ: فطرت کے دلفریب رنگوں کی جادونگری||اکمل خان
ڈیرہ کی گمشدہ نیلی کوٹھی !!||رمیض حبیب
سوات میں سیلاب متاثرین کے مسائل کی درست عکاسی ہو رہی ہے؟||اکمل خان