نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آگ کون بجھائے گا؟۔۔۔محمد عامر خاکوانی

کراچی جلسہ کا امپیکٹ اتنا زیادہ نہیں تھا کہ کئی روز تک زیربحث آتا، اس گرفتاری کے واقعے نے اپوزیشن کو بیٹھے بٹھائے ایک ایشو تھما دیا۔

محمد عامر خاکوانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سوال یہ نہیں کہ کون آگے بڑھے گا، کون پیچھے ہٹے گا؟ سوال یہ ہے کہ کوئی ہے جو اس بڑھتی ہوئی آگ پر پانی ڈالے اور سیاسی کشیدگی میں کمی لے آئے؟بظاہر اس کا جواب نفی میں لگ رہا ہے۔ بدقسمتی سے ہم ایسے دور میں ہیں جب غیر متنازع ثالث موجود نہیں۔ ایسے بڑے نہیں جن کی بات مانی جا سکے۔ ہمارے ہاں’’ کونسل آف ایلڈرز‘‘ نام کا کوئی غیر رسمی ادارہ بھی نہیں، جو ٹکرائو رکوانے میں اپنا کردار ادا کرے۔
بحران میں پریشر والو کا کام دے۔ دو دن پہلے ایک قاری خاتون کا فون آیا، بڑے کرب سے انہوں نے کہا کہ ہماری ترجیح پاکستان ہے، کسی کی ہار جیت سے زیادہ پاکستان کا استحکام زیادہ ضروری ہے، کراچی میں جو واقعہ ہوا،اس کے بعد سے جس انداز کا ٹکرائو ہونا نظر آ رہا ہے، اس نے شدید اضطراب کا شکار کر دیا۔بڑی دلسوزی سے خاتون نے درخواست کی کہ اس پر لکھیں اور کشیدگی کم کرنے کا تجاویز دیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اس دن ہر جگہ یہی صورتحال تھی۔ غیر سیاسی ذہن رکھنے والے لوگ بھی نیوز چینلز پر خبریں دیکھ کر مضطرب تھے۔ شکر ہے کہ آرمی چیف کے بروقت نوٹس لینے اور تحقیقات کے حکم سے کشیدگی میں کمی آئی اور بحران کسی حد تک ٹل گیا۔ اگلے دن ایک تجزیہ کار دوست سے بات ہو رہی تھی۔
کہنے لگے کہ بارہ اکتوبر ننانوے کے مارشل لاء کے بعد جو جنرل صاحبان اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف کے پاس گئے ، ان میں سے ایک نے میاں صاحب سے کہا کہ ہم نہیں چاہتے تھے کہ یہ دن آئے، افسوس کہ ایسا ہوا اور ہمیں آپ کے پاس یوں آنا پڑ رہا ہے۔تجزیہ نگار دوست نے اس واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ ایسی بحرانی صورتحال پیدا ہونی ہی نہیں چاہیے تھی۔صورتحال یہاں تک لے آنے میں کسی ایک فریق کا قصور نہیں۔ کم یا زیادہ ، دونوں فریقوں سے غلطیاں ہوئیں ۔ دیوار تک لگانے کی نوبت نہ آتی تو ایسی جارحانہ تقریریں بھی نہ ہوتیں۔ دوسری جانب ایسی تقریریں کرنے والے کو بھی سوچ لینا چاہیے تھا کہ ان سے کیا حاصل ہوگا اور نقصان کس قدر شدید ہوگا؟نفع ونقصان کا تخمینہ ضرور لگایا گیا ہوگا، مگر اندازوں کی انہی غلطیوں سے پانچ جولائی آتا اور پھر بارہ اکتوبر بھی ہوجاتا ہے۔ کراچی میں دو تین دن پہلے جو ہوا، وہ غلط تھا۔
بڑا بلنڈر تھا، جس کادفاع کرنا قطعی آسان نہیں۔ کیپٹن ریٹائر صفدر نے قائداعظم کے مزار پر جو نعرے لگائے، ہلڑ بازی ہوئی، وہ سراسر غلط تھی۔ ایسی قانون شکنی کا کوئی جواز نہیں تھا۔ کیپٹن (ر)صفدرسے غلطی ہوئی، قانون انہوں نے توڑا۔ یہاں تک بات بالکل واضح ہے، اس سے انکار کوئی نہیں کر سکتا۔ تحریک انصاف سندھ کے رہنمائوں نے ن لیگی رہنما کے خلاف پرچہ دائر کرنے کی درخواست دی۔ یہ ان کا حق تھا، کوئی اس پر بھی معترض نہیں ہوسکتا۔ وہ تھانے جا کر بیٹھ گئے اور پولیس پر متواتر دبائو ڈالتے رہے۔
ہمارے مخصوص سیاسی، سماجی منظرنامے میں یہ بھی روٹین کی بات ہے۔ ایف آئی آر درج ہوتی، نہ ہوتی، اس کو اتنا بڑا ایشو بنانے کی ضرورت نہیں تھی۔ تحریک انصاف سیاسی تنقید کرتی رہتی، پرچہ کرنے کا مطالبہ جاری رکھتی، پولیس کی جانب سے رکاوٹ تھی تو عدالت کے ذریعے بھی پرچہ ہوجاتا۔
نہ بھی ہوتا تو کون سی قیامت آ رہی تھی؟ عمران خان، طاہر القادری صاحبان نے اسلام آباد میں دھرنا ڈالا تو جی بھر کے تمام قوانین کی دھجیاں اڑائیں،کئی مہینوں تک سڑک عوام کے لئے بند رکھی، ریڈزون کی خلاف ورزی کی اور ایک مرحلے پر پی ٹی وی میں کارکن گھس گئے ۔ یہ سب خلاف قانون تھا بلکہ سڑک بلاک کرنے پر تو دہشت گردی کی دفعات لگتی ہیں ۔ ن لیگ کی حکومت ن نے شدید غصے اور فرسٹریشن کے باوجود تحمل سے کام لیا اورگرفتار کر کے عوامی جذبات بھڑکانے سے گریز کیا۔ کیپٹن ریٹائر صفدر کے معاملے میں یہ تمام معمول کے قانونی راستے موجود تھے۔
آئوٹ آف دا وے جا کر چیزوں کو مینج کرنے ، نصف شب کے بعد ہوٹل پر ریڈ کر کے کیپٹن صفدر کو گرفتار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ میں اس پر بحث کر ہی نہیں رہا کہ آئی جی پر دبائو ڈالا گیا یا نہیں ، پکڑنے کون گیا وغیرہ وغیرہ۔ اس کی انکوائری ہورہی ہے، ہمیں اس پر اعتماد کرنا چاہیے۔فائنڈنگ سامنے آئے تب رائے دینی چاہیے۔ میں تو اس پر بات کر رہا ہوں جو امر واقعہ ہے ، یعنی کیپٹن صفدر کو تین چار بجے ہوٹل پر ریڈ کر کے گرفتار کرنا۔ کور کمانڈر سندھ کی انکوائری کے نتیجے میں پولیس کی قیادت پر دبائو ڈالنا ثابت ہوجائے تو ظاہر ہے وہ مزید غلط ہوگا، لیکن کیپٹن (ر)صفدر کو روٹین کے ایک مقدمے میں گرفتار کرنے کے لئے اتنا زیادہ اتاولا ہونا سمجھ سے باہر ہے۔ اس گرفتاری سے کیا حاصل ہوگیا؟ چند گھنٹوں بعد ضمانت پر رہائی مل گئی۔ یہ ضمانت ہونا طے تھا کیونکہ جرم اتنا سنگین نہیں کہ اس پر ریمانڈ دیا جاتا۔
کراچی جلسہ کا امپیکٹ اتنا زیادہ نہیں تھا کہ کئی روز تک زیربحث آتا، اس گرفتاری کے واقعے نے اپوزیشن کو بیٹھے بٹھائے ایک ایشو تھما دیا۔ حکومت پسپا ہوئی اور اپوزیشن فرنٹ فٹ پر آ گئی۔ احتجاج کے لئے سڑکوں پر نکلی اپوزیشن کو اس سے زیادہ اور کیا چاہیے ؟پیپلزپارٹی کو داد دینی چاہیے کہ انہوں نے بڑی سمارٹ موو کھیلیں اور حکومت پلس اسٹیبلشمنٹ کو ایک طرح سے آئوٹ کلاس کر دیا۔ بلاول ایک میچور مزاحمتی لیڈر بن کر ابھرے۔ سندھ پولیس کی اعلیٰ قیادت سمیت صوبے کے تمام ایس پی اور ڈی آئی جی افسروں کے چھٹی پر جانے کے اعلان نے نقشہ ہی بدل دیا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ پولیس افسران کو سندھ حکومت کی سپورٹ حاصل تھی، ورنہ شائد ایسا نہ ہوتا۔ ممکن ہے ایسا بھی کچھ ہو، مگر ایک دو ذمہ دار صحافی دوستوں نے بتایا، جن کے سندھ پولیس کے بعض اعلیٰ افسران سے ذاتی تعلق تھا۔ان کے مطابق پولیس افسروں کی عزت نفس کو زبردست دھچکا لگا اور یہ صرف سیاسی چال نہیں بلکہ پولیس افسران کا جینوئن ردعمل تھا۔ کوئی چاہے تو اس سے اختلاف کر لے۔ یہ بات تو مگر ماننا پڑے گی کہ ایسا کرنے کا موقعہ خود وفاقی حکومت نے فراہم کیا۔ اصل سوال یہ ہے کہ کوئٹہ جلسہ میں اپوزیشن کے مقررین کا موڈ کیا ہوگا اور سیاسی کشیدگی بڑھے گی یا کم ہوگی؟ہمارے خیال میں اس وقت دونوں فریقوں کو آگ بھڑکانے کے بجائے بجھانے پر توجہ دینی چاہیے۔
وفاقی حکومت اور اداروں کو تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اپوزیشن کو اپنے سیاسی جلسوں ، احتجاج کے لئے مناسب سپیس دینا چاہیے۔ اپوزیشن رہنمائوں اور کارکنوں پر مقدمات ناپختہ سیاسی سوچ ہے۔ ایسے مقدمات سے کبھی کچھ حاصل نہیں ہوا؟ اپوزیشن کوبھی دانشمندی اور عملیت پسندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ انہیں معلوم ہے کہ ٹکرائو کے نتیجے میں ان کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ اس وقت سب سے خطرناک میاں نواز شریف کی شعلہ بار تقریریں ہیں۔کوشش کرنی چاہیے کہ اگلے جلسوں میں میاں صاحب اپنی ٹون مدھم کریں یا پھرکچھ دن اپنے موقف کی ترجمانی کے لئے مریم نواز کی خطابت پر اکتفا کریں۔
اپوزیشن کا یہ مطالبہ کہ وزیراعظم استعفا دے دیں اور نئے الیکشن کرائے جائیں ، یہ تو ظاہر ہے فوری طور پر قابل قبول نہیں ہوگا۔ اس میں اپوزیشن کی جیت اور اسٹیبلشمنٹ کی شکست اور پسپائی ہوگی۔دونوں طرف ایک ایک قدم پیچھے ہٹانا ہوگا۔ اپوزیشن کو سانس لینے کی سپیس ملنی چاہیے۔ عمران خان کے احتساب کے نعرے اپنی جگہ، یہ بہرحال حقیقت ہے کہ جو فرد یا جماعت حکومتی اتحادی ہے، اسکے حوالے سے احتساب کرنے والوں کا رویہ یکسر مختلف ہوجاتا ہے۔ایسا معتدل رویہ اپوزیشن کے حوالے سے بھی اپنایا جا سکتا ہے۔ کیسز اپنی جگہ چلیں، مگر کارروائی شفاف ،منصفانہ انداز میں آگے بڑھے ۔
انصاف ہو اور ہوتا نظر بھی آئے۔ اپوزیشن جماعتوں میں سے بعض سسٹم گرانے کا عزم لئے ہیں جبکہ پیپلزپارٹی اورچند ایک دیگر جماعتیں ایسا نہیں چاہتیں۔ جو سسٹم نہیں گرانا چاہتے، ان کے شکوے اور تحفظات دور کرنے کی ضرورت ہے۔ وفاقی حکومت کو سندھ کے جزائر کے حوالے سے آرڈی ننس واپس لینا چاہیے۔ یہ یوٹرن نہیں بلکہ حقیقت پسندی ہوگی۔ ملکی ترقی کا کوئی بھی منصوبہ صوبوں سے جنگ کر کے نہیں آگے بڑھ سکتا۔ گوادر میں ماہی گیروں کے مسائل کے حوالے سے اختر مینگل نے بات کی تھی۔ ان کی جماعت وفاقی حکومت کی اتحادی ہے۔ ماہی گیروں کے مسائل حل ہونے چاہئیں۔ اسی طرح پارلیمنٹ کی کارروائی زیادہ باوقار انداز سے چلائی جا سکتی ہے۔ پارلیمانی لیڈروں کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے یہ مسائل دور ہوسکتے ہیں۔
اپوزیشن کے ساتھ معاملات سنبھالنے ہیں تو پھر مراد سعید، فوادچودھری ، فیصل واڈا، شہباز گل جیسے پرجوش ساتھیوںکو خاموش کرنا ہوگا۔ عمران خان کو چاہیے کہ پختہ عمر، تجربہ کار پارلیمنٹرین ساتھیوں کو انوالو کریں، نصراللہ دریشک اور ان کی طرح کے سردگرم چشیدہ سیاستدانوں کو سامنے لایا جائے، پرویز خٹک میں یہ خوبی موجود ہے۔ چودھری شجاعت جیسا معاملہ فہم سیاستدان وزیراعظم کا اتحادی ہے، ان کی خدمات لی جائیں۔گورنر پنجاب چودھری سرور کوبھی مفاہمت کے عمل میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ آگ مزید نہ بھڑکے۔ بڑا تصادم ہوا تواپوزیشن کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا، مگر عمران خان یقین رکھیں کہ وہ بھی سب کچھ گنوا بیٹھیں گے۔ آگ کون بجھائے گا؟

About The Author