مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بات یہ ہے کہ میں ازلی باغی ہوں اس لیے پیپلز پارٹی کا حامی رہا ہوں۔ ظاہر ہے کہ پیپلز پارٹی باغی جماعت ہے۔ ریاست کی نہیں، خود کو ریاست سمجھنے والی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی۔ تو یہ میرے دل کے قریب ہے۔ ووٹ دوں گا تو اسی کو دوں گا۔ کبھی بھٹو اور ضیا الحق کا ذکر آئے گا تو بھٹو ہی کا نعرہ لگاؤں گا، ضیا الحق کو یزیدی قرار دوں گا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ملاؤں کو خوش کرنے کے لیے بھٹو کے اقدامات کو بھی اچھا کہوں۔ ہرگز نہیں۔
ان چیزوں کو کیس ٹو کیس دیکھنا پڑتا ہے۔ بیماری کی نوعیت دیکھ کر علاج تجویز کیا جاتا ہے۔
نواز شریف ہوں گے کرپٹ۔ آصف زرداری پر بھی بہت سے الزامات ہیں۔ موروثی سیاست مردہ باد۔ لیکن عوام ان لوگوں سے وقت آنے پر نمٹ لیں گے۔
اس وقت دیکھنا یہ ہے کہ بیماری کون سی ہے اور اس کا علاج کیا ہے۔ بیماری ہے فوج کی انتخابات اور ان معاملات میں مداخلت، جہاں اس کا کوئی کام نہیں ہونا چاہیے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں ایک ہوجائیں اور اونٹ اگر چمکارنے سے خیمے سے نہیں نکل رہا تو شور مچائیں۔
کٹھ پتلی کی فکر نہ کریں کیونکہ اونٹ بھاگے گا تو اس کے گلے میں بندھی بلی بھی دوڑ جائے گی، بلکہ خدشہ ہے کہ اسی کے پیروں تلے نہ کچلی جائے۔
اس حقیر فقیر کو خدا نے ایسا شکی مزاج بنایا ہے کہ زندگی میں ایک دن بھی کسی سپہ سالار یا کسی قاضی القضاۃ یا کسی امیر جماعت یا کسی کھلنڈرے سیاست دان کی بات پر یقین نہیں کیا۔ لیکن اگر کسی سے اچھا کام سرزد ہوجائے تو اعتراف کرنے میں بخیل نہیں۔
البتہ خاں صاحب سے کوئی اچھا کام سرزد ہونے کا امکان نہ کبھی تھا اور نہ آئندہ ہوگا۔ لکھ کے رکھ لیں۔
سنہ چورانوے کی بات ہے، میں اپنی پہلی کتاب کے لیے اشتہار لینے حبیب بینک پہنچا۔ جن افسر صاحب سے معاملہ کرنا پڑا، وہ اتفاق سے امروہے کے تھے۔ قمر رضی ان کا نام ہے۔ دانشور ہیں۔ جنگ میں کالم بھی لکھتے رہے۔ میں نے ان کے سامنے بڑی ہانکیں کہ ایسی کتاب مرتب کررہا ہوں کہ ایسی پہلے کبھی نہیں چھپی۔ یوں ہے اور ووں ہے۔ انھوں نے فہمائش کی اور کہا، میاں! آئندہ کبھی دعوے مت کرنا۔ خبردار جو ایسی باتیں سنوں۔ کیونکہ بڑی بڑی باتیں کرنے والے کام نہیں کرتے اور کام کرنے والے بڑی بڑی نہیں پھینکتے۔
لوگ کہتے ہیں کہ خان صاحب کا لاہور کا جلسہ ان کے سیاسی کرئیر کا ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ میں مانتا ہوں کہ جی ہاں، اس دن جو بڑی بڑی ہانکنا شروع کیں، وہی ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ جیونیوز کی ہیڈلائنز تو میں نے دل سے بنائیں لیکن یاروں کو بتادیا کہ اس بندے کو اقتدار ملا تو کرکٹ کی طرح چھکے ہی لگائے گا۔ چار دن پہلے ایک نیوزاینکر نے فون کرکے وہ بات یاد کی کہ آپ سچ کہتے تھے۔ میں نے کہا، نہیں، قمر رضی سچ کہتے تھے۔
گزشتہ سال میں نے جھلا کر کہا تھا کہ یہ اتنے نااہل ہیں کہ ان سے مارشل لا بھی نہیں لگنا۔ یہ جملہ نکے کے ابو کے لیے تھا۔ ابو کے نکے کا حال یہ ہے کہ نہ اس سے حکومت چل رہی ہے، نہ معیشت۔ صرف منہ چل رہا ہے۔ کل کو کسی نے نواز شریف کی طرح اس کی کنپٹی پر پستول رکھ کر استعفا مانگا تو اس سے وہ بھی نہیں لکھا جانا۔ شیریں مزاری یا شفقت محمود کو لکھنا پڑے گا۔ پتا نہیں کوئی اور اس پارٹی میں پڑھا لکھا ہے یا نہیں۔ بیانات سے تو کوئی نہیں لگتا۔
فوجیوں کو صرف وہی کٹھ پتلی اچھی لگتی ہے جو منہ چلائے یا انگلیوں پر ناچتی جائے۔ اسی لیے یہ کٹھ پتلا انگلی انگلی کرتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ اسے ایک اور کام بھی آتا ہے، لیکن ہم وہ لکھ نہیں سکتے کیونکہ اسے لکھنے کے لیے جالب کا جگر اور منٹو کا قلم چاہیے۔
ان چیزوں کو کیس ٹو کیس دیکھنا پڑتا ہے۔ بیماری کی نوعیت دیکھ کر علاج تجویز کیا جاتا ہے۔
نواز شریف ہوں گے کرپٹ۔ آصف زرداری پر بھی بہت سے الزامات ہیں۔ موروثی سیاست مردہ باد۔ لیکن عوام ان لوگوں سے وقت آنے پر نمٹ لیں گے۔
اس وقت دیکھنا یہ ہے کہ بیماری کون سی ہے اور اس کا علاج کیا ہے۔ بیماری ہے فوج کی انتخابات اور ان معاملات میں مداخلت، جہاں اس کا کوئی کام نہیں ہونا چاہیے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں ایک ہوجائیں اور اونٹ اگر چمکارنے سے خیمے سے نہیں نکل رہا تو شور مچائیں۔
کٹھ پتلی کی فکر نہ کریں کیونکہ اونٹ بھاگے گا تو اس کے گلے میں بندھی بلی بھی دوڑ جائے گی، بلکہ خدشہ ہے کہ اسی کے پیروں تلے نہ کچلی جائے۔
اس حقیر فقیر کو خدا نے ایسا شکی مزاج بنایا ہے کہ زندگی میں ایک دن بھی کسی سپہ سالار یا کسی قاضی القضاۃ یا کسی امیر جماعت یا کسی کھلنڈرے سیاست دان کی بات پر یقین نہیں کیا۔ لیکن اگر کسی سے اچھا کام سرزد ہوجائے تو اعتراف کرنے میں بخیل نہیں۔
البتہ خاں صاحب سے کوئی اچھا کام سرزد ہونے کا امکان نہ کبھی تھا اور نہ آئندہ ہوگا۔ لکھ کے رکھ لیں۔
سنہ چورانوے کی بات ہے، میں اپنی پہلی کتاب کے لیے اشتہار لینے حبیب بینک پہنچا۔ جن افسر صاحب سے معاملہ کرنا پڑا، وہ اتفاق سے امروہے کے تھے۔ قمر رضی ان کا نام ہے۔ دانشور ہیں۔ جنگ میں کالم بھی لکھتے رہے۔ میں نے ان کے سامنے بڑی ہانکیں کہ ایسی کتاب مرتب کررہا ہوں کہ ایسی پہلے کبھی نہیں چھپی۔ یوں ہے اور ووں ہے۔ انھوں نے فہمائش کی اور کہا، میاں! آئندہ کبھی دعوے مت کرنا۔ خبردار جو ایسی باتیں سنوں۔ کیونکہ بڑی بڑی باتیں کرنے والے کام نہیں کرتے اور کام کرنے والے بڑی بڑی نہیں پھینکتے۔
لوگ کہتے ہیں کہ خان صاحب کا لاہور کا جلسہ ان کے سیاسی کرئیر کا ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ میں مانتا ہوں کہ جی ہاں، اس دن جو بڑی بڑی ہانکنا شروع کیں، وہی ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ جیونیوز کی ہیڈلائنز تو میں نے دل سے بنائیں لیکن یاروں کو بتادیا کہ اس بندے کو اقتدار ملا تو کرکٹ کی طرح چھکے ہی لگائے گا۔ چار دن پہلے ایک نیوزاینکر نے فون کرکے وہ بات یاد کی کہ آپ سچ کہتے تھے۔ میں نے کہا، نہیں، قمر رضی سچ کہتے تھے۔
گزشتہ سال میں نے جھلا کر کہا تھا کہ یہ اتنے نااہل ہیں کہ ان سے مارشل لا بھی نہیں لگنا۔ یہ جملہ نکے کے ابو کے لیے تھا۔ ابو کے نکے کا حال یہ ہے کہ نہ اس سے حکومت چل رہی ہے، نہ معیشت۔ صرف منہ چل رہا ہے۔ کل کو کسی نے نواز شریف کی طرح اس کی کنپٹی پر پستول رکھ کر استعفا مانگا تو اس سے وہ بھی نہیں لکھا جانا۔ شیریں مزاری یا شفقت محمود کو لکھنا پڑے گا۔ پتا نہیں کوئی اور اس پارٹی میں پڑھا لکھا ہے یا نہیں۔ بیانات سے تو کوئی نہیں لگتا۔
فوجیوں کو صرف وہی کٹھ پتلی اچھی لگتی ہے جو منہ چلائے یا انگلیوں پر ناچتی جائے۔ اسی لیے یہ کٹھ پتلا انگلی انگلی کرتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ اسے ایک اور کام بھی آتا ہے، لیکن ہم وہ لکھ نہیں سکتے کیونکہ اسے لکھنے کے لیے جالب کا جگر اور منٹو کا قلم چاہیے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر