دسمبر 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پنجاب اور فوج، ایک لو سٹوری۔۔۔۔محمد حنیف

پی ٹی آئی کے نوجوان پاکستان میں جدیدیت کی علامت ہیں اور مجھے یقین ہے کہ انھیں پتا ہے کہ شوہر کا نام لینے سے نکاح نہیں ٹوٹتا

محمد حنیف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کبھی کبھی خوشگوار حیرت ہوتی ہے ان نوجوانوں سے مل کر جنھیں اقبال، غالب، فیض یا پروین شاکر کا کوئی شعر یاد ہو نہ ہو، جون ایلیا کا شعر ضرور یاد ہوتا ہے۔
جون ایلیا کو زندگی میں بھی بہت پیار ملا اور وفات کے بعد تو ان کے دشمن بھی انھیں حضرت جون ایلیا کہہ کر یاد کرتے ہیں۔

گوجرانوالہ جلسے میں نواز شریف نے نام لیا تو یہ بحث شروع ہو گئی کہ یہ تاریخی واقعہ ہے یا بس دودھ پتی میں ابال۔

مجھے جون ایلیا کے شعر یاد آ گئے:

شرم، دہشت، جھجھک، پریشانی
ناز سے کام کیوں نہیں لیتیں

آپ، وہ، جی، مگر، یہ سب کیا ہے
تم میرا نام کیوں نہیں لیتیں

ایک طرف سے نعرے لگے کہ تاریخی کام ہو گیا، دوسری طرف سے الزام لگا بغاوت ہو گئی ہے۔

جون ایلیا کے نوجوان مداحوں کو، جن میں سے یقیناً کئی پی ٹی آئی میں بھی شامل ہیں، شاید یہ پتا نہ ہو کہ پرانے زمانے میں شریف گھرانوں (نہیں نہیں اور بھی شریف گھرانے ہوتے تھے ) بیویاں شوہر کا نام نہیں لیتی تھیں۔ یہ بھی کہا جاتا کہ خاوند کا نام لینے سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے، تو ’منے کے ابا‘ اور یہ وہ کہہ کر نکاح بچایا جاتا تھا۔

مجھے یقین ہے کہ یہ رسم صرف کچھ زیادہ ہی شریف گھرانوں میں تھی کیونکہ میں نے گاؤں گوٹھوں میں کاشتکار خواتین کو نہ صرف خاوند کا نام لیتے سنا ہے بلکہ وہ اس کے ساتھ ایک گالی بھی جڑ دیتی تھیں کیونکہ انھیں پتا تھا کہ شوہر کو بات سمجھانے کے لیے یہ کرنا پڑتا ہے۔

جون ایلیا کے نوجوان مداحوں کو، جن میں سے یقیناً کئی پی ٹی آئی میں بھی شامل ہیں، شاید یہ پتا نہ ہو کہ پرانے زمانے میں شریف گھرانوں (نہیں نہیں اور بھی شریف گھرانے ہوتے تھے ) بیویاں شوہر کا نام نہیں لیتی تھیں

پی ٹی آئی کے نوجوان پاکستان میں جدیدیت کی علامت ہیں اور مجھے یقین ہے کہ انھیں پتا ہے کہ شوہر کا نام لینے سے نکاح نہیں ٹوٹتا بلکہ دوسروں کی ماؤں بہنوں کا نام لینے سے بھی کچھ نہیں ہوتا بس بیانیے میں رنگ بھر جاتا ہے۔

یار لوگوں کو پوری تحریک میں صرف باجوہ اور فیض کے نام یاد رہ گئے۔ مجھے تو صرف پیار کے ترانے اور کچھ میٹھے گلے شکوے سنائی دیے۔ کسی نے نہیں کہا کہ اداروں کا احترام ہے، کسی نے نہیں کہا کہ اداروں سے پیار ہے، کسی نے نہیں کہا کہ ہمیں اپنی فوج کو دنیا کی بہترین فوج بنانا ہے (حالانکہ ہمیں پرائمری سکول سے یہ بتایا جاتا ہے کہ ہماری فوج دنیا کی بہترین فوج ہے۔ )

میری آنکھوں میں اس وقت آنسو آ گئے جب کسی نے اداروں کو پلکوں سے تشبیہ دی اور یہ کہا کہ پلکیں آنکھوں کی حفاظت کرتی ہیں اور اگر پلکوں کا بال آنکھوں میں آ جائے تو آنسو نکل آتے ہیں اور پھر بال کو بھی نکالنا پڑتا ہے۔

بغاوت کی بو سونگھنے والوں کو شاید بے چینی اس لیے ہوئی کہ یہ نکاح توڑ نام وسطی پنجاب میں لیے گئے ورنہ ایسے بہت سے نام کئی سالوں سے لاپتہ افراد کے پیاروں کی جانب سے کٹوائی جانے والی ایف آئی آرز اور کورٹ پیٹیشنوں میں موجود ہیں۔

اپنے قتل سے پہلے کچھ نام بینظیر بھٹو بھی لکھ کر دے گئیں تھیں، ان میں سے ایک صاحب آج کل ہمارے وزیر داخلہ ہیں اور میٹھی سی زبان میں غداروں کے انجام کی طرف اشارے بھی کرتے رہتے ہیں۔

تاریخی طور پر غدار ہونے کے لیے یہ شرط تھی کہ آپ پنجابی نہ ہوں۔ کبھی کبھی کوئی پپو غدار پیدا ہو جاتا تھا تو اس کے ساتھ سلوک بھی پپوؤں والا کیا جاتا تھا۔ لندن سے جدہ، جدہ سے لندن وغیرہ۔ اگر وہی بات کوئی بزرگ بلوچ بھی کرے تو اس غار میں گھس کر مارا جاتا تھا۔

لیکن پچھلے دس پندرہ سالوں میں پنجاب میں غداروں کی تلاش جاری تھی اور اب اس کے نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ ایک غدار میرے آبائی شہر اوکاڑہ سے بھی برآمد کیا گیا تھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ تیس سے زائد مقدموں میں ضمانت کے بعد وہ ابھی رہا ہوئے ہیں۔ لیکن جب ان پر دوسرے مقدموں کے علاوہ دہشت گردی کا الزام لگا تو دل میں یہی آیا تھا کہ پورا ملک گھوم کر دیکھ لیا میرے شہر والوں سے زیادہ فوج سے کوئی محبت نہیں کرتا۔ خدا خیر کرے ہم اپنے آپ سے غداری کیوں کرنے لگے۔

لیکن یہ بھی یاد رہے کہ غداروں کی فصل راتوں رات نہیں اگا کرتی۔ وقت کرتا ہے پرورش برسوں۔

گلے شکوے کو بغاوت نہ ہی سمجھا جائے تو بہتر ہے کیونکہ اتنی پرانی لو سٹوری اس نئے موڑ کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ لو سٹوری کا دوسرا کردار ادارہ ہے اور جب ادارے کا سربراہ کسی سویلین سے اپنے عہدے کی ایکسٹینشن لیتا ہے، چاہے اس کے لیے سترہ منٹ کی تاریخی قانون سازی ہی کرنا پڑے، تو اس کی ایکٹینشن کے معاہدے میں ہلکی پھلکی بے عزتی کی شق شامل ہوتی ہے۔ جنرل کیانی جیسے مفکر کو بھی برداشت کرنا پڑی تھی۔

باقی اس کورونا اور آٹے دال کی قیمتوں کے بحران میں جتنے ٹرک ہوں گے اتنی ہی بتیاں، اور سیاسی بحث اسی نقطے پر آ پہنچے گی کہ آدھے دانشور قائد کے مزار کی حرمت کے بارے میں پریشان رت جگے کاٹیں گے۔ ایک سیاستدان کے مزار پر اگر سیاسی نعرے نہیں لگیں گے تو کیا قوالی ہو گی۔

یہ ایسا ہی ہے جیسے کہا جائے کہ داتا گنج بخش کے مزار پر معرفت کی بات مت کرو یا نام لے کر یا نام لیا بغیر یہ کہا جائے کہ بڑے باجوہ صاحب کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں یا یہ کہ چھوٹے باجوہ صاحب کا کسی بھی بزنس سے کیا لینا دینا۔
باقی جون ایلیا آپ کو چوائس دے گئے ہیں کہ نام نہ لینے کی وجہ شرم ہے، دہشت ہے، جھجک یا پریشانی۔ فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے۔

About The Author