محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کل تو امتحانات میں ایم سی کیوز (multiple-choice questions (MCQ)کا عام رجحان ہے۔ ہر پرچے میں اٹھارہ بیس نمبر کا ایک سوال اسی پر ہوتا ہے۔ مختلف ذیلی سوالات اس کا حصہ ہوتے ہیں، جن کے ساتھ تین چار جوابات دئیے ہوتے ہیں، ان میں سے ایک جواب درست ہوتا ہے، اس کی نشاندہی کرنا ہوتی ہے۔ ہمارے زمانے میں اس کا فائدہ یہ تھا کہ اس سوال کے تمام نمبر حاصل کئے جا سکتے تھے ، آج کل تو خیر ہر سوال کے تمام نمبرز مل جاتے ہیں ، اسی وجہ سے گیارہ سو میں سے ایک ہزارساٹھ،ستر بلکہ ایک 1090تک نمبر بھی مل جاتے ہیں۔
حیرت ہوتی ہے کہ چلیں سائنس کے مضامین خاص کر ریاضی میں سو فی صد نمبر مل سکتے ہیں، مگر اردو ، انگریزی جیسے مضامین میں مختلف استعداد رکھنے والے بے شمار بچے کیسے پچاس بٹا پچاس یا اڑتالیس نمبر لے سکتے ہیں ؟اشعار کی تشریح، خلاصہ،جملوں کا استعمال، مضمون، خط، درخواست وغیرہ میں پورے نمبر دینا کیسے ممکن ہے؟ کاش کوئی اس پر بھی تحقیق کرے کہ اتنے زیادہ نمبرز دینے کا یہ جنون کس نے شروع کیا اور اسے کس طرح برداشت کیا جا رہا ہے؟ ایک زمانے میں ریڈرز ڈائجسٹ اور اس طرح کے دیگر جرائد میں ٹرو/ فالس(True/False)کے موضوع پر مضامین شائع ہوتے تھے۔
میگزین ایڈیٹر کے طور پر ایسے بہت سے معلوماتی مضامین اپنے سنڈے میگزین میں شامل کئے۔ ان کی افادیت یہ تھی کہ بہت سے مشہور زمانہ متھ اور غلط مفروضے دور ہوجاتے ۔ عام طور سے لوگ کئی ایسے مفروضوں یا پرانی نسلوں کی بتائی ہوئی یا سنی سنائی باتوں پر یقین رکھتے ہیں جبکہ ان کی کوئی سائنسی یا عقلی حقیقت نہیں ہوتی۔ جیسے ہمارے ہاں مشہور ہے کہ کھیرے پر پانی پینے سے ہیضہ ہوجائے گا۔ یہ بے بنیاد اور فضول بات ہے۔
اسی طرح ہمارے بڑے تربوز پر پانی پینے سے روکتے تھے۔ بعد میں پتہ چلا کہ تربوز کا بیشتر حصہ خود پانی پر مشتمل ہے، اس لئے تربوز کے بعد پانی پینا بے معنی اور بچکانہ حرکت تو ہے ، مگر اس کا ہیضہ سے کوئی تعلق نہیں۔ برسوں بعد میں ایک طبی مضمون میں پڑھا کہ کھیرا، خربوزہ، تربوز دراصل جراثیم(بیکٹیریا )کا بہترین کلچر سینٹر ہیں،اگر یہ کاٹ کر فریج میں رکھے جائیں یا ویسے باہر رکھ دیں تو ان پر جراثیم چپک جاتے ہیں اور ان کی وجہ سے پیٹ کے مسائل (ہیضہ وغیرہ)ہوسکتے ہیں۔ ایسا کسی کے ساتھ ہوا ہوگا تو اس نے اپنے طور پر پانی پینے کو اس کی وجہ قرار دے دیااور یوں ایک مِتھ بن گئی۔
ہمارے سرائیکی خطے میں دہی کا استعمال عام طور سے ناشتہ یا دوپہر میں ہوتا ہے۔ جب پچیس سال پہلے لاہور آیا تو حیرت ہوئی کہ یہاں پر رات کو لسی پینے کا عام رواج ہے، ہاسٹل میں رہتا تھا تو ہم لڑکے مزے سے نیو کیمپس سے مزنگ آلو کے پراٹھے اور لسی پینے آتے، ملائی والی دہی کی پلیٹ بھی گٹک جاتے۔
اپنے گھر احمد پورشرقیہ چکر لگتا رہتا، ایک بار اپنی والدہ سے یہ بات کہہ بیٹھا۔ وہ پریشان ہوگئیں،بار بار نصیحت کرتیں کہ دہی عصر کے بعدنہیں کھانا۔آخر میں نے اپنے بیان میں ترامیم کرتے ہوئے یوٹرن لیا اور انہیں یقین دلایا کہ مجھے تو لاہوری دہی پسند ہی نہیں، دوسرے لڑکے رات کو کھاتے ہیں جبکہ میں تو اس جانب نظر اٹھا کر نہیں دیکھتا۔
تب انہیں اطمینان ہوا۔ اسی طرح ہم سرائیکی’’ مسر ‘‘زیادہ استعمال نہیں کرتے ،لاہور میں مسر چاول کا رواج ہے جبکہ ہوٹلوں میں دال کی طرح مسر بھی مقبول ڈش ہے۔ مجھے مسر پسند آئے، خاص کرلاہور پریس کلب میں سفید ابلے چاول کے ساتھ مسر کی پلیٹ ملتی ، سلاد اور رائتہ کے ساتھ جس کا لطف دوبالا ہوجاتا۔ ہماری والدہ کا خیال تھا کہ مسر گرم ہوتے ہیں اور انہیں گرمیوں میں تو قطعاً استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ لاہوریوں اور سنٹرل پنجاب کے دیگر شہروں کے مکینوں کی رائے لگتا ہے مختلف تھی، یہاں تو جون جولائی میں مسر عام کھائے جاتے۔
معلوم نہیں یہ مسر کے گرم ہونے کی عظیم تھیوری کس نے ایجاد کی تھی، مگر جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ گرم ٹھنڈی اشیا کا تصور ہمارے گھروں میں بہت زیادہ ہے، کریلے گرم ہیں،کدو ٹھنڈے ، فلاں چیز ٹھنڈی ہے، تو فلاں سرد تر وغیرہ وغیرہ۔لوگ اسی پر یقین کرتے ہیں اور اپنی نسلوں تک یہ مفروضے بڑھا دیتے ہیں، بلا سوچے سمجھے۔ چائے گرم پی جاتی ہے، مگر بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کی تاثیر ٹھنڈی ہے۔ہمارے کئی جاننے والے ایک اور تھیوری بیان کرتے کہ جس طرح لوہا لوہے کو کاٹتا ہے، اسی طرح گرمی گرمی کو کاٹے گی ، اس لئے گرمی میں چائے پی جائے۔
یہ سب کچھ ناقابل فہم ہے۔ گرم تاثیر، ٹھنڈی تاثیر اور نجانے کیا کیا۔ میرا خیال ہے کہ مختلف وجوہات کی بنا پر مختلف گھرانوں میں چند مخصوص عادات یا کھانے پینے کے خاص طریقے رائج ہوجاتے ہیں۔ مختلف قوموں، زبانوں کے گھروں میں رشتے ہوتے رہیں تو خاندان میں امتزاج بن جاتا ہے۔ جیسے پٹھان گھرانے روایتی طور پر گوشت خور ہوتے ہیں، انہیں دنبے، بکرے کی کڑاہی، پائے ، بھنے گوشت، کباب وغیرہ مرغوب ہیں۔
ایسے گھرانوں کے رشتے ایسی برادریوں میں ہوں جہاں سبزیاں زیادہ استعمال ہوتی ہیں تو ایک توازن سا آجاتا ہے۔ ابتدا میں تو اس لڑکی کو کچھ دقت ہوگی، باتیں بھی سننا پڑیں گی، گوشت خور نہ ہونے کے طعنے بھی ملیں گے۔ اس کی اگلی نسل پر ضرور ماں کے اثرات آئیں گے، پھر گھر میں آلو بینگن، آلو اروی ٹائپ ڈشز بنتی نظر آئیں گی اور بچے شوق سے کھائیں گے۔ کشمیری فیملیز میں چاول زیادہ کھائے جاتے ہیں، اکثر ابلے چاولوں کے ساتھ کوئی شوربہ یا سبزی بھی کھا لی جاتی ہے۔
سرائیکیوں میں ابلے چاول کا بالکل ہی رواج نہیں۔ وہاں ہم دال چاول کے نام پر چنے کی دال والے چاول کھاتے رہے، لاہور آ کر پتہ چلا کہ یہاں تو دال چاول کا جنون سا ہے۔ اردو سپیکنگ گھرانوں کی کچھ مخصوص ڈشز ہیں، اسی طرح مختلف زبانوں، قوموں کے اپنے اپنے رسم ورواج ہیں۔ انہی رسم ورواج کے ساتھ کچھ مفروضے، متھ اور’’ عالمگیر سچائی‘‘ ٹائپ خیالات بھی سفر کرتے رہتے ہیں۔یہ عالمگیر سچائی صرف اس خاندان تک محدود ہوتی ہے، مگر ان گھروں کی خواتین ، بچیاں یہ سمجھتی ہیں کہ یہ تو ایک طے شدہ حقیقت ہے ، جسے دنیا بھر کو تسلیم کرنا چاہیے۔
دنیا مانے نہ مانے ، ان کے مرد غریب اسے تسلیم کرنے میں عافیت سمجھتے ہیں۔ ہمارے گھر کے سالن میں ٹماٹر بہت کم استعمال ہوتا تھا، اس کے بجائے دہی کو ترجیح دی جاتی۔ وجہ یہ تھی کہ اکثر پٹھان گھرانوں میں گردے کی پتھری کا مسئلہ چلتا رہتا ہے۔ والد صاحب کو بھی مسئلہ تھا اورایک سے زائد بار یہ پتھری بنتی ٹوٹتی رہی، اس کی تکلیف بڑی شدید ہوتی ہے۔یہ عام خیال ہے کہ ٹماٹر پتھری کا باعث بنتے ہیں۔
اس لئے والدہ سبزی میں ٹماٹر منگواتی ہی نہیں تھیں۔ میری بیوی کے گھر میں دہی کے بجائے ٹماٹر کا عام رواج رہا، اس لئے وہ اکثر ڈشز میں ٹماٹر کا بے دریغ استعمال کرتی ہے۔ ان کی تھیوری یہ ہے کہ اگر ٹماٹر کا چھلکا اتار دیا جائے تو پھر پتھری نہیں ہوتی۔ وہ اپنے اس خیال کی سائنسی سپورٹ کے لئے کسی عظیم ڈاکٹر کا حوالہ دیتی ہیں جواتفاق سے دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں، اس لئے تصدیق تردید کا ٹنٹا ہی ختم ہوگیا۔ ایک اچھے ،ذ مہ دار،’’باشعور‘‘ خاوند کی طرح ہم نے کبھی اہلیہ محترمہ کی گھریلو تھیوریز اور خیالات کو چیلنج کرنے کی جسارت نہیں کی۔ جس طرح ہم نے کبھی اپنی اماں کے خیالات جھٹلانے کی بھی غلطی نہیں کی تھی۔
تب ہم دہی سے تیار شدہ سالن خوشی خوشی کھا لیتے ، آج یہی سلوک ٹماٹر زدہ سالن کے ساتھ کرتے ہیں۔ چلیں یہ تو کھانے پینے کا معاملہ ہے، دہی ہو یا ٹماٹر ، اصل بات سالن کا لذیز بننا ہے، وہ ہو تو کچھ فرق نہیں پڑتا۔ سوال مگر یہ ہے کہ کبھی کبھار ہی سہی، ٹرو /فالس کی مشق سے اپنے آپ کو گزارنا نہیں چاہیے؟ کبھی چند لمحے رک کر ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ جسے ہم طے شدہ حقیقت اور عالمگیر سچائی سمجھ رہے ہیں کیا یہ صرف ایک بے بنیاد مفروضہ یا مِتھ تو نہیں؟
صرف کھانے پینے کے حوالے سے نہیں بلکہ سماج کے مختلف پہلوئوں کے حوالے سے ایسا کیا جا سکتا ہے ۔ سب سے اہم کہ کبھی ہم نے اس پر سوچا کہ ہمیں اوپر جو ادبی، فکری اور خاص کر سیاسی نظریات، مفروضے ٹھونسے جاتے ہیں، کبھی ان کی صداقت پر بھی غور کیا جائے؟ اس تیز رفتار بھاگتی دوڑتی دنیا میں، جہاں ٹی وی چینلز پر روزانہ ہزاروں لاکھوں فقرے اچھالے جاتے، منوں ٹنوں مواد نشر ہوجاتا ہے، بہت سا ایسا جس کی صداقت کوئی جانچنے کی زحمت ہی نہیں کرتا۔
کبھی ان پہلوئوں پر بھی بات ہونی چاہیے۔ ملک، قوم،سیاست، مذہبی سیاست، ہماری زندگیاں، جو کچھ ہم پڑھتے دیکھتے سنتے ہیں، اسٹیبلشمنٹ، عدالتی نظام، پولیس، بلدیاتی ادارے وغیرہ وغیرہ۔ ان پر بات ہونی چاہیے، ان کے غلط درست (ٹرو/فالس)کو جانچنا چاہیے ، ان کے مِتھ توڑنے چاہئیں، سوچنے کے پیٹرن کو کشادہ کرنا چاہیے ۔ کیا ایسا نہیں ہونا چاہیے؟
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر