نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وتایو فقیر۔۔۔رانا محبوب اختر

وتایو کا مزار حیدرآباد میر پور خاص روڈ پر ٹنڈو اللہ یار سے کوئی پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر قبا سٹاپ کے ساتھ روڈ سے چند سو میٹر کے فاصلے پر ہے

رانامحبوب اختر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بندے کی خدائی میں مشینیوں کی حکومت ہے۔قحط الرجال کے مارے لوگ قہر الرجال سے مرتے ہیں۔نوح ہراری کی کتاب، "اکیسویں صدی کیلئے اکیس سبق” پڑھتے پڑھتے ہم وتایو فقیر جیسے رجل کے مزار پر پہنچے ہیں اور قبر کے کتبے سے لگے فاتحہ پڑھتے ہیں۔چھوٹے سا کمرہ ہے۔کمرے پر ٹین کی چھت ہے۔دروازے اور کتبے کے درمیان ہر چند کہیں کہ فاصلہ ہے، نہیں ہے۔بر مزارِما غریباں نے چراغِ نے گلِ، نہ پروانے جلتے ہیں اور نہ بلبل کی صدا ہے۔بدیسی قاتلوں کے نام پہ ہم بچوں کے نام رکھتے ہیں۔دانائی اور مستی کے پیکر ، وتایو کا نام تک نہیں جانتے۔ قبر کے کتبے پہ ،” سندھ کا سچار، صوفی درویش ، وتایو فقیر” لکھا ہے۔اس تحریر کے اوپر فقیر کا ایک شعر لکھا ہے” کبھی میں ایسا تھا جیسے تم ہو اور کبھی تم ایسے ہوگے، جیسے میں ہوں”۔ڈیرہ غازی خان کا ایک سچار، گانمن خاں تھا۔ اس کی قبر کے کتبے پہ ایک طرف لکھا ہے، "یار فاتحہ پڑھتا جا اور دوسری طرف لکھا ہے کہ یہاں پڑا میں تیرے فاتحے کا محتاج تو نہیں "۔کہ موت بے بسی ، بے نیازی اور اداسی ہے مگر تم اس کا شعور نہیں رکھتے۔ایک اداسی وتایو کے شعر میں بھری ہے! بزلہ سنجی، ذہانت اور دانش کی آمیزش کی روایت صدیوں پرانی ہے۔بیربل، ملا نصیرالدین اور شیخ چلی کی کہانیاں مزاح اور دانش کے ملاپ سے زندگی کی سچائیوں کو آشکار کرتی ہیں۔ مگر لوک دانش کی تاریخ میں ٹنڈو اللہ یار کے وتایو فقیر کا وہ مقام ہے جو عشق کی دنیا میں بھنبھور کی سسی کا ہے!
حیدر آباد سے ٹنڈو اللہ یار کا سفر آنکھوں کی ضیافت ہے۔ہر طرف سبزہ ہے۔باغ ہیں۔باغوں کے بیچ مال روڈ سی سڑک ہے۔سرسبز ، زرخیز اور امیر سندھ ہے۔ غریب ہاری ہیں! سڑک کے دونوں طرف تا حدِنظر آموں کے باغ اور سبزہ ہے۔ دنیا کے قدیم ترین پستک، رگ وید کے دسویں منڈل کے پچھترھویں سوکت میں سندھ کے بارے میں لکھا ہے” سندھ گھوڑوں سے مالامال، رتھوں سے مالا مال، کپڑے بستر سے مالامال،عمدہ بنائے گئے زیورات سے مالا مال،کھانے پینے کی چیزوں سے مالامال اور ہمیشہ تازہ اناج سے مالا مال ہے۔۔۔اور خوش قسمت سندھو کے کنارے شہد دینے والے پھولوں سے آراستہ پودے ہیں”۔ ہمارے راستے پر آموں کے باغ آراستہ ہیں۔ شہد سا میٹھا سوم رس آموں میں بند ہے۔غالب آم پرست تھے۔وہ ادھر آ نکلتے تو دلی کبھی واپس نہ جاتے۔غالب نے آموں کی شان میں ایک مثنوی” در صفت ِانبہ” لکھی:
انگبیں کے سر بمہر گلاس
بھر کے بھیجے ہیں بہ حکمِ رب الناس
وتایو کا مزار حیدرآباد میر پور خاص روڈ پر ٹنڈو اللہ یار سے کوئی پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر قبا سٹاپ کے ساتھ روڈ سے چند سو میٹر کے فاصلے پر ہے۔سرسبز کھیتوں کے درمیان وتایو سوتا ہے۔ مزار سے ذرا پہلے شیخ لوہیھنڑو کی قبر ہے جو وتایو کے مرشد اور دوست تھے۔ان کا نام شیخ عبدالمعالی تھا۔لحن ِداوء دی رکھتے تھے۔لوہیھنڑو تھے۔خوش الحانی ان کے نام میں چھپی ہے۔جب وہ تلاوت کرتے تو درختوں کے پتے ساکت ہو جاتے۔مزار وتایو کی قبر سے ذرا پہلے ہے۔ایک شخص جس کی دائیں ٹانگ پہ فالج گرا تھا، وتایو کی قبر تک ہمارا رہنما تھا۔ وہ پہلے اپنے بائیں گھٹنے پہ ہاتھ رکھتا، دوہرا ہوتا اور پھر سیدھا ہو کر قدم اٹھاتا تھا۔اس کی چال میں ایک رمز تھی۔ایک نیم اپاہج کہتا تھا کہ وتایو کے یاتری پاوں کی قدر جانیں اور پولیو کے قطرے پلانے والوں کو مارنا چھوڑ دیں!
وتایو انیسویں صدی عیسوی کے آدمی ہیں۔شاہ عنایت کے پچیس ہزار فقیر شہید ہو چکے ہیں۔موہن جو دڑو کے بعد شاہ لطیف سندھ کے کلچر کی دوسری بڑی علامت بن چکے ہیں۔ کلہوڑوں کی حکمرانی ہے۔ایک ایسا سماج جو دھاڑیلوں کی حملہ آوری اور ابتری کے باوجود پر اعتماد ہے اور اپنے آپ پر ہنسنا جانتا ہے۔کہ ہر مزاحیہ بات ایک ننھا سا انقلاب ہوتی ہے!
وتایو نام کے کئی معنی ہیں۔ عربی میں وطایہ کے معنی کچل دینا ہے۔”الوطئہ” کا مادہ "و- ط-ا” ہے، جس کے معنی پامال کرنا ہے۔وطایو روایتی سامراجی دانش کو کچلتا ہے۔سندھی انگریزی لغت میں وتایو کے معنی غریب اور مسکین کے ہیں۔وتایو کی جڑ "وتنڑ” لگتی ہے یعنی سر کے اوپر کوئی چیز گھما کر قربان کرنے کو ” وتانا” کہتے ہیں۔ سرائیکی مائیں پیار سے کہتی ہیں،” تیڈے اتوں وتیج پوواں” یعنی تیرے اوپر قربان جاوں۔پروفیسر ناگپال کا خیال ہے کہ وتایو ” وات ” یعنی منہ سے نکلا ہے! وتایو کے نام کا دوسرا لفظ فقیر، فقر سے ہے۔علامہ اقبال نے کہا:
دارا و سکندر سے مردِفقیر اولی
ہو جس کی فقیری میں بوئے اسداللہی
عربی میں فقیر کا مطلب وہ شخص ہے جس کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹی ہوئی ہو۔پیر فقیر ، مرشد اور بزرگ کو بھی کہا جاتا ہے۔فقیر کا متضاد غنی ہے۔غنا اہل ِنظر کے نزدیک بے نیازی ہے۔وتایو وہ فقیر ہے جو دانش سے غنی ہے۔مضحکہ خیزی اس کے ہاں معنی خیزی ہے۔ مجذوب جو محبوب ہوا۔ وہ مزہبی تفریق سے ماورا ہے۔وتایو کے والد کا نام میلو رام اور چچا کا نام سادھو رام تھا۔لوہانہ قبیلے کے یہ لوگ امر کوٹ میں کپڑے کی تجارت کرتے تھے۔پھر وتایو کا خاندان نصر پور آگیا۔نصر پور ایک شہر تھا عالم میں روزگار۔یہ کپڑے کی تجارت اور کاشی گری کا بڑا مرکز تھا۔وتایو نصر پور کے ساتھ تاج پور میں پیدا ہوا۔تاریخ ِپیدائش پر اختلاف ہے۔تاہم پروفیسر میمن عبدالمجید سندھی کی تحقیق کے مطابق وتایو 12 جنوری 1768 کو پیدا ہوا۔ وتو مل نام پایا۔نصر پور مردم خیز ہے۔اڈیرو لال بھی نصر پور کے تھے۔لیلا چنیسر کے قصے میں جھکرو ایک وزیر ہے جو اپنی فیاضی اور بہادری کی وجہ سے مشہور ہے۔جس کے بارے میں شاہ لطیف نے کہا ” کہ مٹی ہی اتنی تھی جس سے جھکرو بنایا گیا”۔ نصر پور کی مٹی مگر زرخیز ہے کہ وہاں اڈیرو لال اور وتایو کے بعد کافی کے بادشاہ،سید مصری شاہ نے جنم لینا تھا!روایت ہے کہ وتایو کے والد میلو رام مسلمان ہوئے تو ان کا نام شیخ عبدالحلیم اور چچا سادھو رام کا نام شیخ عبدالعلیم رکھا گیا اور وتو مل کا نام شیخ طاہر ہوا۔اڈیرو لال کو بھی بعض لوگ شیخ طاہر کہتے ہیں۔لوک حافظے کا نصابی تاریخ سے ambivalentرشتہ ہے۔اسی لئے ایک شیخ طاہر لوک حافظے میں اڈیرو لال اور دوسرا شیخ طاہر ، وتایو فقیر ہے!
وتایو فقیر محبت کے آدمی تھے۔کہتے ہیں کہ ندی کنارے وتایو نے ایک حسینہ کا روشن چہرہ دیکھا۔جام درک نے ایسے چہرے کو چاند کو بجھا دینے والا یا moon extinguisherکہا ہے۔ایک فارسی نابغے کا شعر ہے:
بہم بست مو را بصد آب و تاب
گرہ داد شب را پس ِآفتاب
اس نے بالوں کو باہم یوں باندھا کہ جیسے رات کو سورج کے پیچھے باندھ دیا ہو۔وتایو کو ایک ایسی ہی محبوبہ کا دیدار ہوا تھا۔پیار ہوا تھا۔عشق اور مشک چھپتے نہیں۔ محبت کی کہانی عام ہوئی اور وتایو کی محبوبہ کا غریب خاندان چہ میگوئیوں سے گھبرا کر راتوں رات گوٹھ سے ہجرت کر گیا۔حسینائیں پریوں کی طرح ہوتی ہیں، کوہ قاف سے آتی ہیں، جلوہ گری کرتی ہیں اور پھر ایک دن کوہ قاف کی گھپاوں میں گم ہو جاتی ہیں۔ وتایو اب فقیر ہوا۔حسن کی دیوی روٹھی تو دانش کی دیوی وتایو پر مہربان ہو گئی تھی۔اب وہ کھیتی باڑی اور مال مویشی چھوڑ گوٹھ گوٹھ دیوانہ وار گھومتا تھا۔ دانش و دانائی تقسیم کرتا تھا۔درجنوں قصے اس کی ذات سے منسوب ہیں!مگر ایک اور المیہ ابھی وتایو کا منتظر تھا۔وتایو کے دوست شیخ لوہیھنڑو کی وفات نے وتایو کو یکسر بدل دیا۔ان کی وفات کے بعد وتایو کبھی اپنی بستی سے نہیں نکلا اور مرتے دم تک اپنے گوٹھ کا ہو رہا۔وتایو فقیر اور شیخ لوہیھنڑو کی دوستی شمس اور رومی،خسرو اور حسن سنجری مادھو لال اور شاہ حسین ، سرمد اور ابھے چند سی معرفت تھی۔ 19 جون 1831 کو 63 سال کی عمر میں وتایو ایک مہ وش محبوبہ اور ایک خوش الحان دوست کی جدائی کے داغ دل میں لئے سندھ کی گود میں سو گئے۔ دانا فقیر کے دل میں دو گہرے گھاو تھے کہ عشق میں دانش و دانائی کام نہیں آتے اور ہجر مار رکھتا ہے !ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ان کی حکایتوں پر کبھی ہنستے اور کبھی گہری سوچوں میں ڈوب جاتے ہیں مگر وتایو کی دانائی کوبروئے کار لانے سے انکار کرتے ہیں۔ہجر سے مرتے ہیں۔محبت سے ڈرتے ہیں۔ہنسنے کو عیب جانتے ہیں۔ایسے میں وتایو کے قصے لوگوں کو نارمل رکھنے کا منتر ہیں۔ ایک یاتری مگر سگھڑ ہو گیا ہے۔کتھاکرتا ہے!!

About The Author