فہمیدہ یوسفی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آگ اس قدر شدید اور ہولناک تھی کہ لاشوں کی شناخت ناممکن تھی اور بہت سی سوختہ لاشوں کو ایسے ہی تدفین کردیا گیا تھا۔ اس المیے میں مرنے والوں کی
زیادہ تر تعداد کی عمر تیس سال سے بھی کم ان غریب مزدوروں کی تھی جو ملک کے مختلف علاقوں سے روزی روٹی کی خاطر شہر کراچی میں آئے تھے۔
کتنے گھر بربا د ہوگئے۔ بچ جانے والے آج بھی اس سانحے کو یاد کرکے پھوٹ پھوٹ کر روتے ہیں اپنوں کو یاد کر کر کے تڑپتے ہیں ایک ہی جھٹکے میں
ان کی زندگی روزگار اور اپنے چھن گئے۔
اس المناک سانحے کو پاکستان کے نائن الیون بھی کہا جائے تو کم نہ ہوگا۔
پاکستان میں گارمنٹ اور ٹیکسٹائل صعنت میں مزدوروں کی حالت زار
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے درآمدی شعبے میں کام کرنے والے مزدوروں کی حالت زار بے تحاشہ مخدوش ہے۔ اکثر فیکٹریاں یا تو
رجسٹر نہیں ہیں یا پھر وہاں موجود مزدوروں کے پاس کسی قسم کے حقوق نہیں ہیں ۔
سانحہ بلدیہ ٹاؤن دہشتگردی ہی نہیں مجٖرمانہ غفلت کا منہ بولتا ثبوت
سانحہ بلدیہ ٹاؤن میں بھی یہ بات سامنے آئی صحت اور حفاظت کے حالات کا جائزہ لینے کے لیے لیبر انسپیکٹر کے دورے تو دُور کی بات یہ فیکٹری تو
سندھ کے محکمہ لیبر سے بھی رجسٹرڈ نہیں تھی۔ اس بات پر کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ اگر دروازے بند نہ ہوتے اور کھڑکیاں لوہے کی جعلی سے بند نہ
ہوتیں تو اس قدر بڑے جانی نقصان سے بچا جاسکتا تھا۔
بدقسمتی سے فیکٹری کی عمارت میں نہ تو فائر الارم کا کوئی مناسب انتظام موجود تھا اور نہ ہی ہنگامی حالات میں عمارت سے باہر نکلنے کے راستے تھے۔
بلدیہ ٹاؤن فیکٹری سانحہ اور جرمن کپمنی
علی انٹرپرائزز فیکٹری اپنی مجموعی پیداوار کا 80 فیصد حصہ جرمنی سے تعلق رکھنے والی ٹیسکٹائل ڈسکاؤنٹ چَین کے آئی کے کو فراہم کرتی تھی۔
ہماری تحقیقات کے دوارن کیس کے وکلا نے بتایا کہ کم از کم چار سال کے مذاکراتی عمل کے بعد کے آئی کے متاثرین کے گھر والوں کو طویل المدت بنیادوں
پر 51 لاکھ 50 ہزار ڈالر زرِ تلافی کے طور پر دینے پر راضی ہوئی۔
یہاں یہ بھی بات قابل ذکر ہے کہ یہ معاہدہ عدالت سے باہر کسی بھی انفرادی خریدار کے ساتھ صنعتی شعبے میں حادثات کی تاریخ کا سب سے بڑا تصفیہ کہا
جاتا ہے جبکہ جرمن کمپنی نے متاثرین کے گھر والوں کی فوری امداد کے لیے سندھ ہائی کورٹ کے ذریعے 10 لاکھ ڈالر کی رقم بھی فراہم کی تھی۔
زرِ تلافی کی رقم 2017ء سے متاثرین کے ورثا اور زندہ بچ جانے والوں کو بطور ماہانہ پینشن فراہم کی جا رہی ہے۔
اس اسکیم پر سندھ ایمپلائز سوشل سیکیورٹی انسٹی ٹیوشن کی مدد سے عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔
دیکھتے ہیں کہ اس سانحے میں کب کیا ہوا
گیارہ ستمبر 2012 حب ریور روڈ پر علی انٹرپرایز میں خوفناک آگ بھڑک اٹھی جس کی وجہ سے 260 بے گناہ جل کر راکھ ہوگئے۔
اس سانحے پر سب سے پہلے علی انٹرپرائزز مالکان سائیٹ لمیٹڈ اور سرکاری اداروں کے خلاف درج ہوا۔ فیکٹری مالکان کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا گیا،
تاہم بعد میں ان پر غفلت کے الزامات عائد کردیے گئے۔
واضح رہے کہ ابتدائی طور پر فیکٹری میں لگی آگ کے اس واقعے کو حادثاتی قرار دیا گیا تھا لیکن اس کے بعد اس حادثے پر شکوک شہبات اٹھنا شروع
ہوئے اور مختلف تحقیقاتی کمیٹیاں بھی بنیں اور جوڈیشل کمیشن بھی قائم کیا گیا۔
جے آئی ٹی کی رپورٹ پانچ برس بعد منظر عام
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ اس سانحے میں بیرونی اور سیاسی عناصر کا دباؤ اس قدر زیادہ تھا کہ اس سانحے پر ڈھائی برس بعد یعنی جون 2015 میں
بنائی جانے والی جے آئی ٹی کی رپورٹ پانچ برس بعد منظر عام پر آئی۔
دوسری جانب سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کی پیروی رینجرز پراسیکیوشن نے کی۔
تین تفتیشی افسران چار سیشن ججز اور چھ سرکاری وکلا تبدیل ہوئے
یاد رہے کہ اس سانحے کی تفتیش کے دوران تین تفتیشی افسران تبدیل ہوئے جبکہ 4 سیشن ججز نے اس کیس کی سماعت سے معذرت کی اور 6 سرکاری
وکلا نےدھمکیوں کےباعث یہ مقدمہ چھوڑ دیا تھا۔
سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس سیاسی مصلحتوں اور دباؤ کا شکار ہوا؟؟
اس سلسلے میں راوا نیوز سے بات کرتے ہوئے اس کیس کے متعلقہ وکلاء اور لیبر یونین رہنماؤں نے کہا کہ اس کیس کا آٹھ سال بعد فیصلہ آنا ہی ایک سوالیہ
نشان ہے جبکہ یہ کیس سیاسی مصلحتوں کا شکار ہوا جبکہ اس کیس کے وکلا نے یہ بھی بتایا کہ اس کیس کو روکنے کی کوششیں بھی جاری رہیں جسکی وجہ
سے اس کیس کو بہت نقصان پہنچا۔
سال 2014 میں فیکٹری مالکان ارشد بھائیلہ، شاہد بھائیلہ اورعبدالعزیزعدالتی اجازت کے بعد دبئی چلےگئے۔
آگ لگی نہیں بلکہ لگائی کیس کا نیا موڑ
اس کیس کا سنسنی خیز موڑ تب آیا جب چھ فروری 2015 کو رینجرز نے عدالت میں رپورٹ جمع کرائی کہ کلفٹن سے ناجائز اسلحہ کیس میں گرفتار ملزم
رضوان قریشی نے انکشاف کیا ہےکہ فیکٹری میں آگ لگی نہیں بلکہ لگائی گئی تھی۔
آگ لگانے کی وجہ بھتہ تھا؟؟
آگ لگانےکی اہم وجہ فیکٹری مالکان سے مانگا گیا 20کروڑ روپے کا بھتہ تھا۔ ملزم کی جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق حماد صدیقی نے بھتہ نہ دینے پر
رحمان عرف بھولا کو آگ لگانے کا حکم دیا جس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر آگ لگائی۔
فیکٹری مالکان نے بھتہ مانگنے کا اعتراف کیا
اس کے بعد 2015 میں ڈی آئی جی سلطان خواجہ کی سربراہی میں جے آئی ٹی بنائی گئی جس نے دبئی میں جاکر فیکٹری مالکان سے تفتیش کی جنہوں نے
تسلیم کیا کہ ان سے بھتہ مانگا گیا تھا۔ سال 2016 میں جے آئی ٹی پر چالان ہوا۔ اسی سال دسمبر میں رحمان بھولا کو بینکاک سے گرفتارکیا گیا۔
کیس سٹی کورٹ سپریم کورٹ سے انسداد دہشت گردی کی عدالت تک
کیس کا مقدمہ پہلے سٹی کورٹ میں چلا اور پھر سپریم کورٹ کی ہدایات پرکیس کو انسداد دہشتگردی میں چلایا گیا۔
جنوری 2019کو کیس کےمرکزی ملزم عبدالرحمان بھولا اور زبیر چریا فیکٹری میں آگ لگانے کے بیان سےمکرگئے تھے۔
دوستمبر2020 کو گواہان کےبیانات اوروکلا کےدلائل مکمل ہونے پردہشت گردی کی خصوصی عدالت نے مقدمہ کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
آٹھ سال کے بعد آخر کار رحمان بھولا اور زبیر چریا کو سزائے موت
آخر کار انسداد دہشتگردی کی عدالت نے سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس میں رحمان بھولا اور زبیر چریا کو سزائے موت سنادی۔
جبکہ ایم کیوایم رہنما رؤف صدیقی سمیت چار افراد کو عدم ثبوتوں کی بنیاد پر بری کر دیا۔
بری ہونے والوں میں ادیب خانم، علی حسن قادری اور عبد الستار بھی شامل ہیں۔
انسداد دہشتگردی کی عدالت نے چار ملزمان کو سہولت کاری کا جرم ثابت ہونے پر سزا سنائی۔
سزا پانے والے سہولت کاروں میں ارشد محمود، فضل، شاہ رخ اور علی احمد شامل ہیں۔
سانحے کے بچ جانے والوں کے تاثرات
راوا نیوز نے اس سلسلے میں اس حادثے میں بچ جانے والے معذور ہوجانے والے شہزاد علی سے خصوصی بات چیت کی جو ایک بار پھر اس حادثے کو یاد
کرکے آبدیدہ ہوگئے ان کا کہنا تھا کہ اس شام فیکٹری میں آگ لگنے کے بعد قیامت کا منظر تھا کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ہوا کیا انہوں نے بتایا کہ وہ
فیکٹری کہ سیکنڈ فلور پر کام کرتے تھے۔
یہاں یہ بتانا قابل ذکر ہے کہ علی انٹرپرایزسینتالیس ہزار فٹ سکوائر یارڈز پر قائم اس فیکٹری میں بیسمنٹ، گراؤنڈ، میزنائن اور ان کے علاوہ ایک اور منزل
تھی۔ گراؤنڈ فلور میں ویئر ہاؤس اور واشنگ ایریا تھا، میزنائن پر لکڑی کا فلور تھا جس پر لوہے کے گاڈر تھے، فرسٹ فلور پر ’سٹچنگ یونٹ‘ اور دوسری
منزل پر بھی ایسا ہی یونٹ تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ جب آگ لگی تو وہ نیچے بھاگے اس دروان بہت سارے لوگ گھٹن اور اندھیرے سے گر گئے تھے جب وہ اندازے سے گراؤنڈ فلور پر پہنچے
تو گیٹ باہر سے بند تھا جسکے بعد وہ واشہ دوسری منزل کی طرف بھاگے کیونکہ فیکٹری میں آگ بھڑک چکی تھی اس کے بعد کھڑکی کی گرل توڑ کر
چھلانگ لگادی جب ہوش آیا تو ہسپتال میں تھے۔
انہوں نے بتایا کہ اس سانحے نے ان کی زندگی کو تباہ کردیا معذوری بے روزگاری جبکہ بیانات کے لیے مختلف سرکاری اداروں کے لوگوں کا آنا جانا بھی رہا
جبکہ دھمکیوں کا سلسلہ بھی جاری رہا ۔ تاہم انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ ان کو پنشن مل رہی ہے جبکہ ان کے علاج کا سارا خرچہ اس وقت کی سندھ حکومت نے
کیا تھا جبکہ اس وقت کے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے بھی ان سے ہسپتال میں آکر ملاقات کی تھی اور ان کو معاوضہ بھی دیا تھا۔ تاہم انہوں نے شکوہ
کیا کہ کہ وہ حکومت کی روایتی بے حسی کا شکار ہیں اور ان کی اب کو یہ سنوائی نہیں ہورہی ان کی اپیل ہے کہ ان کے لیے کچھ باعزت روزگار کا بندوبست
کیا جائے۔
سانحے میں اپنے بھائی کو کھودینے والی ایک بہن نے اپنا نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ آٹھ سال بہت مشکلوں اور مجبوریوں سے گزرے ہیں کمانے والا بھی
چلاگیا اور ہمارا کوئی پرسان حال بھی نہیں جبکہ ان کا کہنا بھی یہی تھا کہ اس کیس میں بہت دباو اور دھمکیوں کا سلسلہ جاری رہا جبکہ متاثرین عدالت کی
فیصلے سے مطمئن نظر نہیں آئے۔
اس آگ کی لپیٹوں نے نہ جانے کتنے آشیانے خاکستر کردیے جبکہ اس سانحے نے یہ ایک بار پھر ہمارے نظام عدل و انصاف پر بھی سوال کھڑے کردیئے ہیں
یہ وہ آگ ہے جو لگی تو آٹھ سال پہلے تھی لیکن اب تک نہیں بجھ سکی۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ