نومبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مسائل بات چیت ہی سے حل ہوتے ہیں۔۔۔حبیب بلوچ

ماضی میں پیچیدہ ریاستی، مذہبی یا مسلکی مسائل کا ایک ہی حل سمجھا جاتا رہا ہے اور وہ جنگ کی صورت میں سامنے آتا تھا۔

حبیب بلوچ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم اپنی روزمرہ زندگی میں طرح طرح کے مسائل کا سامنا کرتے ہیں۔ کچھ مسائل معمولی نوعیت کے ہوتے ہیں، کچھ ذاتی نوعیت کے۔ کاروباری اور سماجی نوعیت کے مسائل کچھ پیچیدہ سے نظر آتے ہیں۔ معاشی، معاشرتی اور قومی نوعیت کے مسائل اور تنازعات سنجیدہ نوعیت کے ہوتے ہیں۔ مگر ان تمام مسائل کا ایک ہی حل ہے۔ اور وہ ہے مل بیٹھ کر بات چیت کرنا۔

انسان کا مسائل اور تنازعات کے ساتھ واسطہ نیا نہیں ہے۔ یہ روز اول سے انسان کا پیچھا کرتے آئے ہیں اور ابد تک پیچھا کرتا رہیں گے۔ انسان معمولی اور ذاتی نوعیت کے مسائل خود ہی حل کرلیتا ہے۔ پیچیدہ قسم کے مسائل کے حل کے لیے اسے دوسروں کے مدد کی ضرورت پڑتی ہے۔ اکثر مواقع پر اسے ثالثی کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ کہیں پنچایت کا سہارا لینا پڑتا ہے تو کہیں کورٹ کچہری کے چکر لگانے پڑتے ہیں۔ قومی یا بین الاقوامی سطح کے مسائل یا تنازعات کے لیے اقوام متحدہ یا عالمی عدالت جیسے اداروں سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔

ماضی میں پیچیدہ ریاستی، مذہبی یا مسلکی مسائل کا ایک ہی حل سمجھا جاتا رہا ہے اور وہ جنگ کی صورت میں سامنے آتا تھا۔ دو فریقین آمنے سامنے آجاتے اور ایک کی فتح اور دوسرے کی شکست یا موت کی صورت میں انجام ہوتا تھا۔

یہ عمل دنیا بھر میں ہوتا رہا ہے۔ اس میں خطے، نسل، مذہب کی قید کبھی نہیں رہی۔ یونانی ہوں یا رومی، ایرانی ہوں یا عرب، ترک ہوں یا کوریائی، عیسائی ہوں یا مسلمان، جہاں جس کا بس چلا، زور چلاتا رہا۔ اس عمل میں ہم زبان، ہم نسل یا ہم مذہب کجا، بھائی نے بھائیوں تک کو نہیں بخشا، باپ اور بیٹا تک آمنے سامنے آتے رہے۔

مگر مسائل اور تنازعات کے حل کے لیے جب سے بات چیت کا سہارا لیا گیا، جنگ و جدل، کشت و خون کے واقعات میں کمی ضرور آئی ہے۔ تاہم اب بھی کچھ ایسے خطے موجود ہیں جہاں اس عمل کو دہرانے کی ضرورت ہے۔

سولہویں صدی کے اوائل میں عیسائی مذہب کے دو فرقوں کیتھولک اور پروٹیسٹنٹ کے درمیان گھمسان کی جنگ چڑ گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کا دائرہ تقریباً نصف سے زائد یورپ تک پھیل گیا۔ موجودہ جرمنی اس کا مرکز تھا۔ سویڈن، ڈنمارک، اسپین، فرانس، آسٹریا اور دیگر ممالک، ریاستیں اور رجواڑے اس جنگ کے کردار تھے۔ یہ جنگ تیس سال یعنی 1618ء سے 1648ء تک جاری رہی اور تقریباً 80 لاکھ افراد اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

پھر اچانک کچھ مختلف ہوگیا۔ فریقین میں سے کچھ افراد نے بیک ڈور ڈپلومیسی کا عمل شروع کردیا۔ دونوں جانب سے مجموعی طور پر 109 افراد پر مشتمل مندوبین نے اس جنگ سے چھٹکارے کے لیے بات چیت کا عمل شروع کیا ۔یہ بہت پیچیدہ، کٹھن اور مشکل عمل تھا۔ اس عمل میں تمام مندوبین نے کبھی بھی ایک ساتھ شرکت نہیں کی۔

اس طرح کی کوششیں ماضی میں یقینا ہوئی تھیں مگر بڑے پیمانے پر بات چیت کے ذریعے جنگ روکنے کا یہ عمل پہلی بار ہورہا تھا۔ اس عمل کی ناکامی کے امکانات زیادہ اور کامیابی کے کم تھے۔ مذاکرات کے دوران دونوں فریقین کے درمیان اعتبار کا یہ عالم تھا کہ آپس میں مل کر بیٹھنے کے بھی روادار نہیں تھے۔ آغاز میں دونوں فریق موجودہ جرمنی کے دو شہروں منسٹر اور اوسنابرک میں علیحدہ علیحدہ بیٹھ کر اپنی حکمت عملی طے کرتے اور بات چیت کے لیے چند افراد کا انتخاب کرکے انھیں ایک جگہ جمع ہونے کا موقع فراہم کیا جاتا۔

مذاکرات کا یہ عمل دو سال جاری رہا اور تین عشروں تک جاری رپنے والی مسلکی جنگ بات چیت کے ذریعے بالآخر اکتوبر 1648ء میں اپنے اختتام کو پہنچی۔ یہ دنیا کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا موقع تھا کہ جنگ کے بجائے بات چیت کے ذریعے اتنا بڑا اور پیچیدہ تنازعہ حل ہوا۔ اس معاہدے کو ویسٹ فیلیا ٹریٹی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بلوچستان میں جاری وسائل کی جنگ ہو، سندھ پنجاب اور دیگر صوبوں کے درمیان پانی کا تنازع، گیس، گولڈ، کاپر اور بجلی کی تیاری کی رائلٹی کا مسئلہ ہو یا بندرگاہوں کو صوبوں کے حوالے کرنے کا عمل یا ان سے جڑے دیگر معاملات، انھیں بات چیت ہی سے حل کیا جاسکتا ہے۔

فریقین اگر اعتبار، اعتماد، برداشت اور عزت و احترام ملحوظ خاطر رکھیں اور برابری کے حق کو تسلیم کریں تو تمام مسائل حل کیے جاسکتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بشکریہ :بے لاگ ڈاٹ کام 

About The Author