نعیم مسعود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوگوں کو آصف علی زرداری سے کئی شکوے ہیں، دوچار شکایات ہمیں بھی ہوں گی، باوجود اس کے یہ کم بخت دل انہیں یاد کرنے سے باز نہیں آتا۔ بقول شکیل بدایونی
یوں تو ہر شام امیدوں میں گزر جاتی ہے
آج کچھ بات ہے جو شام پہ رونا آیا
جانے کیوں لگ رہا ہے کہ الیکشن 2023کا نقشہ بھی کچھ الیکشن 2008جیسا ہوگا، اب الیکشن 2002کی طرح ممکن نہیں رہا۔ یاد دہانی کیلئے، الیکشن 2002میں ق لیگ بطور پاکستان مسلم لیگ حکومت اور وجود میں آئی اور اس کے باوجود پیپلز پارٹی سے ’’پٹریاٹ‘‘ توڑے گئے تو بیل منڈھے چڑھی۔ وہ الگ بات ہے بی۔اے پاس ممبرانِ اسمبلی بھی آکاس بیل ہی ثابت ہوئے۔ پٹریاٹ سازی سے قبل مخدوم امین فہیم کو وزارتِ عظمیٰ کی آفر ہوئی مگر وہ جمہوری اور اصولی راستے سے ٹس سے مس نہ ہوئے تاہم ڈاکٹر شیر افگن نیازی (والد، امجد خان نیازی حاضر سروس ایم این اے سکنہ میانوالی)، فیصل صالح حیات، راؤ سکندر اقبال اور نوریز شکور وغیرہ لگ بھگ بیس لوگ پیپلزپارٹی سے مکھ موڑ گئے اور کمال تاثر یہ دیا کہ جلاوطن محترمہ کو واپس لائیں گے اور انہی کی اجازت سے حکومتی چوغوں سے دامن گیر ہوئے ہیں مگر تھا یہ سب جھوٹ، اپنی اپنی مجبوریاں اور خواہشات غالب تھیں، اور وفا مغلوب۔
الیکشن 2008کیا تھا، یہ بھی دیکھ لیجئے۔ جب پاکستان مسلم لیگ عرف مشرف لیگ ہار گئی تو شیخ رشید نے فرمایا تھا کہ مہنگائی کی لائن میں لگے ہوئے چہروں کی عیاں بےبسی ہی سے ہم نے پڑھ لیا تھا کہ شکست ہمارا مقدر ہوگی (ایسا ہی اب لگ رہا ہے)، اہلِ نظر کو یاد ہوگا 2002تا 2008بڑے بڑے ٹیکنوکریٹس کو کنٹریکٹ پر ادارے سیدھے کرنے کیلئے امپورٹ کیا گیا، علاوہ بریں ظفراللہ جمالی کو وزارتِ عظمیٰ سے فارغ کرکے جناب شوکت عزیز کو ورلڈ بینک سے وزارتِ عظمیٰ کیلئے درآمد کیا گیا۔ جمالی صاحب اور شوکت عزیز کے درمیان چھوٹی سی باری بطور عبوری وزیراعظم چوہدری شجاعت حسین کو بھی دی گئی مگر سب بےکار گیا۔ عوام مطمئن نہ ہوئے اور الیکشن 2008میں امپورٹد کوالٹی اور پٹریاٹی تاثر خس و خاشاک ہوئے۔ (ایسی بےجا امپورٹ اس حکومت میں بھی بہت ہے)۔ زردارانہ مصلحت و مصالحت نے انتہائی مخالف نواز شریف کو اعتماد میں لیا، مکالمہ کیا اور دوریوں کو نزدیکیوں میں بدلا، جب نوازشریف نے بےنظیر کی شہادت پر الیکشن کا بائیکاٹ کیا تو اسے مکالمہ سے قائل کیا کہ بائیکاٹ ہرگز نہیں، اس مکالمہ کے اعتماد نے ن لیگ کو پنجاب میں حکومت دی اور الیکشن 2013میں وزارتِ عظمیٰ بھی ۔ زرداری مکالمہ ہی تھا کہ پنجاب میں دو اڑھائی سال پیپلزپارٹی شہباز شریف حکومت کا حصہ اور مرکز میں ابتدائی دن ہی سہی ن لیگ زرداری حکومت میں شامل ہوئی اور جمہوریت کو سانس لینے کی سہولت میسر آئی۔
مکالمہ نہ ہوتا تو ناکام ق لیگی حکومت کا تواتر ہی رہتا، اور کوئی 18ویں ترمیم 1973کے آئین کو خوشبو دار کرتی نہ جمہوریت کا بول بالا ہوتا۔ مکالمہ بند گلی سے راستہ نکالتا ہے۔ مکالمہ روایتی حریفوں کو ریاستی محبت میں یک رنگ کرتا ہے۔ سیاسی و سماجی مسائل کے حل کیلئے ڈائیلاگ چابی کا کام کرتا ہے۔ الجھاؤ اور جھگڑے سے کنی کترانے کیلئے ڈائیلاگ سے بڑا کوئی ٹول نہیں۔ جمہوری فلاسفی کو دیگر آلودہ سیاسی نظاموں سے پاک صاف رکھنے کیلئے صرف مکالمے ہی کی طاقت کارآمد ہے۔ پارلیمنٹ میں دو طاقتیں ہی پارلیمانی نظام کو معراج بخش سکتی ہیں، ایک، سننے کی صلاحیت اور دوسری، سنانے کا تدبر۔ پارلیمنٹ وہ جگہ ہے جہاں روایات کے امین، سیاست کے مکین، امیروں و غریبوں کے نگہبان، اپنے حلقوں کے سلطان، بزرگ و نوجوان، مختلف مکاتب فکر کے قدردان، تاجران و کسان و مل مالکان، خواجہ و مزدور اور اکثریت و اقلیت، پاسبان و راہبران و زاہدان موجود ہوتے ہیں۔ اگر وہ مکالمہ کی اہمیت و افادیت کو تقویت بخشیں گے تو ریاست کے خارجہ و داخلہ امور عالمی سطح پر ٹرینڈ سیٹرز ہوں گے، اگر پارلیمنٹ میں مکالمہ کو سبوتاژ کرنے کا رواج ہوا تو خارجی طاقتیں اور داخلی حماقتیں ریاستی نظام کو اپنے پاس گروی رکھ لیں گی۔ اگر وفاق میں ڈائیلاگ کی خیر و برکت ہوگی تو صوبوں اور اضلاع میں بھی سرایت کرکے وطن کی جڑوں اور بنیادوں کو مضبوط کرے گی۔ بصورت ریموٹ کنٹرول دوسروں کے پاس ہی سمجھئے!
حالیہ حکومت کو ہزار چیلنجز کا سامنا سہی، ماضی کی حکومتوں کی غلطیاں ہی ان کی کامیابی کے راستے کی دیوار سہی لیکن اس کے باوجود ٹیبل سے پارلیمنٹ تک مکالمہ کے بغیر یہ کامیابی حاصل کرلیں، یہ ممکن نہیں۔ اگر تحریک انصاف کی حکومت مکالمہ سے بھاگ کر کوئی ٹونٹی ٹونٹی جیت بھی جائے تو ٹیسٹ میچ کی فتح سے میلوں دور رہ جانا یا ہونا ناقابلِ تلافی نقصان بنے گا، اگر اسمبلی میں اسپیکر بطور جج فرائض سرانجام نہ دے پائے، وہ کوڑھ کی کاشت کو جنم دیتا ہے۔ انسانی حقوق کو زمینی حقیقت بنانے کیلئے مکالمہ ایسے ضروری ہے جیسے زندگی کیلئے آکسیجن۔ مکالمے سے اجتناب اور طاقت و اکثریت کے زعم سے کی گئی قانون سازیوں کو آخر وہی چلتا کرتا اور 18ویں ترمیم کا اعزاز پاتا ہے جو مکالمہ کی صلاحیت سے مالا مال ہو۔ تاریخ گواہ ہے کہ زرداری صاحب نے جہاں وزیراعظم کو، بلامقابلہ، منتخب کرایا وہاں 18ویں ترمیم (8اپریل 2010) میں ریکارڈ حمایت حاصل کی حالانکہ ان کی بیساکھیوں والی حکومت لوڈشیڈنگ، دہشت گردی اور عالمی منڈی میں ڈالر و کروڈآئل و کوکنگ آئیل کی بلند و بالا قیمتوں میں گھری ہوئی تھی۔ این ایف سی ایوارڈ، سی پیک کی ابتدا، ایران سے معاہدۂ گیس، صوبہ کے پی کے نام، گلگت بلتستان صوبہ کی بنیاد (7نومبر 2009)، سندھ میں جدید اسپتالوں اور تعلیمی اداروں کا قیام، انسانی اعضا و ٹشوز کی پیوند کاری کا ایکٹ (17مارچ 2010) منظور کیا۔ آرٹیکل 243کے تحت مسلح افواج کا کمانڈ اینڈ کنٹرول وفاقی حکومت کو دیا اور صدر صرف سپریم کمانڈر مسلح افواج رہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ پارلیمنٹ کو اس کی توقیر لوٹانا اپنے ایوان صدر کے اختیارات کو خیرباد کہہ کر پارلیمان تک پہنچانا مشکل اور کم وقت میں وہ بڑے کام تھے جنہیں تاریخ یا میرا تعصب بھی نہیں مٹا پائے گا، اور سب مکالمہ تھا اور اس کا ثمر۔ سو مکالمہ پیوند خاک نہ کیجئے، صاحب!
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر