فہمیدہ یوسفی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتنا خوبصورت لفظ ہے بھائی اس ایک لفظ کے ساتھ کتنے جذبات جڑے ہوتے ہیں۔ کتنا تحفظ کتنا احترام اس لفظ کے ساتھ ذہن میں آتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں بہنوں کو کتنا مان ہوتا ہے اپنے بھائیوں پر چھوٹے ہوں یا بڑے ہوں ان کے ساتھ رشتہ ہی ایسا ہوتا ہے۔ کبھی بڑا ہے بھائی تو اس کے ساتھ ضد کرکے بائیک پر وست تک گھر جانے کی فرمائشیں ،کبھی کالج سے لیٹ تو بھائی کے ہاتھ جوڑ جوڑ کر اس کو مجبور کردینا کہ چلو چھوڑ کر آؤ اب ، کبھی اس کی سگریٹ اماں ابا سے چھپادینی اور اس بات پر معصوم سا بلیک میل کرنا کبھی اس کی گرل فرینڈ کے میسیجز کے بارے میں امی کو بتانے کی دھمکیاں تو کبھی اس کی اچھی نوکری کے لیے دعائیں تو کبھی اس کے لیے چاند سی دلہن ڈھونڈنے کی خواہش کرنا یا اپنی ہی کسی سہیلی کو اپنی بھابھی بنانے کی خواہش اگر بھائی چھوٹا ہے تو اس پر رعب جھاڑنا اس کو اپنے کاموں کے دوڑاتے رہنا اور کڑی نظر رکھنا ہوم ورک کبھی کردینا کبھی چھوٹی چھوٹی فرمائیشیں پوری کردینا اپنی پاکٹ منی سے پیسے تھمادینا۔ اپنے بھائیوں کی سلامتی کی دعائیں مانگتے رہنا۔ یہ بھی تو اس گھٹن زدہ وحشت زدہ معاشرے کا ہی پہلو ہے جہاں عزت کے نام پر بھائی اپنی بہنوں کی گردنیں اڑادیتے ہیں اسی معاشرے میں یہ رشتہ مان ہے جہاں بہنوں کو پاگل قرار دیکر ان کی جائیدادوں پر قبضہ کرلیتے ہیں رشتے کے نام پر بھائی ۔
جب بھی شاپنگ کے لیے جاؤ وہاں جہاں غلیظ نگاہیں آپ کے کپڑوں سے آپ کے جسم کا ایکسرے کررہی ہوتی ہیں وہیں ایسے دکاندار بھی ہوتے ہیں جو آپ سے کہتےہیں بس میری بہن پہلی بار آئی میری دکان پر آپ سے رعایت نہیں کرونگا تو کس سے کرونگا ؟ بھلے یہ جملہ ان کا کاروباری ہو دل کو تسلی مل جاتی ہے خوشی خوشی بہن بھائی کی دکان سے شاپنگ کرلیتی ہیں اور بھائی کا سچ مچ کاروبار چمک جاتا ہے۔
کتنا اچھا لگتا ہے سکون سا ملتا ہے کونسا سگے بھائی ہوتے ہیں لیکن پھر بھی محفوظ ہونے جیسا احساس ہوتا ہے جب آفس جاتے بس اسٹاپ پر چھبتی نگاہوں کے درمیان ایک مشفقانہ نظر جس میں صرف احترام ہوتا ہے بس روک دے یا بھر رکشہ روک دے تو کیسا احساس تشکر جاگ جاتا ہے۔
آفس میں موجود میلی نظروں کے درمیان ایک آواز آجائے ارے میری بہن میں دیکھ لیتا ہوں تو دل کو اطمینان سا ہوتا ہے کہ چلو کوئی بھائی موجود ہے ۔ سوچ رہی ہوں کیالکھوں کیسے لکھوں کیسے پوچھوں اس بھائی سے جس کی بہن کبھی دن دہاڑے اغوا ہوجائے اور اس کی لاش کسی کچرا کنڈی پر ملے؟؟
کیسے اس بھائی کے بارے میں سوچ لوں جس کی بہن کو ننگا کرکے گلیوں میں گھمایا جاتا رہاہوگا اور کیسے لکھ دوں اس بھائی کے بارے میں جس کی بہن کے لیے تاریکی نے اندھیرے لکھ ڈالے ۔
ہاں مگر سوچ رہی ہوں کہ وہ جو اپنی جنسی تسکین کے لیے کبھی کسی معصوم کلی کو کبھی کسے بچے کو کبھی کسے عورت کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں ان کے گھر میں کیا ماں بہن بیٹیاں نہیں ہوتیں ؟
کیا یہ ہوس کے غلام اسی گندگی اسے درندگی سے اپنی گھر کی عورتیں کو دیکھتے ہونگے؟؟ یا پھر غیرتمند بن کر ان کو گھر میں تالوں میں بند رکھتے ہونگے ؟؟
کیا کیا لکھیں کیسے لکھیں اب تک سکتے میں ہوں کہ جب گاڑی رکی ہوگی تو اندھیرے میں ایک بہن کے دل کو یہ تسلی تھی کہ جب اپنے محافظ بھائیوں کو کال کریگی تو اس کو ڈھارس تو تھی کہ کوئی مدد کے لیے آجائیگا لیکن آئی تو قیامت اور ایسی کہ ہر بہن پریشان ہر بیٹی حیران ہے ہر ماں سکتے میں۔
موٹر وے حادثے پر جو کہا جائے کم ہے جو لکھا جائے کم ہے ،
ہاں لیکن سی سی پی او صاحب سے پوچھنا تھا کہ ان راستوں کے محافظ آپ ہیں جس پر وہ کم نصیب سفر کرنے نکلی تھی۔
ہاں درست ہے کہ معافی مانگ لی لیکن اگر اس معافی سے اس کے دل پر مرہم ہو تو ضرور ،
ہاں اور یہ بھی ضرور ہے کہ جب بھی کوئی بہن راستہ بھولے تو راستہ ضرور بتادینا کیونکہ بھائیوں پر بہت مان کرتی ہیں بہنیں تو بھائی راستہ بھٹک گئی ہوں پلیز راستہ بتادیں بتادینگے نا؟؟
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر